ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دیدہ وروں سے کور نگاہی ملی مجھے
ایسے پڑھے ورق کہ سیاہی ملی مجھے

کس دشت میں چلا ہوں کہ احساس مر گیا
صورت دکھائی دی نہ صدا ہی ملی مجھے

خالی پیالے سینکڑوں ہاتھوں میں ہر طرف
تشنہ لبی اور ایک صراحی ملی مجھے

ہمزاد میرا مرگیا میری انا کے ساتھ
ورثے میں تخت ِ ذات کی شاہی ملی مجھے

اپنی نظر میں خود مری توقیر بڑھ گئی
جب سے تری نظر کی گواہی ملی مجھے

دیوار ِ اختلاف سلامت ہے شہر میں
دونوں طرف ہی ورنہ تباہی ملی مجھے

چاروں طرف خزانے محبت کے ہیں ظہیر
جو چیز میں نے پیار سے چاہی ملی مجھے

ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۲​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گرمئ شہر ِ ضرورت سے پگھل جاؤ گے
نہیں بدلے ہو ابھی تک تو بدل جاؤ گے

اس چمکتے ہوئے دن کو نہ سمجھنا محفوظ
اپنے سائے سے بھی نکلو گے تو جل جاؤ گے

گردش ِ وقت ہے آتی ہے سبھی کے سر پر
وقت گزرے گا تو اس سے بھی نکل جاؤ گے

یہ محبت کے مقامات ہیں اے جان ِ نظر
اتنا محتاط چلو گے تو پھسل جاؤ گے

اپنی تابش کو زمینوں سے نہ کرنا مشروط
ورنہ سورج کی طرح شام کو ڈھل جاؤ گے

گر رہا ہوں میں مسلسل ہی ،مگر جانے کیوں
کوئی اندر سے یہ کہتا ہے سنبھل جاؤ گے

تھام کر ہاتھ چلو تم بھی ظہیر اپنوں کا
ورنہ اِس بھیڑ میں غیروں سے بدل جاؤ گے

ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۳​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سارا سفر ہے ضبطِ مسلسل کی قید میں
چھوٹی سی جیسے کشتی ہو بوتل کی قید میں

اپنے بدن کی آگ میں جل کر مہک اٹھی
خوشبو جو بیقرار تھی صندل کی قید میں

اے فصل ِ تشنہ کام نویدِ رہائی دے
پانی کو دیکھ کب سے ہے بادل کی قید میں

گہرائی اُس کے ضبطِ الم کی بھی دیکھئے
ساگر رکھے ہوئے ہے جو کاجل کی قید میں

آوارہ اک ورق تھا ، مجھے دے دیا ثبات
اُس نے گرہ سے باندھ کے آنچل کی قید میں

بچپن کے آنگنوں سے بچھڑنے کا دُ کھ ظہیر
آسیب بن کے رہتا ھے پیپل کی قید میں

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی
جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی

آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات
سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی

دُوراندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ
میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی

ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش
یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی

دلِ وحشی مجھے ہونے نہیں دیتا سرسبز
چشم ِ گریہ ہے کہ صحرا نہیں بننے دیتی

دشت ایسا ہے کہ چھتنار شجر ہیں ہر گام
دھوپ ایسی ہے کہ سایا نہیں بننے دیتی

خاک ایسی ہے کہ ہر ذرہ طلبگار ِ نمو
رُت وہ ظالم کہ شگوفہ نہیں بننے دیتی

شہر ایسا ہے کہ تاحدِ نظر امکانات
بھیڑ ایسی ہے کہ رستہ نہیں بننے دیتی

حرمتِ خامہ وہ ضدی جو کسی قیمت پر
سکہّء حرف کو پیسہ نہیں بننے دیتی

کیا قیامت ہے کہ اب میرے تصور کی تھکن
بادلوں میں کوئی چہرہ نہیں بننے دیتی

میں کسی اور کا بنتا تو منافق ہوتا
یہ انا مجھ کو کسی کا نہیں بننے دیتی

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جولائی ۲۰۱۱​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
منظر وہی پرانا ہے ، موسم نیا نیا
بدلا جو میں نے زاویہ ، عالم نیا نیا

تازہ ہے دوستی ابھی لہجے نہ جانچئے
کھُلتا ہے تار تار یہ ریشم نیا نیا

دل کی خلش بڑھی ہے تری قربتوں سے اور
زخموں کو جیسے ملتا ہے مرہم نیا نیا

ہر عکس کرچیاں سی چبھاتا ہے آنکھ میں
پتھر اور آئنے کا ہے سنگم نیا نیا

یارب ہو میرے شہر ِسیاست میں سب کی خیر
گلیوں میں پھر اٹھا کوئی پرچم نیا نیا

پیروں کو یوں بھی رقص کی عادت نہیں ظہیر
چھیڑا ہے زندگی نے بھی سرگم نیا نیا

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۲۰۰۲​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کوئی بھی آگ ہو ، شانہ بشانہ جلتا ہے
وہ میرےساتھ ہے جب سے ، زمانہ جلتا ہے

کوئی تو رہتا ہے دل کے کھنڈر مکانوں میں
چراغ شام کو اکثر پرانا جلتا ہے

دراز دستیء بادِ ستم کا شکوہ کیا
چراغ یادوں میں اب جاودانہ جلتا ہے

یہ انتظار شبستان ِ دل میں ہے کس کا
نہ بجھ کے دیتا ہے کوئی دیا، نہ جلتا ہے

ہمارے شہر میں قیمت ہے روشنی پہ ابھی
دیا جلائیں تو پہلے ٹھکانہ جلتا ہے

وہ تیر ِعشق جو پیوستِ جاں ہوا تھا کبھی
نکل گیا ،مگر اب تک نشانہ جلتا ہے

ذرا خیال سے چُھونا ظہیر شاخِ نہال
گلابِ سرخ نہیں ، آشیانہ جلتا ہے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فروری ۲۰۰۸​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اہلِ دل چشمِ گہربار سے پہچانے گئے
دیدہ ور تیرے ہی دیدار سے پہچانے گئے

ہم نے کب دعویٰ زمانے میں کیا الفت کا
ہم تو چپ تھے ، ترے انکار سے پہچانے گئے

خود کو آزاد سمجھتے تھے مگر وقتِ سفر
ایک زنجیر کی جھنکار سے پہچانے گئے

معرکے جو بھی سمندر سے ہوئے ساحل تک
میری ٹوٹی ہوئی پتوار سے پہچانے گئے

دشمنی میں نے اصولوں کی بنا پر رکھی
میرے دشمن میرے کردار سے پہچانے گئے

آگیا دست ِصحافت میں عدالت کا قلم
جھوٹ اور سچ بھی اب اخبار سے پہچانے گئے

آج کے دورِ ضرورت میں مشینوں کی طرح
آدمی کام کی رفتار سے پہچانےگئے


ظہیر احمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپریل ٢٠١٢​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زندہ حقیقتوں سے چھپایا گیا ہمیں
ماضی کی داستاں میں بسایا گیا ہمیں

چھینا گیا لبوں سے تبسم بنامِ سوز
قصے کہانیوں پہ رُلایا گیا ہمیں

اپنے سوا ہر عکس ہی بگڑا ہوا لگا
آئینہ اِس طرح سے دکھایا گیا ہمیں

پہلے تو ایک درسِ اخوّت دیا گیا
پھر حرفِ اختلاف پڑھایا گیا ہمیں

کانوں میں زہرِ کفر انڈیلا گیا ہے روز
پھر کلمہء قرآن سنایا گیا ہمیں

اُٹھ کر پتہ چلا کہ قیامت گذر چکی
ایسا تھپک تھپک کے سُلایا گیا ہمیں

دوزخ کی آگ بھوکے بدن سے لپیٹ کر
وعدہ بہشت کا بھی دلایا گیا ہمیں

تقریبِ دوستاں میں ستم در ستم ہوا
تعظیم ِدشمناں میں اٹھایا گیا ہمیں

پیشانیوں پہ قیمتیں لکھ کر مثالِ جنس
بے حد و بے حساب کمایا گیا ہمیں

پانی نہیں تھے خون پسینہ تھے ہم ظہیر
سیراب بستیوں میں بہایا گیا ہمیں


ظہیر احمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عشق

پیکرِ خاک میں تاثیرِ شرر دیتا ہے
آتشِ درد میں جلنے کا ثمر دیتا ہے

اک ذرا گردشِ ایّام میں کرتا ہے اسیر
دسترس میں نئے پھر شام و سحر دیتا ہے

پہلے رکھتا ہے یہ آنکھوں میں شب ِ تیرہ وتار
دستِ امکان میں پھر شمس و قمر دیتا ہے

دل پہ کرتا ہے یہ تصویر جمالِ ہستی
پھر مٹاکر اُسے اک رنگِ دگر دیتا ہے

جذب ِ صادق ہو تو کرتا ہے مقدر منزل
کارِ بے نام کو عنوانِ ظفر دیتا ہے

دور جائیں تو بلاتا ہے یہ اپنی جانب
لوٹ کر آئیں تو پھر اذنِ سفر دیتا ہے

اُس میں قید ِ درودیوار نہیں رکھتا عشق
اپنے آشفتہ مزاجوں کو جو گھر دیتا ہے

یہ کرشمہ ہے عجب عشق ِ تضاد آور کا
پھول سے جسم کو پتھر کا جگر دیتا ہے

لمس پارس تو نہیں بنتا ،مگر یہ سچ ہے
ڈھونڈنے والوں کو مٹی میں گہر دیتا ہے

تابِ گویائی چرا لیتا ہے ان ہونٹوں کی
عشقِ پرکار جب آنکھوں کو نظر دیتا ہے

قلبِ فنکار کو دیتا ہے یہ روحِ احساس
پھر اسے جراءتِ اظہار ِ ہنر دیتا ہے




آؤ چلتے ہیں ذرا بزم ِ سخن میں اسکی
لوگ کہتے ہیں وہ لفظوں کو اثر دیتا ہے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔٢٠٠٣ ۔۔۔۔۔۔۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
غم نیا تھا تو نیا عہدِ وفا رکھنا تھا
حوصلہ غم سے بہرحال سوا رکھنا تھا

کیسے اُس پر میں مقدر کی سیاہی رکھتا
جس ہتھیلی پہ مجھے رنگِ حنا رکھنا تھا

ایسا کیا ڈر تھا بھلا تیز ہوا سے لوگو!
بجھ گئیں شمعیں تو آنکھوں کو کُھلا رکھنا تھا

ہم نہ خوشبو تھے ، نہ آواز ، نہ بادل کوئی
پھر ہواؤں سے تعلق بھلا کیا رکھنا تھا

اس قدر بھی تو نہیں رکھتے زمیں کو بنجر
دل کے ویرانے میں اک نخلِ انا رکھنا تھا

ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۰​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سرحدِ شہر ِقناعت سے نکالے ہوئے لوگ
کیا بتائیں تمہیں کس کس کے حوالے ہوئے لوگ

اپنی قیمت پہ خود اک روز پشیماں ہونگے
سکّہء وقت کی ٹکسال میں ڈھالے ہوئے لوگ

آئینوں سے بھی نہ پہچانے گئے کچھ چہرے
آتشِ زر میں جلے ایسے کہ کالے ہوئے لوگ

کب سے ہے میرے تعاقب میں دہن کھولے ہوئے
ایک عفریت شکم جس کے نوالے ہوئے لوگ

تم سے بچھڑے ہیں تو ہر موڑ پہ ٹکراتے ہیں
سنگِ دشنام کے مانند اُچھالے ہوئے لوگ

راحت ِ سایہ میں بیٹھیں گےتو بجھ جائیں گے
ہم کڑی دھوپ میں سورج کے اُجالے ہوئے لوگ

اے مرے شہر ِتمنا تری سرحد سے پرے
جی رہے ہیں تری نسبت کو سنبھالے ہوئے لوگ


ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مارچ ۲۰۱۲​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
رہبری کے زخموں کا چارہ گر نہیں ملتا
واپسی کے رستے میں ہمسفر نہیں ملتا

شہر ہے یا خواہش کی کرچیوں کا صحرا ہے
بے خراش تن والا اک بشر نہیں ملتا

ہر طرف ضرورت کی اک فصیلِ نادیدہ
بے شگاف ایسی ہے جس میں دَر نہیں ملتا

قہقہوں کے سائے میں بے بسی کا عالم ہے
مرگِ آدمیت کو نوحہ گر نہیں ملتا

انقلابِ دنیا نے زاویے بدل ڈالے
تذکروں میں ماضی کے اب مفر نہیں ملتا

جس کے در دریچے سب دل گلی میں کھلتے تھے
عہدِ نو کے قصوں میں وہ نگر نہیں ملتا

رات دن الجھتے ہیں بے نشان رستوں سے
خواہشوں کے جنگل میں سُکھ نگر نہیں ملتا

حرف معتبر ہوں تو اک ضیاء سی دیتے ہیں
کاغذوں کو اب ورنہ آبِ زر نہیں ملتا

نم تو ہونا پڑتا ہے رنگ و روپ کی خاطر
خاکِ ریزہ ریزہ کو کوزہ گر نہیں ملتا

- ق -

وقت روٹھ جاتا ہے انتظارِ پیہم سے
گھر سے جانیوالوں کو پھر سے گھر نہیں ملتا

بام و در تو ملتے ہیں سب اسی جگہ قائم
چاہتوں کے آنگن میں اک شجر نہیں ملتا

گمشدہ سی گلیوں کے آشنا سے گوشوں میں
آہٹوں سے کھل جائے ایسا در نہیں ملتا

۔

ساتھ لے گئے تھے تم عہدِ خوش نظر میرا
تم تو مل گئے آخر ، وہ مگر نہیں ملتا

ظہیر احمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پھر لگا ہے دوستوں کا تازیانہ مختلف
تیر دشمن کی طرف ہیں اور نشانہ مختلف

بے نیازی برطرف ، اب لازمی ہے احتیاط
وقت پہلا سا نہیں اب ، ہے زمانہ مختلف

آشیانہ چھوڑنے کی اک سزا یہ بھی ملی
روز لاحق ہے تلاشِ آب و دانہ مختلف

اک شکم پروَر زمیں رکھتی ہے پابستہ مجھے
اور وفائیں مانگتی ہیں اک ٹھکانہ مختلف

دوسرا رخ بھی وہی نکلا تری تصویر کا
کاش ہوتا کچھ حقیقت سے فسانہ مختلف

اپنے بچوں کو ظہیر انسانیت کا درس دو
نفرتوں کے شہر میں رکھو گھرانہ مختلف

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۵​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لوگوں نے ایک واقعہ گھر گھر بنادیا
اُس کی ذرا سی بات کا دفتر بنادیا

پہرے قیامتوں کے لگا کر زبان پر
دل کو ترے خیال نے محشر بنادیا

صادق تھے ہم بھی جذبہء منزل میں اسقدر
رستے کا ہر سراب سمندر بنادیا

لے لے کے نقشِ بندگی دہلیز سے تری
ہم نے جبین ِ عشق کا زیور بنادیا

شہر ِ وصال دیکھنا چاہا پلٹ کے جب
مجھ کو طلسم ِ ہجر نے پتھر بنادیا

بخشی کسی کو گہری خموشی مگر مجھے
اک عشق ِرائگاں نے سخنور بنادیا

رکھتے تھے ہم بھی پہلو میں ہیرا سا دل کبھی
آلام ِ روزگار نے کنکر بنادیا

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ٢٠٠٣​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سادگی ہوئی رخصت ، زندگی کہاں جائے
زندگی کی خاطر اب آدمی کہاں جائے

جرم ہے دیا رکھنا شب پرست گلیوں میں
کس قدر اندھیرا ہے ، روشنی کہاں جائے

ہر طرف مکان اونچے چیختی صداؤں کے
آسمان تکنے کو خامشی کہاں جائے

آنگنوں میں پہرے ہیں رات بھر اجا لوں کے
دشت میں نہ جائےتو چاندنی کہاں جائے

سُر تو ساتھ ہولے گا گیت سننے والوں کے
سُر جگا کے چپ ہے جو بانسری کہاں جائے

ریت کے سمندر سے آگئے ہیں برفوں تک
آبِ گم نہیں ملتا تشنگی کہاں جائے

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۱​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
طوفان میں جزیرہ ملا ہے ، زمیں ملی
پانی کی قید سے تو رہائی نہیں ملی

ابر ِ رواں کے پیچھے چلے آئے ہم کہاں
بارش ہوئی تو مٹی کی خوشبو نہیں ملی

دوزخ سمجھ کے چھوڑی جو تپتی ہوئی زمین
چھالے پڑے تو پاؤں کو ٹھنڈک وہیں ملی

جھوٹی انا کا تخت ، زر ِ مصلحت کا تاج
جب کھو دیئے تو دولتِ صدق و یقیں ملی

تھکتی نہیں ہے سجدۂ فرعون ِ وقت سے
موسیٰ کے حامیوں کو یہ کیسی جبیں ملی

پردیس آکے مر گئی دریا دلی ظہیر
پانی کہیں کا تھا جسے مٹی کہیں ملی

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۰​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بجھتے بجھتے بھی اندھیروں میں کرن چھوڑ گیا
وہ مرا شوخ ستارہ جو گگن چھوڑ گیا

خواب تو خواب مجھے نیند سے ڈر لگتا ہے
جانے والا مری پلکوں پہ شکن چھوڑ گیا

اُس نے بھی چھوڑدیا مجھ کو زمانے کیلئے
جس کی خاطر میں زمانے کے جتن چھوڑ گیا

کسی زیور کی طرح اُس نے نکھارا مجھ کو
پھر کسی اور کی جھولی میں یہ دَھن چھوڑ گیا

دے رہا ہے مجھے پسپائی کے طعنے وہ بھی
میری رفتار میں جو اپنی تھکن چھوڑ گیا

بھول جانے کی قسم لے گیا وہ رشکِ گلاب
یاد رکھنے کو مہک ، رنگ، چبھن چھوڑ گیا

دستکِ دستِ طلب بس میں نہیں تھی اس کے
سو میں دہلیز پہ خود اپنا بدن چھوڑ گیا

نہ کوئی آگ لگائی ، نہ ڈھلا پانی میں
کس کا آنسو تھا ، بس آنکھوں میں جلن چھوڑ گیا

تھک کے بیٹھا تھا گھڑی بھر کومرے پاس کوئی
اورمرے کاندھے پہ برسوں کی تھکن چھوڑ گیا

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۷​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سنگِ ستم سے کوئی بھی شیشہ نہیں بچا
محفوظ وہ رہا جو دریچہ نہیں بچا

بازیگرانِ شہر ِسیاست ہوئے خموش
اب دیکھنے کو کوئی تماشہ نہیں بچا

کیسی چڑھی ہے دھوپ سرِ شہر ِ بد لحاظ
برگد ہرے بھرے ہوئے سایا نہیں بچا

پھیلاؤ کی ہوس بھرے دریا کو پی گئی
پانی چڑھا تو کوئی کنارہ نہیں بچا

بجھنے لگے چراغ مرے جسم و جان میں
دل میں لہو بقدرِ تمنا نہیں بچا

اک نقشِ لالہ رنگ تو رستے کو مل گیا
بیشک ہمارے پاؤں میں جوتا نہیں بچا

لگتا ہے یوں ، یاواقعی قحط الرجال ہے
لوگوں کے درمیان حوالہ نہیں بچا

اہلِ ہوس کی حاشیہ آرائی سے ظہیر
تاریخ درکنار صحیفہ نہیں بچا

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لب پہ شکوہ بھی نہیں ، آنکھ میں آنسو بھی نہیں
مجھ سے دل کھول کے لگتا ہے مِلا تو بھی نہیں

اُن کی آنکھوں کے ستارے توبہت دور کی بات
ہم وہاں ہیں کہ جہاں یاد کے جگنو بھی نہیں

جب سے گردن میں نہیں ہے کوئی بانہوں کی کمان
میرے سینے میں کوئی تیر تراز و بھی نہیں

یا تو ماضی کی مہک ہے یا کشش مٹی کی
ورنہ اُن گلیوں میں ایسا کوئی جادو بھی نہیں

رات کی بات تھی شاید وہ نشہ اور جادو
دن چڑھے رات کی رانی میں وہ خوشبو بھی نہیں

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۶​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے
لوگ رستے میں ہوں اتنے تو کنارے چلئے

اب تو مجبور یا مختار گزارے چلئے
قرض جتنے ہیں محبت کے اتارے چلئے

جس نے بخشی ہے مسافت وہی منزل دیگا
ہوکے راضی برضا اُس کے اشارے چلئے

اُن کے لائق نہیں کچھ اشکِ محبت کے سوا
بھر کے دامن میں یہی چاند ستارے چلئے

معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات
آ گئی شامِ سفر اپنے دُوارے چلئے

ہم بھی قائل نہیں رستے کو پلٹ کر دیکھیں
ماضی ڈستا ہے تو پھر ساتھ ہمارے چلئے

دشتِ ہجراں بھی گزر جائے گا عزّت سے ظہیر
نامِ نامی اُسی رہبر کا پکارے چلئے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳​
 
Top