ضرب الامثال کا ستیاناس

شمشاد بھائی اور زینب اپیا کی نوک جھونک تو چلتی ہی رہتی ہے۔
ایسے ہی کسی موقعے پر شمشاد بھائی نے زینب اپیا کو آ‌بیل مجھے مار کہہ دیا۔
زینب اپیا نے کہا میں تو اللہ میاں کی گائے ہوں۔
:):)

نوٹ: شمشاد بھائی اور زینب اپیا کے ظرف اور حس مزاح کو سامنے رکھتے ہوئے اس گستاخی کی جرات کی ہے۔ اگر تکلیف ہو تو معذرت خواہ ہوں اور سزا کے لئے تیار
 

شمشاد

لائبریرین
سعود بھائی بہت اچھا لکھا اور یہ گمان کیونکر کیا کہ آپ کا لکھا ہوا برا لگے گا۔

ہے تو یہ گائے لیکن سینگوں والی ہے۔ ;)
 

شمشاد

لائبریرین
زینب ایک دن عنبرین سے ملنے گئی تو دیکھا وہ زمین کھود رہی ہے۔ پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے تو بولی کہ کنواں کھود رہی ہوں۔ زینب بہت حیران ہوئی اور بولی وہ کیوں تو عنبرین نے بتایا کہ ہم بستروں والے کمرے میں تیلیاں جلا جلا کر کھیل رہے تھے کہ ایک تیلی جلتی رہ گئی اور اس سے بستروں میں آگ لگ گئی ہے۔ وہ بجھانے کے لیے پانی کی ضرورت ہے اس لیے کنواں کھود رہی ہوں۔ زینب " آگ لگنے پر کنواں کھودنا " کہہ کر عنبرین کی مدد کرنے میں لگ گئی۔
 

ساقی۔

محفلین
ضرب المثال کی مزاحیہ تشریح

اس سلسلے میں ارود کی ضرب المثال ، محاورات کی مزاحیہ تشریح کی کوشش کی جائے گی .

جو پہلے محاورے کی تشریح کرے گا . وہ اگلے آنے والے کے لیئے نیا "محاورہ یا ضرب المثل" بھی لکھے گا .

جیسے
""" لوٹ کے بُدھو گھر کو آئے"""
یہ شاید "مشرف" کو 'خراب تحسین 'پیش کی جا رہی ہے . جیسا کہ وہ "بدھو" بنے تو کرسی سے اتر آئے اور "زیادہ بدھو" ہو گئے تو مٹر گشت کے لیئے غیر ممالک کی سیر کو چل نکلے . اور اب "اور زیاد بدھو" بن کر پھر گھر کو لوٹ آئے ہیں.




اگلا محاورہ ہے
"گھر کی مرغی دال برابر"
 

ساقی۔

محفلین
پیچھلے دنوں میں پٹرول پمپ پہ بائیک میں پٹرول ڈلوانے کے لیئے رکا تو پٹرول ڈالنے والے لڑکے سے پوچھا " پٹرول کا کچھ ریٹ شیٹ بھی سستا ہوا ہے کہ نہیں"
وہ بھی استادوں کا استاذ تھا کہنے لگا. "او بادشاہو ایس گل نوں چھڈو " میں نے پوچھا "کیوں بھئی" ؟ کہنے لگا "تیل(پٹرول) دیکھو تیل کی دھار دیکھو" میں کہا "اس دھار نے ہی تو ہمارے گلے کاٹ دیئے ہیں اس لیئے تو پوچھ رہا تھا تم سے
 

ساقی۔

محفلین
کچھ ماہ پہلے ہمارے ایک دوست بیمار ہوئے اور ایلو پیتھک دوا لےکر آئے . وہ کچھ زیادہ ہی کڑوی تھی .ڈاکٹر ان کا دوست تھا . وہ فورا اس کے پاس واپس گئے اور غصے میں فرمایا 'اس زہر کو اپنے پاس ہی رکھو' .. ڈاکٹر نے پوچھا بھئی کیا مسئلہ ہے . مسئلہ بتایا تو کہنے لگے بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔
 

ساقی۔

محفلین
لانگ مارچ میں میں نے ایک وکیل دوست سے کہا یار اتنا بڑا پاکھنڈ مچانے کی کیا ضرورت تھی . آپ زرداری کو آرام سے سمجھاتے تو وہ مان جاتا ... کہنے لگا بڑا سمجھایا آرام سے نہیں مانا .. میں نے کہا کیوں ؟.. کہنے لگا لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔
 

فہیم

لائبریرین
میں ہاتھ میں ایک انار لیے کھڑا تھا۔
اتنے میں وہاں سے شمشاد بھائی کا گزر ہوا۔ اور انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسا انار ہے۔
میں نے ایویں ہی مزاق میں کہہ دیا کہ یہ ایسا انار ہے جس کو کھانے سے انسان جوان اور بہت خوبصورت ہوجاتا ہے۔ اور یہ انار تمام بیماریوں کے لیے دوا کا کام بھی کرتا ہے۔
اتفاق سے پیچھے سے ظفری بھائی بھی چلے آرہے تھے۔ ان کے کانوں میں بھی یہ آواز پڑ گئی۔
ساتھ میں وہ موبائل پر زیک سے باتیں کررہے تھے اس لیے موبائل کے ذریعے یہ آواز زیک نے بھی سن لی۔
اور فوراً اپنے بلاگ پر لکھ ماری۔

بس پھر کیا تھا۔
آن کی آن میں وہاں کافی لوگوں کا مجمع لگ گیا۔
اور سب اس انار کا تقاضہ کرنے لگے۔


اتنے میں‌ نبیل بھائی نے آکر کہا کہ توبہ۔

ایک انار اور سو بیمار

اور وہ انار خود لے کر چلتے بنے:grin:
 

شمشاد

لائبریرین
فہیم کو دیکھا ایک ہاتھ میں ناریل پکڑے اس پر چھوٹی سی ہتھوڑی سے ہلکی ہلکی ضربیں لگا رہے ہیں، کافی دیر گزر گئی لیکن ناریل پر کچھ اثر ہی ظاہر نہ ہوا۔ اتفاق سے ادھر سے عمار کا گزر ہوا، ان کے ہاتھ میں یہ بڑا سا ہتھوڑا تھا، انہوں نے فہیم سے ناریل لیکر زمین پر رکھا اور ایک ہی وار میں سو سنار کی ایک لوہار کی پر عمل کرتے ہوئے ناریل کو پاش پاش کر دیا۔
 

فہیم

لائبریرین
شمشاد بھائی دال کے شوقین ہیں یہ دیکھتے ہوئے ان کو ایک دعوت میں ان کے لیے خصوصی طور پر دال ہی بنادی گئی۔
اور وہی ان کو پیش کردی گئی۔
لیکن جب شمشاد بھائی نے وہاں دوسری مرغن غذائیں دیکھیں تو ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔
اور وہ دال سے جان چھڑانے کی ترکیب سوچنے لگے۔
فوراً ہی ان کے دماغ‌ میں ایک ترکیب آئی۔
انہوں نے سب کی نظریں بچاکر اپنے قلم کی سیاہ روشنائی دال میں ٹپکادی۔
اور باآواز بلند بولے۔

دال میں کچھ کالا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گیس کی قلت کا زمانہ تھا، لیکن چولہا جلانا بھی ضروری تھا، فہیم نے سوچا کیوں نہ کوئلوں کی دکان کھول لی جائے، بھلے ہی کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہو جائے لیکن پیسے تو خاصے بچ جائیں گے۔
 
سعود صاحب چھٹیوں میں امریکہ سے پلٹ کر گاؤں گئے تو کسی کو خاطر میں ہی نا لاتے تھے۔ بے چارے ان پڑھ کسانوں سے بات کرتے ہوئے بھی دو چار انگریزی کے الفاظ ایسے شامل کر لیتے کہ ان کے منھ کھلے کے کھلے رہ جاتے اور وہ سیاق و سباق سے بھی اس کا مطلب نہ نکال پاتے۔ خیر جن کو مرعوب ہونا تھا وہ تو ہوئے جبکہ ایک گھسیارے سے برداشت نہ ہوا اور اس نے جلی کٹی سنا ہی دی، "ارے مارو دیسی کوّا مراٹھی بول"۔
 

شمشاد

لائبریرین
زین نے اپنے باغ کی خوب باغبانی کی اور اس میں گلاب اور سورج مکھی کے گُل کھلائے۔
 
بھان متی کا پتی منھ کے بل پڑا سو رہا تھا بیچاری سے برداشت نہ ہوا تو اس نے اپنا الّو سیدھا کر دیا۔
 
Top