محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
بھیا ہم نے تو عام اجازت عطا فرما دی ہے ، اب جس کی مرضی جو چاہے وہ کرے ۔اگر ہم نے اس کی صحیح صحیح شرح کردی تو آپ نہ معصوم رہیں گے نہ شریف!!!
بھیا ہم نے تو عام اجازت عطا فرما دی ہے ، اب جس کی مرضی جو چاہے وہ کرے ۔اگر ہم نے اس کی صحیح صحیح شرح کردی تو آپ نہ معصوم رہیں گے نہ شریف!!!
اجازت ہے کہ بلینک چیک!!!بھیا ہم نے تو عام اجازت عطا فرما دی ہے ، اب جس کی مرضی جو چاہے وہ کرے ۔
ابھی چیک کس بات کا دیں ،ہم نے بولنے کی اجازت دی ہے ،آپ تو بینک لوٹنےکے چکر میں پڑ گئے ۔اجازت ہے کہ بلینک چیک!!!
بہت مزیدار قصہ چھیڑ دیا ہےفاخر رضا بھائی اپنی شادی پر بہت پریشان تھے ،
دوست : کیوں پریشان ہو کیا ہوا ؟
فاخر بھائی : یار میرے سسرال والوں نے بہت کم آدمی بارات پر بلائے ہیں پتہ نہیں میرے ابو مجھے بھی لے کر جائے گا کہ نہیں ۔
اسی سے ہمیں بھی یاد آیا کہ ہماری امی کے کزن تین بھائی ہیں۔ ان میں منجھلے بھائی چوبیس پچیس سال قبل سعودی عرب میں ہوا کرتے تھے۔ بڑے بھائی کی شادی پہ پاکستان نہ آ سکے۔ چھوٹے بھائی کی شادی پہ بھی نہ آ سکے۔ اور پھر اپنی شادی پہ بھی نہ آ سکے۔فاخر رضا بھائی اپنی شادی پر بہت پریشان تھے ،
دوست : کیوں پریشان ہو کیا ہوا ؟
فاخر بھائی : یار میرے سسرال والوں نے بہت کم آدمی بارات پر بلائے ہیں پتہ نہیں میرے ابو مجھے بھی لے کر جائے گا کہ نہیں ۔
بھیا تھوڑا کراچی والوں کا بھی خیال رکھیں ، یہاں بارش نہیں ہو رہی ۔اسی سے ہمیں بھی یاد آیا کہ ہماری امی کے کزن تین بھائی ہیں۔ ان میں منجھلے بھائی چوبیس پچیس سال قبل سعودی عرب میں ہوا کرتے تھے۔ بڑے بھائی کی شادی پہ پاکستان نہ آ سکے۔ چھوٹے بھائی کی شادی پہ بھی نہ آ سکے۔ اور پھر اپنی شادی پہ بھی نہ آ سکے۔
مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ باقاعدہ بارات دلہن والوں کے گھر گئی۔ ویلیں، ڈھول، رخصتی وغیرہ سب کچھ ہوا۔ بس دولہا موجود نہ تھا۔
فاخر بھائی آپ کی شادی کس شہر میں انجام پائی تھی ۔بہت مزیدار قصہ چھیڑ دیا ہے
میری سسرال خبطی ہے ٹائم کیپنگ میں اور ہماری بارات پہنچی دو گھنٹے لیٹ، ماموں سسر آگ کا بگولہ بنے ہوئے تھے پھر نکاح نامے کی شقوں پر مسئلہ. فل تھرلر شادی تھی میری
یعنی؟
کراچی میں، مرکز سادات امروہہفاخر بھائی آپ کی شادی کس شہر میں انجام پائی تھی ۔
فاخر بھائی پھر تو آپ کی شادی کراچی والوں کے مزاج کے عین مطابق انجام پائی۔کراچی میں، مرکز سادات امروہہ
یعنی وہ جو نوٹ وغیرہ دیئے جاتے ہیں، باجے بجانے والوں کو۔
ارے بھیا آپ ان ہی نوٹوں کا ذکر کر رہے ہیں نا جو گلی محلے میں آئی بارات میں نچھاور کیے جاتے ہیں بچپن میں آپ نے بھی لوٹے ہو گے ۔یعنی وہ جو نوٹ وغیرہ دیئے جاتے ہیں، باجے بجانے والوں کو۔
اردو میں اسے "بیل" بروزنِ کھیل کہا جاتا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے "یادوں کی برات" میں اس کا ذکر کیا ہے۔ جب کوئی بیل دیتا تھا تو لینے والے اس کے نام کا بلند آواز سے اعلان کرتے تھے یعنی فلاں خان صاحب کی بیل۔ پنجابی میں اسے "ویل" کہتے ہیں اور یہاں بھی اعلان کیا جاتا تھا، جس کا رواج اب ختم ہو چکا ہے۔ لکھنؤ کا نہیں معلوم کہ اب اعلان کرتے ہیں یا نہیں۔
رواج ختم کہاں ہوا جناب۔ گجرات وغیرہ میں تو ابھی بھی پورے خضوع و خشوع کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے، بلکہ زیادہ تر کیس میں ویل دینے کا اولین مقصد ہی اعلان میں نام پکارا جانا ہوتا ہے۔پنجابی میں اسے "ویل" کہتے ہیں اور یہاں بھی اعلان کیا جاتا تھا، جس کا رواج اب ختم ہو چکا ہے
بارات پر نچھاور کیے جانے والے پیسے اور چیز ہیں اور یہ جس کے ہاتھ لگیں اسی کے ہوتے ہیں۔ بیل یا ویل خاص باجے والے، گانے والوں، ڈومنیوں، میراثیوں، بھانڈوں یا ہیجڑوں وغیرہ کے ہوتے ہیں، ہر کسی کے نہیں۔ اور یہ نچھاور نہیں کیئے جاتے بلکہ ایک خاص انداز سے دیئے جاتے ہیں جیسے ایک نوٹ کو ہاتھ میں تھام کر کسی کے سر کے پاس کرنا جسے لینے والے اچک لیتے تھے اور ساتھ میں نام اور رقم کا اعلان بھی کرتے تھے۔ بیل لینے والے اتنے فنکار ہوتے تھے کہ وہیں بیٹھے بیٹھے بیلوں کی مقابلہ بازی شروع کروا دیتے تھے اور حریف بڑھ چڑھ کر بیلیں دینا شروع کر دیتے تھے۔ارے بھیا آپ ان ہی نوٹوں کا ذکر کر رہے ہیں نا جو گلی محلے میں آئی بارات میں نچھاور کیے جاتے ہیں بچپن میں آپ نے بھی لوٹے ہو گے ۔
اوہ اچھا، شاید پھر مجھے یہ " مقابلہ بازی" دیکھے مدتیں ہو گئیں۔رواج ختم کہاں ہوا جناب۔ گجرات وغیرہ میں تو ابھی بھی پورے خضوع و خشوع کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے، بلکہ زیادہ تر کیس میں ویل دینے کا اولین مقصد ہی اعلان میں نام پکارا جانا ہوتا ہے۔