صرف سچ بیتیاں

نیرنگ خیال

لائبریرین
ارے ! بڑی بہنوں کی مار بعد میں کتنا رلاتی ہے ٓپ بعد میں یاد کریں گے ۔مجھے اپنی بڑی بہن کے پڑے ہوےتھپڑآج بھی بہت یاد ٓاتے ہیں ۔
انکل میں تو مار کھانے کو تیار ہوں۔ بھلا مجھے کونسا پہلی بار پڑنی ہے۔ ویسے آجتک مجھے گھر سے مار نہیں پڑی:p
 

باباجی

محفلین
انکل میں تو مار کھانے کو تیار ہوں۔ بھلا مجھے کونسا پہلی بار پڑنی ہے۔ ویسے آجتک مجھے گھر سے مار نہیں پڑی:p
اور مجھے آج تک باہر سے مار نہیں پڑی
گھر سے تو اتنی پڑی کہ ایک بار پولیس والے نے تھپڑ مارا تو بالکل اثر نہیں ہوا
تب پتا چلا کہ امی کتنا زور سے مارتی ہیں کہ اس کے آگے پولیس کی مار بھی کچھ نہیں :cool:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اور مجھے آج تک باہر سے مار نہیں پڑی
گھر سے تو اتنی پڑی کہ ایک بار پولیس والے نے تھپڑ مارا تو بالکل اثر نہیں ہوا
تب پتا چلا کہ امی کتنا زور سے مارتی ہیں کہ اس کے آگے پولیس کی مار بھی کچھ نہیں :cool:
بابا جی باہر سے مار نہیں پڑی تو کیا پولیس والا گھر میں ہے جس نے تھپڑ مارا:eek:
 

باباجی

محفلین
بابا جی باہر سے مار نہیں پڑی تو کیا پولیس والا گھر میں ہے جس نے تھپڑ مارا:eek:
او یار کالج لائف میں تو آپ کو پتا ہے اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے
ایک ہڑتال کے دوران بھاگتے ہوئے ایک پولیس والے نے ہاتھ گھمایا
تو ہاتھ کے راستے میں میرا منہ آگیا
لیکن امی نے مار مار کے اتنا پکا کیا ہوا تھا کہ کچھ اثر نہیں ہوا
ہاں البتہ منہ پر ظاہر ہوگیا تھا
نیل پڑ گیا تھا :mad:
 

سید زبیر

محفلین
آج آپ کو ایک نصیحت آموز واقعہ سناتا ھوں ۱۹۶۶ میں کوہاٹ میں ایک چھوٹے گوشت کے قصائی کی دکان تھی بہت نفیس قسم کا وہ شخص تھا۔ پنجاب سے تعلق تھا۔ کوہاٹ میں پنجاب کے بہت کاروباری لوگ گذشتہ کئی دہائیوں سے آباد ہیں نفاست کا یہ عالم تھا کہ گوشت فروخت کرتے ہوئے بھی ان کا لباس سفید تہمند، سفید کرتا اور سفید شملہ ھوتا ۔گوشت کے ساتھ ہی حقہ پڑا ہوتا ۔یہ فوج کو گوشت بھی سپلائی کرتے جو روزانہ سینکڑوں کلو ہوتا۔ بہت خوشحال تھے ساتھی دکانداروں کو قرضہ بھی دیا کرتے تھے اس دور میں بکرا چالیس پچاس کا آجایا کرتا تھا اور گوشت ڈیڑھ پونے دو روپے سیر ہوتا تھا۔ میں نے ان صاحب کوغالباۖ ۱۹۶۹ میں اس حالت میں دیکھا کہ زمین پر گھسٹ گھسٹ کر اس بازار میں پانچ پانچ پیسے کی بھیک مانگ رھے تھے۔جن ہم نشیں دکانداروں کو جو شخص سینکڑوں میں قرض دیتا تھا آج اس کے جسم پر کوڑھ نکلی ہوئی تھی اور بھیک مانگ رہا تھا ۔طبیعت بہت خراب ہوئی ، ایک دکاندار سے وجہ دریافت کی تو بقول اسکے یہ شخص روزانہ صبح جب جانورذبح کرتا تھا تو جانور کو چاروں ٹانگوں سے پکڑ کر بہت بے رحمی سے زمین پر پٹخا کرتا تھا اور ظالمانہ انداز سے ذبح کرتا تھا۔ وللہ عالم بالصواب​
سچ ہے عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں​
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے​
اللہ تبارک تعالی ہمیں ظلم کرنے سے اور ظالم سے بچائے [آمین]​
 

باباجی

محفلین
آج آپ کو ایک نصیحت آموز واقعہ سناتا ھوں ۱۹۶۶ میں کوہاٹ میں ایک چھوٹے گوشت کے قصائی کی دکان تھی بہت نفیس قسم کا وہ شخص تھا۔ پنجاب سے تعلق تھا۔ کوہاٹ میں پنجاب کے بہت کاروباری لوگ گذشتہ کئی دہائیوں سے آباد ہیں نفاست کا یہ عالم تھا کہ گوشت فروخت کرتے ہوئے بھی ان کا لباس سفید تہمند، سفید کرتا اور سفید شملہ ھوتا ۔گوشت کے ساتھ ہی حقہ پڑا ہوتا ۔یہ فوج کو گوشت بھی سپلائی کرتے جو روزانہ سینکڑوں کلو ہوتا۔ بہت خوشحال تھے ساتھی دکانداروں کو قرضہ بھی دیا کرتے تھے اس دور میں بکرا چالیس پچاس کا آجایا کرتا تھا اور گوشت ڈیڑھ پونے دو روپے سیر ہوتا تھا۔ میں نے ان صاحب کوغالباۖ ۱۹۶۹ میں اس حالت میں دیکھا کہ زمین پر گھسٹ گھسٹ کر اس بازار میں پانچ پانچ پیسے کی بھیک مانگ رھے تھے۔جن ہم نشیں دکانداروں کو جو شخص سینکڑوں میں قرض دیتا تھا آج اس کے جسم پر کوڑھ نکلی ہوئی تھی اور بھیک مانگ رہا تھا ۔طبیعت بہت خراب ہوئی ، ایک دکاندار سے وجہ دریافت کی تو بقول اسکے یہ شخص روزانہ صبح جب جانورذبح کرتا تھا تو جانور کو چاروں ٹانگوں سے پکڑ کر بہت بے رحمی سے زمین پر پٹخا کرتا تھا اور ظالمانہ انداز سے ذبح کرتا تھا۔ وللہ عالم بالصواب​
سچ ہے عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں​
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے​
اللہ تبارک تعالی ہمیں ظلم کرنے سے اور ظالم سے بچائے [آمین]​
بالکل سچ فرمایا آپ نے سیّد صاحب
آجکل تو گناہوں کی سزا زندگی میں ہی ملنا شروع ہوجاتی ہے
آجکل کا دور صحیح معنوں میں پل صراط پر چلنے کا دور
اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج آپ کو ایک نصیحت آموز واقعہ سناتا ھوں ۱۹۶۶ میں کوہاٹ میں ایک چھوٹے گوشت کے قصائی کی دکان تھی بہت نفیس قسم کا وہ شخص تھا۔ پنجاب سے تعلق تھا۔ کوہاٹ میں پنجاب کے بہت کاروباری لوگ گذشتہ کئی دہائیوں سے آباد ہیں نفاست کا یہ عالم تھا کہ گوشت فروخت کرتے ہوئے بھی ان کا لباس سفید تہمند، سفید کرتا اور سفید شملہ ھوتا ۔گوشت کے ساتھ ہی حقہ پڑا ہوتا ۔یہ فوج کو گوشت بھی سپلائی کرتے جو روزانہ سینکڑوں کلو ہوتا۔ بہت خوشحال تھے ساتھی دکانداروں کو قرضہ بھی دیا کرتے تھے اس دور میں بکرا چالیس پچاس کا آجایا کرتا تھا اور گوشت ڈیڑھ پونے دو روپے سیر ہوتا تھا۔ میں نے ان صاحب کوغالباۖ ۱۹۶۹ میں اس حالت میں دیکھا کہ زمین پر گھسٹ گھسٹ کر اس بازار میں پانچ پانچ پیسے کی بھیک مانگ رھے تھے۔جن ہم نشیں دکانداروں کو جو شخص سینکڑوں میں قرض دیتا تھا آج اس کے جسم پر کوڑھ نکلی ہوئی تھی اور بھیک مانگ رہا تھا ۔طبیعت بہت خراب ہوئی ، ایک دکاندار سے وجہ دریافت کی تو بقول اسکے یہ شخص روزانہ صبح جب جانورذبح کرتا تھا تو جانور کو چاروں ٹانگوں سے پکڑ کر بہت بے رحمی سے زمین پر پٹخا کرتا تھا اور ظالمانہ انداز سے ذبح کرتا تھا۔ وللہ عالم بالصواب​
سچ ہے عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں​
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے​
اللہ تبارک تعالی ہمیں ظلم کرنے سے اور ظالم سے بچائے [آمین]​
جبکہ واضح الفاظ میں حکم ہے کہ اپنے ذبیحہ کو راحت دو۔ اور قربانی کے مسائل بہت واضح انداز میں بیان کیئے گئے ہیں۔ اللہ ہمارے عیبوں پر پردہ رکھے اور ہمیں دنیا میں تماشہ نہ کرے۔ بے شک وہ ذات تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
دھاگے کا عنوان سچ بیتیاں ہے اس لیے ایک پڑھی ہوئی سچ بیتی اور اپنا ذاتی واقعہ محفلین کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں شائد پسند آئے۔​
یہ ۱۸۷۰ کی دہائی کا ذکر ہے ایک بارہ سالہ بچہ نیو جرسی کے ایک قصبہ کی گلیوں میں چیزیں بیچا کرتا تھا ایک دن وہ بہت بے جان سا ہو گیا تھا تھکاوٹ بہت تھی اس نے سوچا کہ کسی گھر سے کوئی کھانے کی چیز مانگتا ہوں ۔ اس نے ایک دروازہ کھٹکھٹایا ایک نوجوان لڑکی نکلی ۔ بچے نے کھانے کے بجائے اس سے پانی مانگا شائد اسے کھانے کے لیے کچھ مانگنے کی ہمت نہ ہوئی ہو بہر حال لڑکی کو اندازہ ہو گیا کہ بچہ بہت بھوکا اور پیاسا ہے وہ گھر کے اندر گئی اور ایک بڑا دودھ کا گلاس لے آئی ۔ بچہ دودھ پی گیا ۔ بچے کے پاس کل دس سینٹ تھے اس نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ میں کیا ادا کروں ۔لڑکی نے جواب دیا کہ کچھ نہیں مجھے میری والدہ نے بتایا ہے کہ نیکی کی قیمت نہیں لیتے ۔​
پندرہ سال بعد ایک عورت بیمار ہوتی ہے قصبہ کے ڈاکٹر علاج کے لیے شہر کے بڑے ہسپتال میں بھیج دیتے ہیں ۔ جہاں ڈاکٹر معائینہ کے بعد بڑے ڈاکٹر کے پاس مشورے کے لیے اس کی فائل بھیجتے ہیں ۔ ڈاکٹر اپنے قصبہ کا نام سنتا ہے تو خو دمریضہ کے پاس آتا ہے اور مریض کا انتہائی جانفشانی سے علاج کرتا ہے خدا کا کرنا کہ مریضہ رو بصحت ہو جاتی ہے ۔ ڈاکٹر ہسپتال کی انتظامیہ کو ہدائت کرتا ہے کہ اس کے علاج کا بل یرے پاس بھیج دیں ۔جب بل آتا ہے تو ڈاکٹر اس پر لکھتا ہے کہ ایک گلاس دودھ ی صورت بل کی رقم وصول ہوگئی۔ جب یہ بل مریضہ کو دیا جاتا ہے تو مریضہ کے آنسو نکل آتے ہیں اور ہ کہتی ہے اللہ تیرا شکر ہے کہ تیری محبت لوگوں کے دلوں اور ہاتھوں سے پھیل رہی ہے
یہ ڈاکٹر ہاورڈ ایٹووڈ کیللے تھا جو جانز ہاپکنز ہسپتال کے چار بڑے بانی ڈاکٹروں میں سے ایک تھا ۲۰ فروری ۱۸۵۸ کو نیو جرسی کے ایک قصبہ میں پیدا ہوا۔۱۸۸۲ میں ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی ۔ درج ذیل ویب سائٹ پر یہ سب تفصیلات موجود ہیں​
اب اسی پر مجھے ایک اپنا واقعہ بھی یاد آگیا لگے ہتھوں وہ بھی پڑھتے جائیں​
۱۹۷۴میں جب میں سائنس کے سا مان کی سپلائی کا کام کرتا تھا ۔میرے ایک دوست تھے محمد اسلم ۔ وہ این ڈی وی پی پروگرام کے تحت کوہاٹ کالج میں اکنامکس کے لیکچرر تھے ۔ چند ماہ بعد یہ پروگرام ختم ہو گیا اور وہ بے روزگار ہوگئے ۔ ایک دن شدید پریشانی میں وہ میری دکان پر آ کر اپنی بے روزگاری کی وجہ سے رو پڑے میں نے انہیں حوصلہ دیا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں آ ج سے میرا جو منافع ہو گا اس کا ۲۵ فیصد آپ کا ۔ اور آپ دکان پر کسی کام کے پابند نہ ہونگے ۔ تین ماہ بعد اللہ نے کوئی سبیل پیدا کی اور ان کا مسقط جانا ہوگیا تین ماہ کا میں نے انہیں ۲۲۰۰ روپے منافع دیا ۔اس دور میں کلاس ون افسر کی تنخواہ ۳۷۵ اور ۴۲۵ روپے کے درمیاں ہوتی تھی ۔ بات آئی گئی ہوگی دوستوں نے انہیں رخصت کیا ۔ ۱۹۹۷ میں اس واقعے کہ ۲۲ سال بعد یہ دوست خاصے خوشحال ہو چکے تھے ۔مکان جائداد بنا لی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں کوہاٹ آئے تو مجھے دیکھا کہ میں سائیکل پر شام کو ٹیوشن پڑھانے جاتا ہوں ۔ مجھ سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس موٹرسائیکل ہو تو تم تھکوگے بھی نہیں اور شائد ایک ٹیوشن اور پڑھا سکو ۔ بات صحیح تھی کہنے لگے اب بتاو کہ موٹر سائیکل لوگے یا ویسپا سکوٹر ، میں نے کہا سکوٹر استعمال کیا ہوا ہے یہ ٹھیک رہے گا ۔میں نے دل میں سوچا کہ اگلے سال جب یہ چھٹیوں میں مسقط سے کوہات آئینگے تو میں انہیں پیسے واپس کردونگا ، انہوں نے دو چار دن میں ایک سیکنڈ ہینڈ بہترین حالت میں ویسپا ۲۵۰۰۰ روپے کا میرے نام پر خرید کر مجھے دے دیا ۔ میرے لیے ایک خطیر رقم تھی ۔ سکوٹر لینے کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ انشا اللہ اگلی دفعہ جب آپ آوگے تو میں آ پ کو یہ رقم واپس کردونگا ۔ وہ ہنسے اور کہا کہ اس واقعے کو بالکل بھول جاو یہ میں نے واپس لینے کے لیے نہیں دیا ۔ آج ۲۰۱۲ میں بھی یہی مفت کا سکوٹر میرے لیے آسانیاں پیدا کر رہا ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے (آمین)​
بے شک اللہ رتی بھر نیکی بھی ضائع نہیں کرتا
 

نایاب

لائبریرین
سات سال گزر چکے تھے گھر سے دور رہتے ، اللہ کے فضل سے کفیل کے ساتھ ہوا معاملہ سلجھ چکا تھا ۔ گھر جانے سب سے ملنے کی بہت شدید خواہش تھی ۔ مگر ابھی وسائل نہ تھے کہ سفر کر سکوں ۔ اللہ انہیں سدا اپنے کرم سے نوازے جن دوستوں نے میری کیفیت کو سمجھا ۔ اور مل جل کر مجھے آنے جانے کا ٹکٹ اور ری اینٹری ویزا لگوا کر دے دیا ۔ چار دن کے بعد کی فلائٹ تھی ۔ اک طرف اگر گھر والوں سے ملنے کی خوشی تھی اور دوسری جانب اتنے عرصے کے بعد بھی خالی ہاتھ گھر جانے کا دکھ بھی ۔ جمعےکا دن تھا گھر فون کیا والدہ کو اپنے آنے کا بتایا اور ساتھ اپنے حالات سے بھی آگہی دی ۔ والدہ نے میرے آنسوؤں کو محسوس کر لیا اور کہنے لگیں کہ اللہ بے نیاز ہے وہ انشاءاللہ اپنا کرم کرے گا ۔ اگر اس تمام عرصے میں اس نے تیری دستگیری کی ہے تو ان شاءاللہ اب بھی تجھے رسوا نہیں ہونے دے گا ۔ تسلی دلاسہ دعا پا کر دل کچھ کچھ مطمئن ہوا ۔ مگر حقیقت تو سامنے تھی کہ اتنے عرصے بعد خالی ہاتھ گھر پہنچنا ہے ۔ نماز کا وقت ہوا میں چل پڑا مسجد کی جانب ۔ نماز کیا پڑھنی تھی بس گلہ شکوے اور سوچوں میں گم رہا ۔ جب مسجد سے باہر آیا تو دروازے پر اک بوڑھی عورت مانگنے والی بیٹھی تھی ۔ میری جیب میں صرف پانچ روپے تھے ۔ اسے دیکھ دل میں ہنسا کہ لے نایاب اب پانچ اسے دے گا تو سگریٹ کی ڈبیا کے لیئے ادھار کرنا پڑے گا ۔ وہ پانچ ریال اسے دیئے ۔ اور اپنے روم کی جانب آ گیا ۔ سوچنے لگا کہ یہ کیسی نیکی ہے میں نے ۔" گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے " والی مثال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی رہائیشی بلڈنگ کے دروازے سے اندر قدم رکھنے لگا تو پیچھے سے آواز آئی ۔
" یا باکستانی کہربائی " پیچھے مڑ کر دیکھا تو اک سعودی کار میں بیٹھا مجھے بلا رہا تھا ۔ میں اس کی جانب گیا تو کہنے لگا کہ
میں کل ہی سفر سے واپس آیا ہوں اور بیوی نے بتایا ہے کہ تو نے موٹر پانی والی ٹھیک کی تھی ۔ اس کی مزدوری باقی ہے ۔
کتنی مزدوری ہے اس کی ۔ ؟
میں نے کہا کہ " شیخ موٹر ٹھیک تھی بس تار اتر گئی " اور اس کی کیا مزدوری ۔
کہنے لگا نہیں جو تیرا حق ہے وہ تو ضرور لے ۔ اور زبردستی مجھے پچاس ریال دے دیئے ۔
پچاس ریال لے کر یہ سوچتا کہ " دس دنیا ستر آخر کھرا اصول ہے رب کا " ابھی کمرے میں قدم ہی رکھا تھا کہ
فون کی گھنٹی بجی ۔ فون ریسیو کیا تو اک ہسپتال میں کچھ مشینوں کے لیئے وائرنگ کی تھی ۔ اس کے مالک کا فون تھا کہ
فوری اس سے ملوں ۔ اگر صبح یہ فون آتا تو میرے پاس جانے کے لیئے کرایہ بھی نہ ہونے کے باعث اسے ٹال دیتا ۔
مگر اب جیب میں پچاس ریال تھے ۔ سو فوری ٹیکسی پکڑی اور اس کے پاس پہنچ گیا ۔
وہاں پہنچ کر دیکھا کہ مالک انجینئر سب پریشان بیٹھے ہیں ۔
مالک کہنے لگا کہ ہمیں جو وائرنگ ڈائیگرام ملا تھا اس میں سب مشینیں ٹو فیز تھیں ۔
اور اب جو مشینیں پہنچی ہیں وہ تھری فیز ہیں ۔ ہسپتال کی بلڈنگ مکمل تیار ہے ۔
اور ان تمام مشینوں کی وائرنگ زیر زمین ہے ۔ اب سارا فرش اکھاڑا جائے تو وائرنگ بدلی جا سکتی ہے ۔
فرش اکھاڑنے کا مطلب اک طرح سے ہسپتال میں بنے تقریبا سب ہی پارٹیشن روم اکھاڑنے پڑتے ۔
اور اس تمام کام میں کم از کم چھ ماہ مزید لگ جانے ہیں ۔ میں نے ان کی پرابلم کو سنا ۔
میرے دل نے کہا کہ اللہ نے سبیل بنا دی ہے ۔ میں نے مالک سے کہا
" شیخ اگر میں بنا کچھ اکھاڑے ہی تار پوری کر دوں تو کیا انعام دے گا "؟
کہنے لگا کہ تو کیا مانگتا ہے ۔ ؟
میں نے شیخ مجھے گھر جانا ہے اور میرے پاس پیسہ نہیں ہے ۔
میرا تیرا کام کر دیتا ہوں تو جو مناسب سمجھے مجھے دے دینا ۔
اور ساتھ میں کچھ رقم بطور ادھار کہ اگر واپس آیا تو ادا کر دوں گا ۔
اس نے کہا کوئی فکر نہ کر اور کام شروع کر دے ۔
میں دو مزدور ساتھ لیئے اور کام شروع کر دیا ۔ دو دن میں کام مکمل کر دیا ۔
اور شیخ کو فون کیا کہ کام مکمل ہے ۔ اس نے کہا کہ دو گھنٹے تک وہ آ جائے گا ۔
دو گھنٹے بعد وہ آیا اور انجینئرز کے ساتھ کام کو چیک کیا ۔
سب اوکے ہوگیا تو مجھے اپنے ساتھ مارکیٹ لے گیا اور کہنے لگا کہ جو بھی خریدنا چاہتا ہے خرید لے
میں نے کہا کہ شیخ مجھے نقد ضرورت ہے ، کہنے لگا کہ کتنے میں تیری ضرورت پوری ہوجائے گی ۔
میں نے دو دن کام کیا تھا دو مزدور ساتھ تھے بہت بھی زیادہ چھرا پھیرتا تو تین ہزار ریال سے زیادہ نہ بنتے ۔
میں کہا کہ شخ میری ضرورت تو پانچ ہزار کی ہے ۔
اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر گاڑی موڑ کر مجھ سے پوچھا کہ تیری رہائیش کہاں ہے ۔
اسے اپنی رہائیش کا بتایا ۔ تو کہنے لگا کہ میں پہنچا دیتا ہوں ۔
میں دل میں سوچنے لگا کہ پیسے نہیں دے رہا یہ تو ۔
ویسے ہی باتوں سے پورا کر رہا ہے ۔ گاڑی میری رہائیش کے سامنے رکی ۔
میں نیچے اترا اپنے اوزاروں کا تھیلا اتارا ۔
اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اک لفافہ مجھے پکڑا " یہ تیرا نصیب نہیں بلکہ حق ہے ۔" کہتے زن سے گاڑی نکال لے گیا ۔
میں سوچنے لگا کہ یہ تو مجھے ہی چھرا پھیر گیا ۔
بہرحال جب بجھے دل سے لفافے کو کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ دس ہزار ریال تھے ۔
بلا شک اللہ بے نیاز ہے اور دکھی مایوسی کی حد تک پہنچے دل کی پکار کو بہت نزدیک سے سنتا ہے ۔
 

سید زبیر

محفلین
زبردست تحریر ! بے شک خلوص دل کے سجدے رائیگاں جایا نہیں کرتے ۔ میرا رب تو مری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور علیم و خبیر ہے
 

سید زبیر

محفلین
حق حق حق ہے
دریا کنارے رہ کر پیاسے کیسے رہ جاتے آپ شاہ جی
بیٹا یہ بھی اللہ ہی کی رحمت ہے جو اس نے سنبھالا دیا ہو ہے بیٹا دعا یہ کہ ہماری کھوٹی کھری پونجی منزل پر پہنچ جائے ، اللہ ایسا کسی کے ساتھ بھی نہ کرے کہ منزل پر اثاثہ تباہ ہو جائے ۔ اللہ اپنی رحمت میں ہم سب کو رکھے (آمین)
 

باباجی

محفلین
مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا جس کی وجہ سے مجھے بہت مار پڑی تھی
جب ہم لوگ چھوٹے ہوتے تھے تو ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں جایا کرتےتھے ۔ اور خوب موج مزہ کرتے تھے ۔
تو ہوا یوں کہ جو حضرات گاؤں دیہات میں رہتے ہیں انہیں پتا ہوگا کہ گرمیوں میں شام کے بعد چھوٹے چھوٹے مینڈک بہت بڑی تعداد میں نکل آتے
ہیں اور کیڑے مکوڑے وغیرہ پکڑ کر کھاتے ہیں ۔ ایک دفعہ میرے ذہن میں آیا کے آج بہت سارے مینڈک پکڑنا چاہیئے تو جناب میں نے روٹیاں پکانے
والا چمٹا پکڑا ، ایک کپڑے کا تھیلا لیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔ چمٹے سے مینڈک پکڑتا اور تھیلے میں ڈال دیتا اس کام میں میرا چھوٹا بھائی میری مدد کررہا تھا، اس نے تھیلا پکڑا ہوا تھا ۔ جب ہمنے کافی سارے مینڈک پکڑ لیئے تو سوچا کہ اب ان کا کیا کرنا چاہئے تو چھوٹے بھائی نے کہا کہ بھائی اس کو باہر
پھینک دیتے ہیں اور چمٹا دھو کر رکھ دیتے ہیں ۔ تو میں نے ایسا ہی کیا اور تھیلے کا منہ بند کرکے گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پر پھینک دیا اس
سڑک پر بہت زیادہ ٹریفک نہیں چلتی تھی ۔ خیر جناب صبح فجر سے کچھ پہلے میری آنکھ کھلی لوگوں کے شور سے میں گھر سے باہر آیا تو نانا، میرے 2
ماموں اور گاؤں کے کچھ لوگ جمع تھے اور بیچ میں وہی مینڈکوں والا تھیلا پڑا ہوا تھا ، اور اسکی حالت کچھ یوں تھی کہ آدھا تھیلا خون سے تر زمین سے
چپکا ہوا ہے کہ اس پر سے کسی ٹریکٹر ٹرالی کا پہیہ گزرگیا تھا اور آدھا تھیلا حرکت کر رہا تھا مینڈکوں کے اچھلنے سے ۔ تمام منظر یوں دکھ رہا تھا جیسے
تھیلے میں کوئی بچہ یا جانور تھا جس کا آدھا دھڑ کچلا جا چکا تھا اور وہ جانکنی کے عالم میں تھا ۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ ہائے پتا نہیں
کس ظالم کی حرکت ہے یہ اور وہ ظالم(باباجی) مظلوم صورت بنائے ان کے درمیاں کھڑا تھا اتنے میں وائے قسمت میرا چھوٹا بھائی بھی اٹھ کر آگیا
اور بغیر سوچے سمجھے بولا کہ بھائی "کیا سب مینڈک مرگئےََ" تو بس جناب میرے نانا ابو نے مجھے دیکھا اور گھر کے اندر چلے گئے پھر میرے بڑے
ماموں نے مجھے پکڑا اور گھر کے اندر لے آئے اور میری خالص پنجابی غصے والی امی کو اٹھایا اور میری شکایت لگ گئی ۔ تو جناب میری امی مجھے وہ
"گیدڑ کُٹ" لگائی کہ مت پوچھیں ایک تو صبح صبح گہری نیند سے اٹھنے کا غصہ اور اوپر سے مجھ جیسے شریف نظر آنے والے شیطان کی شکایت نے
ان کے اندر دگنی طاقت و غصہ بھر دیا اور مجھے اتنا مارا امی نے کہ میری شکایت لگانے والے گھبراگئے اور بمشکل میری جان بچائی ۔ میرے نانا تو
باقائدہ امی سے ناراض ہوگئے کہ اتنی بھی بری بات نہی تھی جو اس قدر بے رحمی سے مارا ۔ اور میرا چھوٹا" بھائی اُلّو کا۔۔۔۔" آرام سے اندر جا کر سوگیا اسے پتاہی نہیں کہ میرے اوپر کیا بیت گئی ۔ خیر بعد میں اسے ڈرا کر کہ میں اس کی بھی شکایت لگاؤں گا ،میں نے اس سے آئسکریم کھائی ;)
اور میں نے توبہ ایسی حرکتوں سے اور کسی بھی جاندار کو تنگ کرنے اور نقصان نا پہنچانے کا ارادہ کیا ۔
(قسم سے اتنی مار کبھی بھی نہیں کھائی :()
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوب ! مجھے میری شہید بیٹی نے منع کیا تھا کہ ہر بات پر اپنا واقعہ نہ سنایا کریں ۔ ۔ ورنہ واقعہ تو میری جیب میں بھی تھا ۔ ۔ ۔ پر آپ کے وقعے کا مزا ہی کچھ اور ہے ۔
 
Top