ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھ کو حصارِ حلقہء احباب چھوڑکر
صحرا ملا ہے گلشن ِ شاداب چھوڑ کر

ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے
اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کر

سب کچھ بہا کے لے گئی اک موجِ اشتعال
دریا اتر گیا ہمیں غرقاب چھوڑ کر

اوج ِ فلک سے گرگیا تحت الثریٰ میں عشق
طوفِ حریمِ ناز کے آداب چھوڑ کر

مسجد کی پاسبانی پر اب آگئی ہے بات
اٹھنا پڑے گا منبر و محراب چھوڑ کر

ہرچشم زیرِ خواب ہے یا زیرِ بارِ اشک
دیکھوں کسے میں دیدہء مہتاب چھوڑ کر

نکلے رہوگے دوزخ ِلیل و نہار میں
کب تک ظہیر جنتِ بیتاب چھوڑ کر

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لہروں پہ سفینہ جو مرا ڈول رہا ہے
شاید مری ہمت کو بھنور تول رہا ہے

شیریں ہے تری یاد مگر ہجر لہو میں
شوریدہ ہواؤں کا نمک گھول رہا ہے

پتوار بنا کرمجھے طوفانِ حوادث
قامت مری پرچم کی طرح کھول رہا ہے

ساحل کی صدا ہے کہ سمندر کا بلاوا
گہرائی میں سیپی کی کوئی بول رہا ہے

یہ وقت مجھے موتی بنائے گا کہ مٹی؟!
اک آبِ رواں ہے کہ مجھے رول رہا ہے

کھُلتے نہیں کردار کہ ہیرو یا ولن ہیں
اپنی تو کہانی میں یہی جھول رہا ہے

ظہیر احمد ظہیر - ٢٠٠٥​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خیالِ خاطر ِاحباب ہمسفر رکھنا
سفر کہیں کا ہو آغاز پر نظر رکھنا

شعاع ِ نور ِ محبت کو رکھنا قبلہ نما
جہاں یہ دل کرے سجدہ وہیں پہ سر رکھنا

تمام روپ محبت کے خوبصورت ہیں
کوئی بھی رشتہ کسی سے ہو معتبر رکھنا

چراغ بن نہیں سکتے تو بن کے تم فانوس
کسی چراغ کو موسم سے بے خطر رکھنا

قلم کو رکھنا ہمیشہ حصا ر ِ گیتی میں
تخیل اپنا مگر آسمان پر رکھنا

ظہیر اداس سی رہتی ہے یہ گلی اپنی
کبھی کبھی سہی لیکن یہاں گزر رکھنا

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۵​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ضبطِ غم توڑ گئی بھیگی ہوا بارش میں
دل کہ مٹی کا گھروندا تھا گرا بارش میں

شادیء مرگ کو کافی تھا بس اک قطرۂ آب
شہر ِتشنہ تو اجڑ سا ہی گیا بارش میں

روشنی دل میں مرے ٹوٹ کے رونے سے ہوئی
اک دیا مجھ میں عجب تھا کہ جلا بارش میں

لاج رکھ لی مرے پندار کی اک بادل نے
میرے آنسو نہ کوئی دیکھ سکا بارش میں

کھیت پیاسے تھے اِدھر ، اور اُدھر کچے مکان
میں نے دیکھا تو نظر آیا خدا بارش میں

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۸​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سب کاروبار ِ نقد و نظر چھوڑنا پڑا
بکِنے لگے قلم تو ہُنر چھوڑنا پڑا

قربانی مانگتی تھی ہر اک شاخ ِ بے ثمر
بسنے نہ پائے تھے کہ شجر چھوڑنا پڑا

کرنا تھا جو سفر ہمیں ہم نے نہیں کیا
بچوں کو آج اس لئے گھر چھوڑنا پڑا

آ تو گئے ہو ، سوچ لو جاؤ گے پھر کہاں
یہ شہر ِ بد لحاظ اگر چھوڑنا پڑا

گھر سے چلا تھا بار ِ ثقافت اٹھا کے میں
رستے میں تھوڑا تھوڑا مگر چھوڑنا پڑا

نفرت کے سانپ آ گئے گھر تک تو میں ظہیر
اتنا ڈرا کہ خوف ِ سفر چھوڑنا پڑا

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کس طور اُن سے آج ملاقات ہم کریں
شکوہ کریں کہ شرحِ حالات ہم کریں

کچھ دیر کو سہی ، پہ ملے درد سے نجات
کچھ دیر کو تو دل کی مدارات ہم کریں

مانا کہ اُن کی بزم میں ہے اذنِ گفتگو
اتنا بھی اب نہیں کہ سوالات ہم کریں

جب تک ہیں درمیان روایات اور اصول
دشمن سے کیسے ختم تضادات ہم کریں

وقتِ عمل ہے دوستو ! اب کیسا انتظار
آتے رہیں گے لوگ شروعات ہم کریں

سجدے میں سرجھکے ہیں مگر دل میں وسوسہ
الحمد ہم کہیں کہ مُناجات ہم کریں

شکوے سبھی لبوں پہ زمانے کے ہیں ظہیر
آؤ ذرا سا ذکرِ عنایات ہم کریں

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۷​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نشانِ منزلِ من مجھ میں جلوہ گر ہے تو
مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ ہمسفر ہے تو

سفالِ کوزہء جاں ! دستِ مہر و الفت پر
تجھے گدائی میں رکھوں تو معتبر ہے تو

علاجِ زخمِ تمنا نے مجھ کو ماردیا
کسی کو کیسے بتاؤں کہ چارہ گر ہے تو

چراغِ بامِ تماشہ کو بس بجھادے اب
میں جس مقام پہ بیٹھا ہوں باخبر ہے تو

یہ کس گمان میں لڑتا ہے تو حقیقت سے
یہ کس خیال کے عالم میں گم نظر ہے تو

ترے قدم سے بندھے ہیں ترے زما ن و مکاں
تجھے مقیم سمجھتا تھا دربدر ہے تو

ابھی تو قضیہء نان و نمک نہیں نبٹا
ابھی سے پائے تمنا کدھر کدھر ہے تو

تری جڑیں کسی مٹی کو ڈھونڈتی ہیں ظہیر
زمینِ زر میں ابھی تک جو بے ثمر ہے تو

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فروری ۲۰۱۱​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تمھاری گلیوں میں پھر رہے تھے اسیرِ ِ درد و خراب ِ ہجراں
ملی اجازت تو آگئے پھر حضورِ عشق و جناب ِ ہجراں

وہ ملنے جلنے کی ساری رسمیں دراصل فرقت کے سلسلے تھے
گئے دنوں کی رفاقتوں میں چھپا ہوا تھا سراب ِ ہجراں

مٹے نہیں ہیں حروفِ ظلمت ، ابھی گریزاں ہے صبح ِ برات
ابھی پڑھیں گے کچھ اور بھی ہم دیارِ غم میں کتاب ِ ہجراں

وفا شعاری کے مرحلوں سے پلٹ کے جب کامیاب آئے
ہوا مقرر نئے سرے سے شکیب ِ دل پر نصاب ِ ہجراں

یہ تیرے میرے لہو کی ساری کثافتوں کو نتھار دے گا
ہماری راہوں کے درمیاں میں رواں دواں ہے جو آب ِ ہجراں

وہ دن بھی تھے کہ مرا تعارف غزال چشموں کے زیب ِ لب تھا
اور آج ان کی ہر انجمن سے ملا ہوا ہے خطاب ِ ہجراں

ہمیں امید ِ جزا ہے اُن سے ، اسی لئے تو ظہیر ہم نے
غزل کے شعروں میں لکھ دیا ہے شمارِ درد و حساب ِ ہجراں

ظہیر احمد ظہیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١٩٩٧​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زنجیر کس کی ہےکہ قدم شاد ہوگئے
بیڑی پہن کے لگتا ہے آزاد ہوگئے

جتنے بھی حرفِ سادہ ہوئے اُس سے منتسب
ہم رنگِ نقش ِ مانئ و بہزاد ہوگئے

سنگِ سخن میں جوئے معانی کی جستجو !
گویا قلم بھی تیشئہ فرہاد ہوگئے

زندہ رہے اصولِ ضرورت کے ماتحت
جب چاہا زندگی نے ہم ایجاد ہوگئے

خود بیتی لگتی ہے مجھے ہر اک کی داستان
لگتا ہے ان گنت مرے ہمزاد ہوگئے

ق

آشوبِ احتیاج یہ کیسا ہے کیا کہیں
صبر و رضا کے لہجے بھی فریاد ہوگئے

آب و ہوائے شہر ِ ہوس کچھ نہ پو چھئے
برباد وہ ہوئے کہ جو آباد ہوگئے

-
بیداد گر ملے سبھی ہم طرز و ہم خیال
سارے ستم زبانی ہمیں یاد ہوگئے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۶​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس خاک سےجو ربطِ وفا کاٹ رہے ہیں
پرواز کی خواہش میں سزا کاٹ رہے ہیں

اس روزِخوش آثار کی سچائی تو یہ ہے
اک رات سر ِدشتِ بلا کاٹ رہے ہیں

حبس اتنا ہے سینے میں کہ لگتا ہے مسلسل
ہم سانس کے آرے سے ہوا کاٹ رہے ہیں

بیکار کہاں بیٹھے ہیں مصروف ہیں ہم لوگ
ہم اپنی صداؤں کا گلا کاٹ رہے ہیں

خیاطِ قلم بر سر ِ بازارِ صحافت
پوشاک کو قامت سے بڑا کاٹ رہے ہیں

ہر روز بدل دیتےہیں دیوار پہ تحریر
خود اپنے ہی ہاتھوں کا لکھا کاٹ رہے ہیں

ٹکراتے ہیں موجوں کی طرح سنگِ ستم سے
ہر روز چٹانوں کو ذرا کاٹ رہے ہیں

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۹​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بے نسب درہم و دینار کا ورثہ کیسا
ہم نہ اپنائیں جو میراث تو حصہ کیسا

نام کی تختی لگانے سے نہ ہوگا ثابت
تم جو گھر پر نہیں موجود تو قبضہ کیسا

دوستی آگ سے کاغذ کی جلادےگی شہر
پھول رکھئے کف قرطاس پہ شعلہ کیسا

میں فقط میں ہوں مجھے نسبتِ الفاظ سے جان
مسلکِ لوح و قلم میں کوئی فرقہ کیسا

دو دو چہرے ہیں مگر کوئی پرکھتا ہی نہیں
چل رہا ہے سر ِ بازار یہ سکہ کیسا

حرفِ حق پر نہ کٹے گردنِ پندار تو پھر
سجدۂ شب کا جبیں پر کوئی دھبہ کیسا

پُر فتن عہد ہے، بس روح کو رکھنا آباد
جان جانی ہے تو پھر جان کا خطرہ کیسا

بات پرکھو ، لبِ گفتار نہ پرکھو لوگو !
بات سچی ہے تو سچائی کا شجرہ کیسا

ظلم جو بھی کرے تردید ضروری ہے ظہیر
ظلم اندھیرا ہے تو پھر ظلم کا چہرہ کیسا

ظہیراحمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۰​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تری نظر نے مرے قلب و جاں کے موسم میں
یقیں کے رنگ بھرے ہیں گماں کے موسم میں

زکوٰۃِ درد ہے واجب متاعِ الفت پر
حسابِ غم کرو سود وزیاں کے موسم میں

نہ اب تلاشِ بہاراں ، نہ ڈر خزاؤں کا
ٹھہر گیا ہے چمن درمیاں کے موسم میں

وہ انتظار کا موسم بہت غنیمت تھا
بڑھی ہے تشنگی ابرِ رواں کے موسم میں

حلیف سب تہی دامانِ جستجو نکلے
اکیلے ہم چلے کارِ گراں کے موسم میں

مرے وطن میں پنپتا نہیں گلِ امید
کوئی تو بات ہے آخر یہاں کے موسم میں

ہنر نصیب خدا رکھے دست ِہجرت کو
کہاں کے پھول کھلائے کہاں کے موسم میں

سخن ظہیر بناؤ خیال ِ پنہاں کو
خموشی جرم ہے لفظ و بیاں کے موسم میں

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۱​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تمام رنگ وہی ہیں ترے بگڑ کر بھی
اے میرے شہر تُو اجڑا نہیں اجڑ کر بھی

ہیں آندھیاں ہی مقدر تو پھر دعا مانگو
شجر زمین پر اپنی رہیں اُکھڑ کر بھی

ہم ایسی خاک ہیں اس شہر ِزرگری میں جسے
بدل نہ پائے گا پارس کوئی رگڑ کر بھی

ملا ہے اب تو مسلسل ہی روئے جاتا ہے
وہ ایک شخص جو ہنستا رہا بچھڑ کر بھی

عجب مقام ہے یہ ، وقت میں نہیں برکت
پہاڑ جیسا لگے دن مجھے سکڑ کر بھی

دیا گیا یہ تاثر کہ ہم بھی ہیں آزاد
ہمیں اُڑایا گیا جال میں جکڑ کر بھی

یہ کون لوگ ترے ساتھ چل رہے ہیں ظہیر
اکیلے لگتے ہو ہر ہاتھ کو پکڑ کر بھی

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست ۲۰۰۱​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سر پہ رکھے گا مرے دستِ اماں کتنی دیر
باد ِ بے درد میں تنکوں کا مکاں کتنی دیر

پوچھتی ہیں مری اقدار مرے بچوں سے
ساتھ رکھو گے ہمیں اور میاں کتنی دیر

بجھ گئی آگ تمناؤں کی جلتے جلتے
کچھ دھواں باقی ہے لیکن یہ دھواں کتنی دیر

رزق برحق ہے مگر یہ کسے معلوم کہ اب
رزق لکھا ہے مقدر میں کہاں کتنی دیر

جا چکے پتے ، ہوائیں بھی چلی جائیں گی
بے سبب ٹھہرے گی پیڑوں پہ خزاں کتنی دیر

ریگ زاروں میں کسے ڈھونڈنے نکلے ہو ظہیر
ریت پر رہتے ہیں قدموں کے نشاں کتنی دیر

ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۲۰۰۳​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زندگی کے رنگوں سے بام و در سجانے میں
ایک عمر لگتی ہے گھر کو گھر بنانے میں

بام و در کو حیثیت آدمی سے ملتی ہے
خالی گھر نہیں ہوتے معتبر زمانے میں

نفرتوں کے بدلے میں ہم کسی کو کیا دیں گے
خرچ ہوگئے ہم تو چاہتیں کمانے میں

پھول کھل اٹھے دل میں ، شبنمی ہوئیں آنکھیں
ذکر آگیا کس کا ہجر کے فسانے میں

شخصیت پرستی کے پیڑ پی گئے سب کچھ
ہوگئی زمیں بنجر کچھ درخت اگانے میں

ظہیر احمدظہیر ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۲۰۰۳​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ڈرتا ہوں کسی دن نظروں کا دھوکا نہ کہیں ہو جاؤ تم
تعبیر سمجھتا ہوں تم کو ، سپنا نہ کہیں ہو جاؤ تم

ہر روز بدلتے ہو منزل ، ہر سمت میں چلتے ہو کچھ دیر
خواہش کے سفر میں رستے کا حصہ نہ کہیں ہو جاؤ تم

افسانے کچھ اپنے عنواں کے برعکس بھی نکلا کرتے ہیں
چہروں کی کتابیں پڑھتے ہو، ضایع نہ کہیں ہو جاؤ تم

جو آگ چھپائے پھرتے ہو ، رکھ دے نہ سبھی کچھ پگھلا کر
پتھر ہو بظاہر اندر سے ، لاوا نہ کہیں ہو جاؤ تم

چھپ کر ہی سہی رویا تو کرو ، یہ ضبط بھی اتنا ٹھیک نہیں
بے آب نہ رکھو دشتِ انا ، صحرا نہ کہیں ہو جاؤ تم

یہ قربتیں اتنی ٹھیک نہیں ، ہر گام نہ میرے ساتھ رہو
پرتَو نہ سمجھ بیٹھوں اپنا ، سایا نہ کہیں ہو جاو تم

دل میں جو خلش ہے ماضی کی ، لفظوں میں اسے مت دہراؤ
ایسا نہ ہو اے جانانِ غزل ، افسانہ کہیں ہو جاؤ تم

خاموشی علامت ، لفظ اشارہ ، بات معمہ ہے میری
اک راز بنا ہوں اس لئے میں ، افشا نہ کہیں ہو جاؤ تم

آتی ہے نظر جو کاغذ پر ، ہے مختلف اس سے دنیا ظہیر
ڈرتا ہوں کتابیں پڑھ پڑھ کر تنہا نہ کہیں ہو جاؤ تم

ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۹​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سوچا ہے یہ ہم نے تمہیں سوچا نہ کریں گے
ہم تم کو تصور میں بھی رُسوا نہ کریں گے

گر تم کو بچھڑنے پہ نہیں کوئی ندامت
مل جاؤ تو ہم بھی کوئی شکوہ نہ کریں گے

رستے میں اگرچہ ہیں ہواؤں کے نشیمن
ہم مشعلِ خود داری کو نیچا نہ کریں گے

ہاں ذوقِ سفر بڑھ کے ہے منزل کی ہوس سے
ہم کھو بھی گئے تو کوئی شکوہ نہ کریں گے

وہ حرفِ سخن جو تری نسبت سے ملا ہے
اس حرف کو بازار میں رسوا نہ کریں گے

اپنی ہی بغاوت سے نبٹنا نہیں ممکن
یہ دل نہیں چاہے گا تو وعدہ نہ کریں گے

تڑپیں گے نہ بیکار کسی فکرِ عبث میں
احساس کی دولت کو یوں ضایع نہ کریں گے

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۲۰۰۰​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الفاظ کے پردے میں اگر تُو نہیں نکلے
پھر نوک ِ قلم سے کوئی جادو نہیں نکلے

دُھلتا ہے مرے اشکوں سے ہر رات یہ پھر بھی
تکیے سے ترے قرب کی خوشبو نہیں نکلے

منصف تو بڑی بات اگر ڈھونڈ نے جاؤ
اِس شہر ِ ستم گر میں ترازو نہیں نکلے

روئے جو کبھی نیشہء حالات پہ ہم لوگ
اک زہر ٹپک آیا ہے آنسو نہیں نکلے

دشمن مرے بیٹھیں جو حلیفوں کے مقابل
اک فرق بھی دونوں میں سر ِ مُو نہیں نکلے

بے آسرا بیٹھے ر ہے ہم بزم ِ وطن میں
جب تک کہ رہا درد پہ قابو ، نہیں نکلے

لڑنے کیلئے نکلے ہیں ہم جنگ بقا کی
گھرچھوڑ کے اپنا کوئی بھکشو نہیں نکلے

اک عمر ہوئی چھوڑے ہوئے دشت ِ غزالاں
پیروں سے پہ خوئے رم ِ آہو نہیں نکلے

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۵​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں ہوں چہرہ تری خواہش کا ، مرے بعد تو دیکھ
آئنہ دیکھ تو دانش کا ، مرے بعد تو دیکھ

مجھ پہ ناکامی کے عنوان ابھی سے نہ لگا
تُو نتیجہ مری کاوش کا مرے بعد تو دیکھ

تُو مرے ہاتھ میں بجھتی ہوئی مشعل پہ نہ جا
دُور تک سلسلہ تابش کا مرے بعد تو دیکھ

پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی مانا ،لیکن
قطرہ پہلا ہوں میں بارش کا ، مرے بعد تو دیکھ

اب جو بچھڑا ہوں تو روتا ہے وہی سرد مزاج
معجزہ برف میں آتش کا مرے بعد تو دیکھ

مجھ سے کہتا ہے گزرتا ہوا ہر دن یہ ظہیر
چھوڑ دامن مری خواہش کا ، مرے بعد تو دیکھ

ظہیر احمدظہیر ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۲۰۱۱​
 

لاریب مرزا

محفلین
قتیل ِ درد ہوا میں تو غمگسار آئے
رہی نہ جان سلامت تو جاں نثار آئے

تمہارا غم تھا میسر تو کوئی روگ نہ تھا
چلا گیا وہ مسیحا تو غم ہزار آئے

قبائے کذب و ریا اور کلاہِ نام و نمود
کہیں اُترنے سے پہلے ہی ہم اتار آئے

ہوئی نہ جراٗت ِ طوفِ حریم ِ عشق ہمیں
بس ایک سنگِ ملامت انا کو مار آئے

اک عرضِ شوق بصد حسرتِ دلِ ناکام
حضورِ ناز میں پہنچے تو پھر گزار آئے

متاعِ فکر و نظر ، ثروتِ خیال و خواب
خزانے جتنے میسر تھے اُن پہ وار آئے

ہزار اشکِ محبت بہم ہیں آنکھوں میں
کہاں سے شیشہء دل پر کوئی غبار آئے

وصالِ یار حقیقت ہے گر تو ختم نہ ہو
اگر یہ خواب ہے کوئی تو باربار آئے

ذرا سی دولتِ دل تھی ظہیر اُسکو بھی
قمارخانہء الفت میں جا کے ہار آئے

۔ ۔ اگست ۲۰۱۴ ۔ ۔ ۔​
خوب!!
 
Top