مثلِ بو قید ہے غنچے میں ، پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہے ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ ، توذری سے بیاباں ہو جا
نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمد سے اجالا کر دے
اقبال
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو آدھورا چھوڑ دیا
ہر لمحہ خیر و شر میں کہیں اِک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کارَ ثواب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو،اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پہ آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
لوگ کہتے ہیں عشق کا رونا
گریہء زندگی سے عاری ہے
پھر بھی یہ نامراد جذبہء دل
عقل کے فلسفوں پہ بھاری ہے
آپکو اپنی بات کیا سمجھاؤں
روز بجھتے ہیں حوصلوں کے کنول
روز کی الجھنوں سے ٹکرا کر
ٹوٹ جاتے ہیں دل کے شیش محل
لیکن آپس کی تیز باتوں پر
سوچتے ہیں ، خفا نہیں ہوتے
آپکی صنف میں بھی ہے یہ بات
مرد ہی بے وفا نہیں ہوتے !!!!!!!
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪