مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا جس کی وجہ سے مجھے بہت مار پڑی تھی
جب ہم لوگ چھوٹے ہوتے تھے تو ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں جایا کرتےتھے ۔ اور خوب موج مزہ کرتے تھے ۔
تو ہوا یوں کہ جو حضرات گاؤں دیہات میں رہتے ہیں انہیں پتا ہوگا کہ گرمیوں میں شام کے بعد چھوٹے چھوٹے مینڈک بہت بڑی تعداد میں نکل آتے
ہیں اور کیڑے مکوڑے وغیرہ پکڑ کر کھاتے ہیں ۔ ایک دفعہ میرے ذہن میں آیا کے آج بہت سارے مینڈک پکڑنا چاہیئے تو جناب میں نے روٹیاں پکانے
والا چمٹا پکڑا ، ایک کپڑے کا تھیلا لیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔ چمٹے سے مینڈک پکڑتا اور تھیلے میں ڈال دیتا اس کام میں میرا چھوٹا بھائی میری مدد کررہا تھا، اس نے تھیلا پکڑا ہوا تھا ۔ جب ہمنے کافی سارے مینڈک پکڑ لیئے تو سوچا کہ اب ان کا کیا کرنا چاہئے تو چھوٹے بھائی نے کہا کہ بھائی اس کو باہر
پھینک دیتے ہیں اور چمٹا دھو کر رکھ دیتے ہیں ۔ تو میں نے ایسا ہی کیا اور تھیلے کا منہ بند کرکے گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پر پھینک دیا اس
سڑک پر بہت زیادہ ٹریفک نہیں چلتی تھی ۔ خیر جناب صبح فجر سے کچھ پہلے میری آنکھ کھلی لوگوں کے شور سے میں گھر سے باہر آیا تو نانا، میرے 2
ماموں اور گاؤں کے کچھ لوگ جمع تھے اور بیچ میں وہی مینڈکوں والا تھیلا پڑا ہوا تھا ، اور اسکی حالت کچھ یوں تھی کہ آدھا تھیلا خون سے تر زمین سے
چپکا ہوا ہے کہ اس پر سے کسی ٹریکٹر ٹرالی کا پہیہ گزرگیا تھا اور آدھا تھیلا حرکت کر رہا تھا مینڈکوں کے اچھلنے سے ۔ تمام منظر یوں دکھ رہا تھا جیسے
تھیلے میں کوئی بچہ یا جانور تھا جس کا آدھا دھڑ کچلا جا چکا تھا اور وہ جانکنی کے عالم میں تھا ۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ ہائے پتا نہیں
کس ظالم کی حرکت ہے یہ اور وہ ظالم(باباجی) مظلوم صورت بنائے ان کے درمیاں کھڑا تھا اتنے میں وائے قسمت میرا چھوٹا بھائی بھی اٹھ کر آگیا
اور بغیر سوچے سمجھے بولا کہ بھائی "کیا سب مینڈک مرگئےََ" تو بس جناب میرے نانا ابو نے مجھے دیکھا اور گھر کے اندر چلے گئے پھر میرے بڑے
ماموں نے مجھے پکڑا اور گھر کے اندر لے آئے اور میری خالص پنجابی غصے والی امی کو اٹھایا اور میری شکایت لگ گئی ۔ تو جناب میری امی مجھے وہ
"گیدڑ کُٹ" لگائی کہ مت پوچھیں ایک تو صبح صبح گہری نیند سے اٹھنے کا غصہ اور اوپر سے مجھ جیسے شریف نظر آنے والے شیطان کی شکایت نے
ان کے اندر دگنی طاقت و غصہ بھر دیا اور مجھے اتنا مارا امی نے کہ میری شکایت لگانے والے گھبراگئے اور بمشکل میری جان بچائی ۔ میرے نانا تو
باقائدہ امی سے ناراض ہوگئے کہ اتنی بھی بری بات نہی تھی جو اس قدر بے رحمی سے مارا ۔ اور میرا چھوٹا" بھائی اُلّو کا۔۔۔۔" آرام سے اندر جا کر سوگیا اسے پتاہی نہیں کہ میرے اوپر کیا بیت گئی ۔ خیر بعد میں اسے ڈرا کر کہ میں اس کی بھی شکایت لگاؤں گا ،میں نے اس سے آئسکریم کھائی
اور میں نے توبہ ایسی حرکتوں سے اور کسی بھی جاندار کو تنگ کرنے اور نقصان نا پہنچانے کا ارادہ کیا ۔
(قسم سے اتنی مار کبھی بھی نہیں کھائی
)