کہتا ہوں سچ، گرچہ عادت نہیں مجھے
اسکول کی حد تک
یہ احقر پوزیشن ہولڈرز میں سے ہونے کے ناطے اپنے اساتذہ کا نور نظر ہی رہا، ان سے پٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک بار، جی ہاں! صرف ایک بار ایسا پٹا کہ ساری ”عدم پٹائی“ اُس کے سامنے ہیچ ہے
ہوا یوں کہ آٹھویں جماعت میں فارسی کا پیریڈ تھا۔ ایک لڑکا نیا نیا ہماری کلاس میں آیا تھا، گو کہ یہ بھی کلاس میں ٹاپ پوزیشن ہولڈرز میں سے تھا، مگر سابقہ اسکول میں اس کے پاس ”اختیاری عربی“ تھی لہٰذا فارسی میں بالکل کورا تھا، جبکہ میں اس کے مقابلہ میں آٹھویں کی نصابی فارسی کی حد تک کچھ نہ کچھ جانتا تھا۔
ہوا یوں کہ اُس دن ہمارے فارسی کے استاد کسی وجہ سے اسکول نہیں آئے تھے اورہماری میڈم نے خالی کلاس کو پُر کرنے کے لئے ایک ایسے اُستاد کو فارسی کا پیریڈ لینے بھیج دیا، جو ابھی نئے نئے اسکول میں آئے تھے، غالباً انہیں فارسی بھی نہیں آتی تھی اور اس نئے اسکول میں اپنا رعب جمانے کے لئے اپنے ہاتھ میں ہر وقت لوہے کے سریے جیسا سخت ”مولا بخش“ لئے پھرتے تھے۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کہاں تک سبق پڑھا ہے۔ ہمارے بتلانے پر انہوں نے (اپنی فارسی کی جہالت چھپانے کے لئے) کہا: آج ہم آپ کا ٹیسٹ لیں گے کہ آپ لوگوں نے جو اب تک پڑھا ہے، وہ یاد بھی ہے یا نہیں۔ پھر انہوں نے متعلقہ اسباق سے مشقی سوالات بورڈ پر لکھ دئے کہ ان کا جواب لکھیں۔ مجھے تو کچھ نہ کچھ آتا تھا، لہٰذا میں نے پرچہ فوراً حل کرلیا، جبکہ میرے ساتھ بیٹھا میرا دوست کہنے لگا کہ مجھے تو فارسی بالکل نہیں آتی۔ تم مجھے جواب لکھا دو ورنہ یہ سر بہت مارتے ہیں۔ میں نے ”ازراہِ ہمدردی“ پورا پرچہ نقل کروادیا۔ ہم نے پرچے سر کے پاس جمع کروا دئے۔ وہ ہمیں نقل کرتے، کرواتے تو پکڑ نہ سکے، لیکن ہم دونوں کے ”فوٹو کاپی“ جیسے پرچے دیکھ کردونوں کو کھڑا کیا۔ پہلے میرے دوست کی باری آئی تو اُسے مرغا بنا کر مولا بخش سے وہ پٹائی کہ کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ آخر اُس نے ”اقرار جرم“ کر ہی لیا کہ اُس نے میری نقل کی ہے۔ اس اقرار پر اُس کی مزید پٹائی ہوئی۔ پھر میری باری آئی اور مجھے یہ کہتے ہوئے دل کھول کر پیٹا کہ آخر تم نے نقل کروائی کیوں؟۔
سبق: اس واقعہ بلکہ سانحہ سے مجھے یہ سبق ملا کہ ”نقل کروانا“ بہت بڑاجرم ہے، اور اس کی سزا میں سخت پٹائی ہوتی ہے۔ لہٰذا آئندہ کے تعلیمی ادوار میں کبھی بھی کسی ساتھی کو نقل نہیں کروائی ۔ اگر خود نقل کی ہو تو یہ الگ بات ہے کہ مجھے ”نقل کرنے“ پر کب سزا ملی تھی