اے دردِ عشق ہے گہرِ آب دار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفلِ نو کی نگاہ ہے
آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں
اے دردِ عشق اب نہیں لذت نمود میں
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ