صرف سچ بیتیاں

باباجی

محفلین
بہت خوب ! مجھے میری شہید بیٹی نے منع کیا تھا کہ ہر بات پر اپنا واقعہ نہ سنایا کریں ۔ ۔ ورنہ واقعہ تو میری جیب میں بھی تھا ۔ ۔ ۔ پر آپ کے وقعے کا مزا ہی کچھ اور ہے ۔
سیّد سرکار
ہماری زندگیوں میں کسی بھی پل کچھ بھی رونما ہوسکتا ہے
اور بعض اوقات یہی کچھ پل تمام زندگی ہمارا احاطہ کیئے رکھتے ہیں
کسی خاص حالات میں گزرے چند گھنٹوں کا اثر پوری زندگی رہتا ہے
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
سات سال گزر چکے تھے گھر سے دور رہتے ، اللہ کے فضل سے کفیل کے ساتھ ہوا معاملہ سلجھ چکا تھا ۔ گھر جانے سب سے ملنے کی بہت شدید خواہش تھی ۔ مگر ابھی وسائل نہ تھے کہ سفر کر سکوں ۔ اللہ انہیں سدا اپنے کرم سے نوازے جن دوستوں نے میری کیفیت کو سمجھا ۔ اور مل جل کر مجھے آنے جانے کا ٹکٹ اور ری اینٹری ویزا لگوا کر دے دیا ۔ چار دن کے بعد کی فلائٹ تھی ۔ اک طرف اگر گھر والوں سے ملنے کی خوشی تھی اور دوسری جانب اتنے عرصے کے بعد بھی خالی ہاتھ گھر جانے کا دکھ بھی ۔ جمعےکا دن تھا گھر فون کیا والدہ کو اپنے آنے کا بتایا اور ساتھ اپنے حالات سے بھی آگہی دی ۔ والدہ نے میرے آنسوؤں کو محسوس کر لیا اور کہنے لگیں کہ اللہ بے نیاز ہے وہ انشاءاللہ اپنا کرم کرے گا ۔ اگر اس تمام عرصے میں اس نے تیری دستگیری کی ہے تو ان شاءاللہ اب بھی تجھے رسوا نہیں ہونے دے گا ۔ تسلی دلاسہ دعا پا کر دل کچھ کچھ مطمئن ہوا ۔ مگر حقیقت تو سامنے تھی کہ اتنے عرصے بعد خالی ہاتھ گھر پہنچنا ہے ۔ نماز کا وقت ہوا میں چل پڑا مسجد کی جانب ۔ نماز کیا پڑھنی تھی بس گلہ شکوے اور سوچوں میں گم رہا ۔ جب مسجد سے باہر آیا تو دروازے پر اک بوڑھی عورت مانگنے والی بیٹھی تھی ۔ میری جیب میں صرف پانچ روپے تھے ۔ اسے دیکھ دل میں ہنسا کہ لے نایاب اب پانچ اسے دے گا تو سگریٹ کی ڈبیا کے لیئے ادھار کرنا پڑے گا ۔ وہ پانچ ریال اسے دیئے ۔ اور اپنے روم کی جانب آ گیا ۔ سوچنے لگا کہ یہ کیسی نیکی ہے میں نے ۔" گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے " والی مثال ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اپنی رہائیشی بلڈنگ کے دروازے سے اندر قدم رکھنے لگا تو پیچھے سے آواز آئی ۔
" یا باکستانی کہربائی " پیچھے مڑ کر دیکھا تو اک سعودی کار میں بیٹھا مجھے بلا رہا تھا ۔ میں اس کی جانب گیا تو کہنے لگا کہ
میں کل ہی سفر سے واپس آیا ہوں اور بیوی نے بتایا ہے کہ تو نے موٹر پانی والی ٹھیک کی تھی ۔ اس کی مزدوری باقی ہے ۔
کتنی مزدوری ہے اس کی ۔ ؟
میں نے کہا کہ " شیخ موٹر ٹھیک تھی بس تار اتر گئی " اور اس کی کیا مزدوری ۔
کہنے لگا نہیں جو تیرا حق ہے وہ تو ضرور لے ۔ اور زبردستی مجھے پچاس ریال دے دیئے ۔
پچاس ریال لے کر یہ سوچتا کہ " دس دنیا ستر آخر کھرا اصول ہے رب کا " ابھی کمرے میں قدم ہی رکھا تھا کہ
فون کی گھنٹی بجی ۔ فون ریسیو کیا تو اک ہسپتال میں کچھ مشینوں کے لیئے وائرنگ کی تھی ۔ اس کے مالک کا فون تھا کہ
فوری اس سے ملوں ۔ اگر صبح یہ فون آتا تو میرے پاس جانے کے لیئے کرایہ بھی نہ ہونے کے باعث اسے ٹال دیتا ۔
مگر اب جیب میں پچاس ریال تھے ۔ سو فوری ٹیکسی پکڑی اور اس کے پاس پہنچ گیا ۔
وہاں پہنچ کر دیکھا کہ مالک انجینئر سب پریشان بیٹھے ہیں ۔
مالک کہنے لگا کہ ہمیں جو وائرنگ ڈائیگرام ملا تھا اس میں سب مشینیں ٹو فیز تھیں ۔
اور اب جو مشینیں پہنچی ہیں وہ تھری فیز ہیں ۔ ہسپتال کی بلڈنگ مکمل تیار ہے ۔
اور ان تمام مشینوں کی وائرنگ زیر زمین ہے ۔ اب سارا فرش اکھاڑا جائے تو وائرنگ بدلی جا سکتی ہے ۔
فرش اکھاڑنے کا مطلب اک طرح سے ہسپتال میں بنے تقریبا سب ہی پارٹیشن روم اکھاڑنے پڑتے ۔
اور اس تمام کام میں کم از کم چھ ماہ مزید لگ جانے ہیں ۔ میں نے ان کی پرابلم کو سنا ۔
میرے دل نے کہا کہ اللہ نے سبیل بنا دی ہے ۔ میں نے مالک سے کہا
" شیخ اگر میں بنا کچھ اکھاڑے ہی تار پوری کر دوں تو کیا انعام دے گا "؟
کہنے لگا کہ تو کیا مانگتا ہے ۔ ؟
میں نے شیخ مجھے گھر جانا ہے اور میرے پاس پیسہ نہیں ہے ۔
میرا تیرا کام کر دیتا ہوں تو جو مناسب سمجھے مجھے دے دینا ۔
اور ساتھ میں کچھ رقم بطور ادھار کہ اگر واپس آیا تو ادا کر دوں گا ۔
اس نے کہا کوئی فکر نہ کر اور کام شروع کر دے ۔
میں دو مزدور ساتھ لیئے اور کام شروع کر دیا ۔ دو دن میں کام مکمل کر دیا ۔
اور شیخ کو فون کیا کہ کام مکمل ہے ۔ اس نے کہا کہ دو گھنٹے تک وہ آ جائے گا ۔
دو گھنٹے بعد وہ آیا اور انجینئرز کے ساتھ کام کو چیک کیا ۔
سب اوکے ہوگیا تو مجھے اپنے ساتھ مارکیٹ لے گیا اور کہنے لگا کہ جو بھی خریدنا چاہتا ہے خرید لے
میں نے کہا کہ شیخ مجھے نقد ضرورت ہے ، کہنے لگا کہ کتنے میں تیری ضرورت پوری ہوجائے گی ۔
میں نے دو دن کام کیا تھا دو مزدور ساتھ تھے بہت بھی زیادہ چھرا پھیرتا تو تین ہزار ریال سے زیادہ نہ بنتے ۔
میں کہا کہ شخ میری ضرورت تو پانچ ہزار کی ہے ۔
اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر گاڑی موڑ کر مجھ سے پوچھا کہ تیری رہائیش کہاں ہے ۔
اسے اپنی رہائیش کا بتایا ۔ تو کہنے لگا کہ میں پہنچا دیتا ہوں ۔
میں دل میں سوچنے لگا کہ پیسے نہیں دے رہا یہ تو ۔
ویسے ہی باتوں سے پورا کر رہا ہے ۔ گاڑی میری رہائیش کے سامنے رکی ۔
میں نیچے اترا اپنے اوزاروں کا تھیلا اتارا ۔
اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اک لفافہ مجھے پکڑا " یہ تیرا نصیب نہیں بلکہ حق ہے ۔" کہتے زن سے گاڑی نکال لے گیا ۔
میں سوچنے لگا کہ یہ تو مجھے ہی چھرا پھیر گیا ۔
بہرحال جب بجھے دل سے لفافے کو کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ دس ہزار ریال تھے ۔
بلا شک اللہ بے نیاز ہے اور دکھی مایوسی کی حد تک پہنچے دل کی پکار کو بہت نزدیک سے سنتا ہے ۔
بھیا میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اللہ کیسے اپنے بندوں کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔۔سبحان اللہ!
 

تعبیر

محفلین
اففف یہاں بھی اتنا کچھ جمع ہو گیا لیکن میں نہیں پڑھ سکی :(

زبردست تحریر ! بے شک خلوص دل کے سجدے رائیگاں جایا نہیں کرتے ۔ میرا رب تو مری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور علیم و خبیر ہے
ایس زیڈ جی اکتوبر آگیا ہے اور آپ نے کہا تھا کہ آپ ہمیں اپنی بٹیا کے بارے میں بتائیں گے بس یہی یاد دہانی کرانی تھی
اور اگر کہیں اور لکھ چکے ہیں تو پلیز مجھے ٹیگ کر دیں پیشگی شکریہ :)
 

سید زبیر

محفلین
اففف یہاں بھی اتنا کچھ جمع ہو گیا لیکن میں نہیں پڑھ سکی :(


ایس زیڈ جی اکتوبر آگیا ہے اور آپ نے کہا تھا کہ آپ ہمیں اپنی بٹیا کے بارے میں بتائیں گے بس یہی یاد دہانی کرانی تھی
اور اگر کہیں اور لکھ چکے ہیں تو پلیز مجھے ٹیگ کر دیں پیشگی شکریہ :)
تعبیر! بہت شکریہ ، یاد دہانی کرانے کا ، بہت جلد انشا اللہ لکھوں گا ۔
 

عسکری

معطل
سات سال گزر چکے تھے گھر سے دور رہتے ، اللہ کے فضل سے کفیل کے ساتھ ہوا معاملہ سلجھ چکا تھا ۔ گھر جانے سب سے ملنے کی بہت شدید خواہش تھی ۔ مگر ابھی وسائل نہ تھے کہ سفر کر سکوں ۔ اللہ انہیں سدا اپنے کرم سے نوازے جن دوستوں نے میری کیفیت کو سمجھا ۔ اور مل جل کر مجھے آنے جانے کا ٹکٹ اور ری اینٹری ویزا لگوا کر دے دیا ۔ چار دن کے بعد کی فلائٹ تھی ۔ اک طرف اگر گھر والوں سے ملنے کی خوشی تھی اور دوسری جانب اتنے عرصے کے بعد بھی خالی ہاتھ گھر جانے کا دکھ بھی ۔ جمعےکا دن تھا گھر فون کیا والدہ کو اپنے آنے کا بتایا اور ساتھ اپنے حالات سے بھی آگہی دی ۔ والدہ نے میرے آنسوؤں کو محسوس کر لیا اور کہنے لگیں کہ اللہ بے نیاز ہے وہ انشاءاللہ اپنا کرم کرے گا ۔ اگر اس تمام عرصے میں اس نے تیری دستگیری کی ہے تو ان شاءاللہ اب بھی تجھے رسوا نہیں ہونے دے گا ۔ تسلی دلاسہ دعا پا کر دل کچھ کچھ مطمئن ہوا ۔ مگر حقیقت تو سامنے تھی کہ اتنے عرصے بعد خالی ہاتھ گھر پہنچنا ہے ۔ نماز کا وقت ہوا میں چل پڑا مسجد کی جانب ۔ نماز کیا پڑھنی تھی بس گلہ شکوے اور سوچوں میں گم رہا ۔ جب مسجد سے باہر آیا تو دروازے پر اک بوڑھی عورت مانگنے والی بیٹھی تھی ۔ میری جیب میں صرف پانچ روپے تھے ۔ اسے دیکھ دل میں ہنسا کہ لے نایاب اب پانچ اسے دے گا تو سگریٹ کی ڈبیا کے لیئے ادھار کرنا پڑے گا ۔ وہ پانچ ریال اسے دیئے ۔ اور اپنے روم کی جانب آ گیا ۔ سوچنے لگا کہ یہ کیسی نیکی ہے میں نے ۔" گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے " والی مثال ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اپنی رہائیشی بلڈنگ کے دروازے سے اندر قدم رکھنے لگا تو پیچھے سے آواز آئی ۔
" یا باکستانی کہربائی " پیچھے مڑ کر دیکھا تو اک سعودی کار میں بیٹھا مجھے بلا رہا تھا ۔ میں اس کی جانب گیا تو کہنے لگا کہ
میں کل ہی سفر سے واپس آیا ہوں اور بیوی نے بتایا ہے کہ تو نے موٹر پانی والی ٹھیک کی تھی ۔ اس کی مزدوری باقی ہے ۔
کتنی مزدوری ہے اس کی ۔ ؟
میں نے کہا کہ " شیخ موٹر ٹھیک تھی بس تار اتر گئی " اور اس کی کیا مزدوری ۔
کہنے لگا نہیں جو تیرا حق ہے وہ تو ضرور لے ۔ اور زبردستی مجھے پچاس ریال دے دیئے ۔
پچاس ریال لے کر یہ سوچتا کہ " دس دنیا ستر آخر کھرا اصول ہے رب کا " ابھی کمرے میں قدم ہی رکھا تھا کہ
فون کی گھنٹی بجی ۔ فون ریسیو کیا تو اک ہسپتال میں کچھ مشینوں کے لیئے وائرنگ کی تھی ۔ اس کے مالک کا فون تھا کہ
فوری اس سے ملوں ۔ اگر صبح یہ فون آتا تو میرے پاس جانے کے لیئے کرایہ بھی نہ ہونے کے باعث اسے ٹال دیتا ۔
مگر اب جیب میں پچاس ریال تھے ۔ سو فوری ٹیکسی پکڑی اور اس کے پاس پہنچ گیا ۔
وہاں پہنچ کر دیکھا کہ مالک انجینئر سب پریشان بیٹھے ہیں ۔
مالک کہنے لگا کہ ہمیں جو وائرنگ ڈائیگرام ملا تھا اس میں سب مشینیں ٹو فیز تھیں ۔
اور اب جو مشینیں پہنچی ہیں وہ تھری فیز ہیں ۔ ہسپتال کی بلڈنگ مکمل تیار ہے ۔
اور ان تمام مشینوں کی وائرنگ زیر زمین ہے ۔ اب سارا فرش اکھاڑا جائے تو وائرنگ بدلی جا سکتی ہے ۔
فرش اکھاڑنے کا مطلب اک طرح سے ہسپتال میں بنے تقریبا سب ہی پارٹیشن روم اکھاڑنے پڑتے ۔
اور اس تمام کام میں کم از کم چھ ماہ مزید لگ جانے ہیں ۔ میں نے ان کی پرابلم کو سنا ۔
میرے دل نے کہا کہ اللہ نے سبیل بنا دی ہے ۔ میں نے مالک سے کہا
" شیخ اگر میں بنا کچھ اکھاڑے ہی تار پوری کر دوں تو کیا انعام دے گا "؟
کہنے لگا کہ تو کیا مانگتا ہے ۔ ؟
میں نے شیخ مجھے گھر جانا ہے اور میرے پاس پیسہ نہیں ہے ۔
میرا تیرا کام کر دیتا ہوں تو جو مناسب سمجھے مجھے دے دینا ۔
اور ساتھ میں کچھ رقم بطور ادھار کہ اگر واپس آیا تو ادا کر دوں گا ۔
اس نے کہا کوئی فکر نہ کر اور کام شروع کر دے ۔
میں دو مزدور ساتھ لیئے اور کام شروع کر دیا ۔ دو دن میں کام مکمل کر دیا ۔
اور شیخ کو فون کیا کہ کام مکمل ہے ۔ اس نے کہا کہ دو گھنٹے تک وہ آ جائے گا ۔
دو گھنٹے بعد وہ آیا اور انجینئرز کے ساتھ کام کو چیک کیا ۔
سب اوکے ہوگیا تو مجھے اپنے ساتھ مارکیٹ لے گیا اور کہنے لگا کہ جو بھی خریدنا چاہتا ہے خرید لے
میں نے کہا کہ شیخ مجھے نقد ضرورت ہے ، کہنے لگا کہ کتنے میں تیری ضرورت پوری ہوجائے گی ۔
میں نے دو دن کام کیا تھا دو مزدور ساتھ تھے بہت بھی زیادہ چھرا پھیرتا تو تین ہزار ریال سے زیادہ نہ بنتے ۔
میں کہا کہ شخ میری ضرورت تو پانچ ہزار کی ہے ۔
اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر گاڑی موڑ کر مجھ سے پوچھا کہ تیری رہائیش کہاں ہے ۔
اسے اپنی رہائیش کا بتایا ۔ تو کہنے لگا کہ میں پہنچا دیتا ہوں ۔
میں دل میں سوچنے لگا کہ پیسے نہیں دے رہا یہ تو ۔
ویسے ہی باتوں سے پورا کر رہا ہے ۔ گاڑی میری رہائیش کے سامنے رکی ۔
میں نیچے اترا اپنے اوزاروں کا تھیلا اتارا ۔
اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اک لفافہ مجھے پکڑا " یہ تیرا نصیب نہیں بلکہ حق ہے ۔" کہتے زن سے گاڑی نکال لے گیا ۔
میں سوچنے لگا کہ یہ تو مجھے ہی چھرا پھیر گیا ۔
بہرحال جب بجھے دل سے لفافے کو کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ دس ہزار ریال تھے ۔
بلا شک اللہ بے نیاز ہے اور دکھی مایوسی کی حد تک پہنچے دل کی پکار کو بہت نزدیک سے سنتا ہے ۔
اکثر ایسا ہوتا ہے ۔ مدینہ منورہ کی ملٹری ہاسپٹل اور عزیزیہ ملٹری کمپاؤنڈ کے ہتھیاروں کے سٹور ج-4کی تعمیر کے دوران ایک پاکستان آرمی کے انجینر سے میری ملاقات ہوئی تھی تو ۔ میں نے اس سے پوچھا ہاں جی کیا چل ہے ۔اس نے عجیب بات کہ یار یہاں لوگ بہت کم پیسے مانگتے ہیں جبکہ پروجیکٹ میں تو ایک ایک ایگزاسٹ فین کے 600 ریال لکھے ہیں :D۔ پھر وہ خود ہی زیادہ دیتا رہا ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کہتا ہوں سچ، گرچہ عادت نہیں مجھے :D
اسکول کی حد تک :D یہ احقر پوزیشن ہولڈرز میں سے ہونے کے ناطے اپنے اساتذہ کا نور نظر ہی رہا، ان سے پٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک بار، جی ہاں! صرف ایک بار ایسا پٹا کہ ساری ”عدم پٹائی“ اُس کے سامنے ہیچ ہے :D ہوا یوں کہ آٹھویں جماعت میں فارسی کا پیریڈ تھا۔ ایک لڑکا نیا نیا ہماری کلاس میں آیا تھا، گو کہ یہ بھی کلاس میں ٹاپ پوزیشن ہولڈرز میں سے تھا، مگر سابقہ اسکول میں اس کے پاس ”اختیاری عربی“ تھی لہٰذا فارسی میں بالکل کورا تھا، جبکہ میں اس کے مقابلہ میں آٹھویں کی نصابی فارسی کی حد تک کچھ نہ کچھ جانتا تھا۔
ہوا یوں کہ اُس دن ہمارے فارسی کے استاد کسی وجہ سے اسکول نہیں آئے تھے اورہماری میڈم نے خالی کلاس کو پُر کرنے کے لئے ایک ایسے اُستاد کو فارسی کا پیریڈ لینے بھیج دیا، جو ابھی نئے نئے اسکول میں آئے تھے، غالباً انہیں فارسی بھی نہیں آتی تھی اور اس نئے اسکول میں اپنا رعب جمانے کے لئے اپنے ہاتھ میں ہر وقت لوہے کے سریے جیسا سخت ”مولا بخش“ لئے پھرتے تھے۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کہاں تک سبق پڑھا ہے۔ ہمارے بتلانے پر انہوں نے (اپنی فارسی کی جہالت چھپانے کے لئے) کہا: آج ہم آپ کا ٹیسٹ لیں گے کہ آپ لوگوں نے جو اب تک پڑھا ہے، وہ یاد بھی ہے یا نہیں۔ پھر انہوں نے متعلقہ اسباق سے مشقی سوالات بورڈ پر لکھ دئے کہ ان کا جواب لکھیں۔ مجھے تو کچھ نہ کچھ آتا تھا، لہٰذا میں نے پرچہ فوراً حل کرلیا، جبکہ میرے ساتھ بیٹھا میرا دوست کہنے لگا کہ مجھے تو فارسی بالکل نہیں آتی۔ تم مجھے جواب لکھا دو ورنہ یہ سر بہت مارتے ہیں۔ میں نے ”ازراہِ ہمدردی“ پورا پرچہ نقل کروادیا۔ ہم نے پرچے سر کے پاس جمع کروا دئے۔ وہ ہمیں نقل کرتے، کرواتے تو پکڑ نہ سکے، لیکن ہم دونوں کے ”فوٹو کاپی“ جیسے پرچے دیکھ کردونوں کو کھڑا کیا۔ پہلے میرے دوست کی باری آئی تو اُسے مرغا بنا کر مولا بخش سے وہ پٹائی کہ کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ آخر اُس نے ”اقرار جرم“ کر ہی لیا کہ اُس نے میری نقل کی ہے۔ اس اقرار پر اُس کی مزید پٹائی ہوئی۔ پھر میری باری آئی اور مجھے یہ کہتے ہوئے دل کھول کر پیٹا کہ آخر تم نے نقل کروائی کیوں؟۔
سبق: اس واقعہ بلکہ سانحہ سے مجھے یہ سبق ملا کہ ”نقل کروانا“ بہت بڑاجرم ہے، اور اس کی سزا میں سخت پٹائی ہوتی ہے۔ لہٰذا آئندہ کے تعلیمی ادوار میں کبھی بھی کسی ساتھی کو نقل نہیں کروائی ۔ اگر خود نقل کی ہو تو یہ الگ بات ہے کہ مجھے ”نقل کرنے“ پر کب سزا ملی تھی :D
سبق یہ ملنا تھا کہ نالائق استاد کے سامنے نقل کروانا بہت بڑا جرم ہے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھ تک نوامیس کا ایک زبردست عمل پہنچا ہے آج آپ کی تحریر میں شاہ درہ کا نام سن کر یاد آیا۔۔۔ ۔۔۔ یہ عمل ایک بندہ کو ایک جوگی نے دیا تھا یہ جوگی اور وہ شخص جس سے یہ عمل مجھ تک پہنچا ہے وہ آج سے تقریبا 60 سال پہلے ٹرین پر اجمیر شریف جارہ رہے تھے دوران گفتگو جوگی نے اس کو یہ عمل دیا تھا اور پھر اپنا پتہ بھی بتایا تھا۔۔۔ ۔قصہ مختصر یہ کہ کسی زمانے میں شاہدرہ اور لاہور کا تقسیم کنندہ یعنی دریائے راوی کے شاہدرہ والی طرف جوگیوں کی بستی آباد تھی کیا آپ کی کبھی اُن جوگیوں سے ملاقات ہوئی ہو ؟؟؟یا کوئی دوستی رہی ہو تو ضرور شیئر کریں۔
نوٹ: قارئین ایک بات واضح ہو کہ جوگی اور سپیرے میں بہت فرق ہوتا ہے دراصل جوگیوں کے پاس بھی اکثر و بیشتر خطرناک قسم کے سانپ ازقسم شیش ناگ (یعنی وہ کالا ناگ جس کا پیٹ بھی کالا ہوتا ہے) دیکھے جاتے ہیں اس وجہ سے کم علم لوگ جوگی کو بھی سپیرا سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ جوگی تو ہر فنِ مولا ہوتا ہے۔کیا کشتہ سازی، کیا سنیاس، کیا نوامیس، کیا علم نجوم، کیا رمل، کیا ویدک غرض جو کلہٗ سِر کا ماہر ہوتا ہے۔
شیش ناگ تو کنگ کوبرا یعنی ہمڈریاڈ کو نہیں کہتے جس کا رنگ گہرا زیتونی ہوتا ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
ہمارے ایک بزرگ مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کا بیان کردہ واقعہ ہے جو انہوں نے اپنی کتاب "حیات قدسی" میں بھی لکھا ہے۔
کہ سعداللہ پور میں ایک جوان لڑکی کو آسیب جسے جن چڑھنا بھی کہتے ہیں اس کا شدید دورہ ہوا اور اس کے رشتہ داروں نے دور دور کے پیروں فقیروں اور عاملوں کو اس کے علاج کے لئے بلایا۔ مگر ان عاملوں نے جب اس لڑکی کا علاج شروع کیا تو اس لڑکی نے ان کو گالیاں دیں اور اینٹیں بھی ماریں۔ مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کہیں قریب ہی کسی گاؤں میں آئے ہوئے تھے۔ کسی نے ان کا ذکر کیا کہ ان کو بلوالیں۔ چنانچہ ان کو بہت جلدی کا کہلا کر بلوایا گیا۔ آگے کا واقعہ ان کی زبانی ہی سنئے:
"میں جب وہاں پہنچا تو اس حویلی کے آس پاس کے کوٹھوں پر مخلوق کا اژدہام پایا جو اس حویلی کے اندر اس آسیب زدہ لڑکی کا نظارہ کررہے تھے۔ خدا کی حکمت ہے کہ جب میں اس لڑکی والی حویلی میں داخل ہوا تو اسی وقت وہ لڑکی میرے لئے صحن میں چارپائی لے آئی اور بچھادی۔ چنانچہ میں اس چارپائی پر بیٹھ گیا اور اس معمول کو حکم دیا کہ تم اس لڑکی کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔ اس معمول نے کہا کہ آپ ہمارے بزرگ اور پیشوا ہیں اس لئے آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر میں جاتے ہوئے اس مکان کے چھت کی تھمبی (ستون) گراجاؤنگا۔ میں نے کہا یہ بات تو ٹھیک نہیں اس سے ان گھر والوں کا بہت نقصان ہوگا۔ یہ سن کر اس نے کہا تو اچھا پھر میں سامنے طاقچے پر رکھے ہوئے برتنوں کی تین قطاریں گرادونگا۔ میں نے سمجھا کہ اس میں چنداں مضائقہ نہیں چنانچہ جب وہ لڑکی میرے پاس صحن میں بیٹھی تھی تو جونہی اس معمول نے مجھے سلام کہا فورا مٹی کے برتنوں کی تین قطاریں اس کمرہ میں جو ہم سے فاصلہ پر تھا جس میں تقریبا سات سات آٹھ آٹھ برتن نیچے اوپر رکھے ہوئے تھے دھڑام سے نیچے گریں اور اسی وقت اس مریضہ نے کلمہ پڑھا اور ہوش میں آگئی۔"

میں اس واقعے کو بالکل درست تسلیم کرتا ہوں کیونکہ بیان کرنے والے کی امانت و دیانت شک و شبہ سے بالا ہے۔ البتہ یہ واقعہ پڑھنے کے بعد میں اس کی توجیہ کے حوالے سے شش و پنج میں پڑ گیا کہ واقعہ تو درست ہے لیکن جنات کو ایسی حرکتوں سے کیا سروکار!!!۔ اس واقعہ پر یقین کرنے کے باوجود اسطرح کے واقعات کی توجہہ سوچتا رہا۔ آخر یہی واقعہ ان کی کتاب میں بھی پڑھا تو ساتھ ہی ایک اور صاحب عرفان بزرگ کا تبصرہ بھی پڑھنے کو ملا جس نے ساری الجھن دور کردی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تبصرہ خود صاحب کتاب یعنی واقعہ بیان کرنے والے بزرگ نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے اور تبصرے سے پہلے یہ دو سطری نوٹ تحریر کیا ہے:
آئندہ صفحات میں بعض واقعات آسیب زدہ مریضوں کے متعلق شائع کئے جاتے ہیں ان واقعات کے متعلق سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کی موقر رائے جو آں محترم نے خاکسار کے نام تحریر فرمائی ہے شکریہ کے ساتھ درج کی جاتی ہے۔"
تبصرہ درج زیل ہے:
"حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے موضع سعداللہ پور ضلع گجرات اور موضع راجیکی ضلع گجرات کا ایک ایک واقعہ اور لاہور شہر کے دو واقعات لکھے ہیں۔ جن میں ان کی دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ آسیب زدہ لوگوں کو شفا حاصل ہوئی۔ جہاں تک کسی کے آسیب زدہ ہونے کا سوال ہے میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی ہسٹیریا کی بیماری ہے۔ جس میں بیمار شخص اپنے غیر شعوری یعنی سب کانشنس خیال کے تحت اپنے آپ کو بیمار یا کسی غیر مرئی روح سے متاثر خیال کرتا ہے اور اس تاثر میں اس شخص کی سابقہ زندگی کے حالات اور اسکی خواہشات اور اس کے خطرات غیر شعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی بیماری ہے۔ مگر یہ احساس بیماری ہے حقیقی بیماری نہیں۔ اسلام ملائکہ اور جنات کے وجود کا تو قائل ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اللہ تعالی کے فرشتے خداتعالی کے حکم کے ماتحت نظام عالم کو چلاتے اور لوگوں کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے اور بدیوں کے خلاف احساس پیدا کرتے ہیں۔
لیکن یہ درست نہیں اور نہ اس کا کوئی شرعی ثبوت ملتا ہے کہ جنات لوگوں کو چمٹ چمٹ کر اور کے دل و دماغ پر سوار ہو کر لوگوں سے مختلف قسم کی حرکات کرواتے ہیں۔ یہ نظریہ اسلام کی تعلیم اور انسان کی آزادی ضمیر کےسراسر خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے جنات کا مفہوم ایسا وسیع بیان کیا ہے کہ اس مین بعض خاص مخفی ارواح کے علاوہ نظر نہ آنے والے حشرات اور جراثیم بھی شامل ہیں۔ چنانچہ حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو ورنہ ان میں جنات داخل ہوجائیں گے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ بیماریوں کے جراثیم سے اپنی خوردو نوش کی چیزوں کو محفوظ رکھو۔
بہرحال جنات کا وجود تو ثابت ہے۔ اور خداتعالی کے نظام میں حقیقت تو ضرور ہے۔ مگر کھیل نہیں۔ اس لئے میں اس بات کو نہیں مانتا خواہ اس کے خلاف بظاہر ٍغلط فہمی پیدا کرنے والی اور دھوکا دینے والی باتیں موجود ہوں کہ کوئی جنات ایسے بھی ہیں جو انسانوں کو اپنے کھیل تماشے کا نشانہ بناتے ہیں لہذا میرے نزدیک جو چیز آسیب کہلاتی ہے وہ خود نام نہاد آسیب زدہ شخص کا اپنے ہی وجود کا دوسرا پہلو ہے جو غیر شعوری طور پر آسیب زدہ شخص کی زبان سے بول رہا ہوتا ہے۔ اور چونکہ آسیب زدہ شخص لازما کمزور دل کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے جب کوئی زیادہ مضبوط دل کا انسان یا زیادہ روحانی اس پر اپنی توجہ ڈالتا ہے تو وہ اپنی قلبی اور دماغی یا روحانی طاقت کے ذریعہ آسیب کے طلسم کو توڑ دیتا ہے۔ مادی لوگ تو محض قلبی توجہ سے یہ تغیر پیدا کرتے ہیں لیکن روحانی لوگوں کے عمل میں روح کی توجہ اور دعا کا اثر بھی شامل ہوتا ہے اور توجہ کا علم بہرحال برحق ہے۔ پس جب حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے سعداللہ پور اور لاہور والے واقعات میں اپنی روحانی توجہ اور دعا کا اثر ڈالا۔ تو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اس اثر کا نتیجہ پیدا کردیا اور آسیب زدہ شخص اپنے نام نہاد آسیب سے آزاد ہوگیا۔ باقی رہا سعداللہ پور کے واقعہ میں برتنوں کا ٹوٹنا اور لاہور کے واقعہ میں انگوٹھی کا ٍغائب ہوکر پھر حاصل ہوجانا۔ تو اول تو یہ ثابت ہے کہ علم توجہ کے ماہرین بعض اوقات ایسی طاقت پیدا کرلیتے ہیں کہ بے جان چیزوں پر بھی وقتی طور پر ان کی توجہ کا اثر ہوجاتا ہے۔ مثلا ایسی مثالیں سننے میں آتی ہیں کہ ایک جلتی ہوئی موم بتی پر توجہ کی گئی تو وہ بجھ گئی یا کسی بند دروازے کی کنڈی توجہ کے نتیجہ میں خود بخود کھل گئی۔ غالبا سعداللہ پور والے واقعہ میں آسیب زدہ لڑکی نے اپنے دل میں آسیب دور ہونے کی یہ علامت رکھی ہوگی کہ کمرے کے اندر رکھے ہوئے برتن گر جائیں اور حضرت مولوی صاحب کی قلبی اور روحانی توجہ اور دعا سے یہ علامت پوری ہوگئی۔ اسی طرح لاہور والے واقعہ میں آسیب زدہ لڑکی کے دل میں اپنی انگوٹھی کا خیال آیا ہوگا اور اس نے اپنے خیال میں یہ علامت مقرر کرلی ہوگی کہ انگوٹھی کھوئی جائے اور پھر مل جائے۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ چونکہ آسیب زدہ شخص نیم بیہوشی کی حالت میں ہوتا ہے اس لئے اس نے خود ہی انگوٹھی کسی خاص جگہ چھپادی ہو اور پھر وہاں سے وہ انگوٹھی برآمد ہوگئی ہو۔ بہرحال ان باتوں میں کوئی اچنبھا چیز نہیں ہے۔ اور نہ کوئی بات عقل کے خلاف ہے۔ بلکہ سوچنے سے معقول تشریح کا راستہ کھل سکتا ہے۔
اس جگہ طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بعض اوقات غیر روحانی لوگ بھی علم توجہ میں کمال پیدا کرلیتے ہیں تو پھر انبیا اور اولیا کے معجزات اور کرامات میں کیا امتیاز باقی رہا۔ سو اس کے متعلق اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ یہ امتیاز بہرصورت نمایاں طورپر قائم رہتا ہے اور ہمیشہ سے قائم رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ حضڑت موسی علیہ السلام کے مقابل پر توجہ کرنے والے نام نہاد ساحروں نے اپنی رسیوں اور جالوں میں اپنی توجہ کے ذریعے ایک حرکت پیدا کردی اور بظاہر یہ توجہ اپنے اندر ایک کمال کا رنگ رکھتی تھی۔ مگر حضرت موسی علیہ السلام کے عصا کے سامنے اس سحر کا تاروپود آن واحد میں تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ پس امتیاز اقتدار میں ہے یعنی بالمقابل کھڑے ہونے پر ہمیشہ خدا کے برگزیدہ لوگوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے۔"
اگر آپ کارل ساگان کی کتاب Shadows of Forgotten Ancestors پڑھیں تو اس میں چھٹے باب میں شاید وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح خوردبینی جاندار ہمیں یا دیگر جانداروں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں بھی دی تھیں۔ کافی مزے کا تھا یہ باب
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے بھائی! آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ امریکہ، جرمنی، انگلینڈ، ساؤتھ افریقہ وغیرہ میں شرح خواندگی سو فیصد ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ :)
فن لینڈ میں شرح خواندگی ننانوے فیصد ہے۔ لیکن میرے دفتر کے پاس ہی دو تین جگہیں ایسی ہیں جن کے بارے اخبار میں بھی پڑھ چکا ہوں کہ یہ جگہیں "بھاری" ہیں۔ تاہم میرا ہر چکر ضائع گیا کہ کچھ نہیں دکھائی دی :( سوچ رہا ہوں کہ اپنا وزن وزن کم کروں کہ شاید پھر بھاری پن دکھائ دے
 

قیصرانی

لائبریرین
آج اپنی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ آپ سے شیئر کرتا ہوں ایسا حادثہ جس میں ایک اچھے دوست سے محروم ہونا پڑا ، وہیں ایک سبق بھی
ملا ، میں اکثر اپنے ملنے والے لوگوں خاص طور سے جوانوں کو ضرور کہتا ہوں۔

یہ واقعہ اور حادثہ سنہ2000 میں پیش آیا
میں اور میرے دوست غلام رسول نے ایک میلہ دیکھنے کے لیئے دوسرے شہر جانے کا پروگرام بنایا
میں ان دنوں چھٹیاں منانے کے لیئے اپنے ماموں اور نانی کے پاس دیپالپور شہر گیا ہوا تھا ۔ تو ایک دن غلام رسول میرے پاس اور کہا کہ میلہ دیکھنے
چلنا ہے تو میں نے فوراً حامی بھر لی اور ہم دونوں چل دیئے۔ جس بس میں ہمیں جانا تھا وہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی تو ہم دونوں بس کی چھت پر
چڑھ گئے اور جگہ بنا کر بیٹھ گئے۔ جو کہ آج میں سوچتا ہوں کی کتنی غلط اور خطرناک جگہ تھی ۔ تو جناب بس اپنی منزل کی طرف چل پڑی میں اور
میرا دوست بس کے ٹول بکس پر بیٹھے تھے جو کہ اس کی چھت پر تھا اور ہماری پیٹھ بس کے مخالف رخ تھی یعنی جس طرف کو بس جا رہی تھی اس طرف ہماری کمر تھی۔ اور گاؤں دیہات کے رہنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں کی سڑکیں کتنی پتلی ہوتی ہیں اور سڑک پر درخت بھی
اپنا سایہ کیئے ہوتے ہیں جو کے بس کی چھت پر سفر کرنے والوں کے لیئے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ہم دونوں اسی طرح بیٹھے گپ شپ کررہے تھے
ہمارے ساتھ ایک اور لڑکا بھی بیٹھا ہوا تھا اور ترتیب یوں تھی کہ میں دایئں ہاتھ والی سائیڈ پر تھا بیچ میں میرا دوست اور انتہائی بایئں جانب وہ لڑکا تھا
کچھ دیر بعد میرے دوست نے مجھے کہا کہ فراز بھائی آپ بیچ میں آجاؤ میں پان کھا رہا ہوں تو مجھے پیک تھوکنی ہے ۔ تو میں بیچ میں آگیا ۔ اور کچھ دیر
بعد ہی وہ المناک حادثہ پیش آگیا جس نے مجھ سے میرا دوست ایک ماں سے اس کا جوان بیٹا چھین لیا۔
ہمارے پوزیشن تبدیل کرنے بعد ہم خوش گپیاں کرتے جا رہے تھے کہ اچانک پتا نہیں کیا ہوا میرا دوست چشم زدن میں منہ کے بل گر کیا جیسے
پیچھے سے کسی نے بہت زور کا دھکا دیا ہو ، ایک دفعہ تو ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا پھر اچانک اس کے منہ ناک اور کان سے خون آنے لگ گیا
تو لوگوں نے شور مچایا ۔ بس رکوائی اور اسے نیچے اتارا، ہوا یہ کہ بس کی رفتار کافی تیز تھی اور ڈرایئور نے اوور ٹیک کرتے ہوئے بس کو سڑک سے
اتارا تو ایک درخت کا تنا بہت زور سے میرے دوست کی گردن کے پچھلے حصے میں لگا ۔
خیر جناب بس سے اتارا اس بیچارے کو ، اس زمانے میں موبائل صرف بڑے شہروں میں ہوتے تھے ، تو میرے ساتھ کچھ لوگ آتی جاتی گاڑی
والوں کی منت سماجت کرتے رہے ، اور مجھے آج بھی اس چیز کا بہت دکھ ہے کہ ہر گاڑی والے نے یہ جواب دیا کہ اس کا خون بہہ رہا ہے تو
گاڑی کی سیٹ خراب ہوجائے گی اور سب سے زیادہ دکھ تب ہوا جب ہم نے ایک وین والے کو روکا تو اس کچھ حضرات تھے جو حج کرنے جا رہو
تھے ۔ انہوں نے جب دیکھا تو شور مچادیا کہ ہمارے کپڑے ناپاک ہوجائیں گے حالانکہ اس گاڑی کا ڈرائیور ہمارا حامی تھا ۔ بہرحال میرے ساتھ
کچھ لڑکوں نے مل کر زبردستی اس وین میں جگہ بنا کر غلام رسول کو لٹایا اور مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا افسوس نہیں کہ ہم نے ان میں سے کچھ ہونے
والے حاجی حضرات کو کافی مارا بھی تھا۔ خیر جناب سرکاری ہسپتال گئے وہاں کی الگ کتھا ہے ، آپ لوگوں کو اچھی طرح پتا ہے ہمارے ہر طرح کے
سرکاری محکموں کا حال کیا ہے۔
خیر اُسے لاہور جنرل ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ چند روز موت و زیست کی کشمکش میں رہ کر وفات پا گیا۔(اللہ اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے اور والدین
کو صبر عطا فرمائے)۔
اس حادثہ نے بہت سے سبق دیے مجھے کہ، جس کی آئی تھی اسے اس کی جگہ لایا گیا کیونکہ اس سے پہلے میں اس جگہ بیٹھا تھا اور پھر اس کے بعد
یہ سبق ملا کہ لوگ کسی مذہبی فریضے کو بعض اوقات انسانی جان پر ترجیح دیتے ہیں اور گاڑی والے حضرات کا حال تو آپ کو پتا چل گیا ہوگا
لیکن سب سے اہم سبق یہ کہ سفر کرتے ہوئے بہت احتیاط کریں خاص طور اگر آپ بس کی چھت پر بیٹھتے ہیں تو ۔
اور اس کا اثر یہ ہوا کہ میں بھی آج کسی کو لفٹ نہیں دیتا بیشک یہ بری بات ہے کافی دفعہ کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا وہ حادثہ آج بھی
میری آنکھوں میں تازہ ہے ۔
یعنی اس سے یہ سبق سیکھا کہ دوسروں کی مدد کرنا بری بات ہے :) کہ آپ خود بھی اب کسی کو لفٹ نہیں دیتے چاہے کسی کی جان ہی کیوں نہ جا رہی ہو
 
Top