سُنا ہے
عبداللہ محمد صاحب شہر میں منطق پڑھا کرتے تھے۔ شہر میں منطق پڑھ کر گاؤں واپس گئے تو ایک دن گاؤں کے چوہدری صاحب نے ان کو بلوا لیا (یہ اپنے چوہدری صاحب نہیں بلکہ گاؤں کے چوہدری صاحب تھے)۔ اور پوچھا
چوہدری صاحب۔ عبداللہ پُتر، سنا شہر میں کیا پڑھ کے آیا ہے۔
عبداللہ محمد۔ چوہدری صاحب منطق پڑھی ہے۔
چ ص - پتر وہ کیا ہوتی ہے؟
ع م - چوہدری صاحب منطق ہمیں صحیح نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔
چ ص - ہیں ایں ایں۔۔۔
ع م - چوہدری صاحب میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، آپ نے کتا پالا ہوا ہے؟
چ ص ۔ آہو
ع م - اس کا مطلب ہے کتے کا رکھوالا بھی رکھا ہوگا۔
چ ص - آہو
ع م - اس کا مطلب ہے آپ کی آمدنی کافی ہے کہ آپ نے ملازم رکھا ہوا ہے۔
چ ص - آہو پتر، اللہ کا فضل ہے، بڑی برکت ہے۔
ع م - اس کا مطلب ہے کہ آپ کی والدہ آپ کے حق میں بہت دعائیں کرتی ہیں جو قبول بھی ہوتی ہیں۔
چ ص۔ آہو پتر، بڑی چوہدارنی صاحبہ بڑی دعائیں دیتی ہیں مجھے۔
ع م - پس ثابت ہوا کہ آپ کی والدہ ایک پارسا خاتون ہیں۔
عبداللہ صاحب تو یہ ثابت کر کے نکل لیے، چوہدری صاحب کا ایک ملازم وہاں آیا اور کہنے لگا، چوہدری صاحب یہ بھلا عبداللہ کیا پڑھتا ہے ہے شہر میں۔
چ ص۔ اوئے وہ مَن تَک پڑھتا ہے شہر میں۔
ملازم۔ چوہدری صاحب وہ کیا ہوتی ہے۔
چ ص۔ اوئے ان پڑھ تُو نہیں سمجھے گا، چل میں تجھے ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ کیا تُو نے کتا پالا ہوا ہے۔
ملازم - نہیں چوہدری صاحب
چ ص ۔ بس فیر ثابت ہویا کہ تیری ماں کوئی پارسا عورت نہیں۔