اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر،ہم بھولوں ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم،تُو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم تو نہیں یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا سب چین گیا آرام گیا
چہروں سے بہار ِ صبح گئی آنکھوں سے فروغِ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگین نہ بناناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے پا جائے کوئی تو خیر نہیں
آنکھوں سے جب آنسو بہتے ہیں آجائے کوئی تو خیر نہیں
ظالم ہے یہ دنیا دل کو بھا جائے کوئی تو خیر نہیں
ہے ظالم مگر فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دنیاکا تماشہ دیکھ لیا غمگین سی بیتاب سی ہے
امید یہاں اک وہم سی ہے تسکین یہاں اک خواب سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر