عشق

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
عشق سادہ بھی تھا، بے خود بھی، جنوں پیشہ بھی
حسن کو اپنی اداؤں پہ حجاب آتا تھا

پھول کھلتے تھے تو پھولوں میں نشہ ہوتا تھا
رات ڈھلتی تھی تو شیشوں پہ شباب آتا تھا
(آل احمد سرور)
 

شمشاد

لائبریرین
حسن کچھ ٹیکنی کلر ہو تو غزل ہوتی ہے
عشق بھی ٹیڈی اثر ہو تو غزل ہوتی ہے

صرف افسر کا ہی ڈر اس میں نہیں ہے کافی
ساتھ بیوی کا بھی ڈر ہو تو غزل ہوتی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
عشاق رہِ عشق میں محتاط رہیں گے
سیکھا ہے حسینوں نے بھی اب جوڈو کراٹا

کالا نہ سہی لال سہی تل تو بنا ہے
اچھا ہوا مچھر نے تیرے گال پہ کاٹا
 

الف نظامی

لائبریرین
اے دردِ عشق ہے گہرِ آب دار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفلِ نو کی نگاہ ہے
آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں
اے دردِ عشق اب نہیں لذت نمود میں
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
 

شمشاد

لائبریرین
تجھے مجھ سے مجھ کو تجھ سے جو بہت پیار ہوتا
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا

تیرا ہر مرض الجھتا میری جانِ ناتواں سے
جو تجھے زکام ہوتا تو مجھے بخار ہوتا

وہاں زیرِ بحث آتے خط و خال ل خوئے خوباں
غمِ عشق پر جو ‘انور‘ کوئی سیمینار ہوتا
(انور مقصود)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ رکھ رکھاو محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے

کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اتار کر ہی راس آتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اک بے پروا نوں دے کے دل اسی دید دا سودا کر بیٹھے
رب چاڑے توڑ محبتاں نوں اسی عشق دا دعوا کر بیٹھے

مکھ یار دا سمجھ قرآن لیا، در یار نوں کعبہ جان لیا
رب بخشے نہ بخشے اودی رضا، اسی یار نوں سجدہ کر بیٹھے

تیری محفل دا عجب دستور ڈِٹا، کوئی سرمد تے منصور ڈِٹا
جہڑے آئے تماشا ویکھن نوں، او اپنا تماشا کر بیٹھے
 

الف نظامی

لائبریرین
علم نے مجھ سے کہا ، عشق ہے دیوانہ پن!
عشق نے مجھ سے کہا ، علم ہے تخمین و ظن!
بندہِ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن!
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب
 

الف نظامی

لائبریرین
عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات عشق حیات و ممات
علم سے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
 
ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے
کہ اشک روکنا تم سے محال ہونا ہے

ہر اک لب پہ ہیں میری وفا کے افسانے
تیرے ستم کو ابھی لازوال ہونا ہے

تمہیں خبر ہی نہیں تم تو لوٹ جاؤ گے
تمہارے ہجر میں لمحہ بھی سال ہونا ہے

ملیں گی ہم کو بھی اپنے نصیب کی خوشیاں
بس دیکھنا ہے کب یہ کمال ہونا ہے

ہرایک شخص چلے گا ہماری راہوں پر
محبتوں میں ہمیں وہ مثال ہونا ہے

زمانہ جس کے پیچ و خم میں الجھ جائے
ہماری ذات کو ایسا سوال ہونا ہے
 

ماوراء

محفلین
وہ بے خبر ہیں جن کو ہے پندارِ تخت و تاج
دیکھا ہے ہم فقیروں کا جاہ و حشم کہاں
پلکوں پہ جُڑ گئے ہیں ستارے سے عشق میں
ہر ایک کے نصیب میں یہ اشکِ غم کہاں​
 

الف نظامی

لائبریرین
گدائے کوئے مدینہ ہوں کس کا منہ دیکھوں
انہی کی بخششیں کافی ہیں مجھ گدا کے لیے
انہی کو لذتِ عشق نبی ملی کہ جنہیں
ازل میں چن لیا قدرت نے اس عطا کے لیے
 

شمشاد

لائبریرین
عشق میں لاجواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ

گرچہ اہلِ شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
(جگر مراد آبادی)
 
ماوراء نے کہا:
واہ محب علوی۔۔بہت خوب۔۔۔!!

آداب عرض ہے ، ماورا تمہاری حوصلہ افزائی پر چند اور اشعار پیش ہیں۔

چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ، ان کی اپنی مجبوری

میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکوں
کچی مٹی تو مہکی گی ، ہے مٹی کی اپنی مجبوری

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آجاتی ہے سب کو کوئی مجبوری
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top