عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
شاباش عظیم، اچھی غزل کہی ہے یہ تو۔
اور واہ عاطف میاں، یار میرا کام ہر جگہ آسان کر دیا کرو۔ میں تقریباً ہر معاملے میں اپنے کو متفق پاتا ہوں۔

بابا یہ اچهی ہے تو اچهی کیا ہوگی ؟ شاباشی ابهی سمبهال رکهئے - بہت آگے کا سفر کرنا ہے - انشاء اللہ -
 

عظیم

محفلین
کب تلک میرا امتحاں لو گے
جان دیتا ہوں تم پہ جاں لو گے

چهین کر مجه سے یہ زمیں میری
اک نیا اور آسماں لو گے

اور تو کچه نہیں ہے میرے پاس
تم نے بخشی ہے جو زباں لو گے

چیختے ہیں جو لوگ مجه پر آج
ان گنواروں سے ترجماں لو گے

اس نکمے سے اس اناڑی سے
کیسے کیسے کہو بیاں لو گے

دل ہتهیلی میں پیش کرتا ہوں
اب بتاو بهی مہرباں لو گے

درد دے کر عظیم کہتے ہیں
کچه بتاو اے رازداں لو گے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بابا کہیں پڑها تها کہ غزل میں تااااک بندی ہونی چاہئے - سو میں نے ایک شعر کا اور اضافہ کر دیا اس تک بندی میں "طاق" ہونے کی خاطر -
 

عظیم

محفلین
کیونکہ روٹهے ہیں کچه بتائیں بهی
چهوڑ جانا ہی تها تو آئیں بهی

ہم بهی کچه کہہ سکیں زمانے سے
ایسا اک شعر کہہ سنائیں بهی

دل جو دیتے ہیں آپ کو سنئے
روندنے کو ہی لیک آئیں بهی

جائیے ہم بهی اب نہ بولیں گے
اجی سنتے ہیں اب منائیں بهی

آپ کو دیکهتے ہیں ہر جانب
بزم یاراں میں لوٹ آئیں بهی

کیا کہیں ان سے آہ محفل میں
دوسروں کی طرح ستائیں بهی

یوں نہیں چپ کریں گے ہم صاحب
وہ جو آئیں تو چپ کرائیں بهی


بابا اک اور تک بندی - کرنے کو کچه نہیں -
 

عظیم

محفلین
زندگانی کی شام ہو جائے
اب تو قصہ تمام ہو جائے

یاالہی یہ تیرا بیچارہ
کوئی تیرا سلام ہو جائے

اور تو کچه نہیں مگر اتنا
تیرے در پر قیام ہو جائے

میں یہ کب چاہتا ہوں دنیا میں
میرا بهی نیک نام ہو جائے

اے مرے درد تو گواہی دے
موت کا اہتمام ہو جائے

اس سے پہلے کہ مر ہی جاوں میں
زندگی سے سلام ہو جائے

صاحب اپنا بهی عشق میں کوئی
ذرے جیسا مقام ہو جائے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کب تلک میرا امتحاں لو گے
جان دیتا ہوں تم پہ جاں لو گے
÷÷درست

چهین کر مجه سے یہ زمیں میری
اک نیا اور آسماں لو گے
÷÷دیکھنے میں اچھا ہے، اگر مفہوم سمجھ میں آ جائے تو بہت خوب!

اور تو کچه نہیں ہے میرے پاس
تم نے بخشی ہے جو زباں لو گے
÷÷یہ تو تک بندی ہی ہے، زباں محبوب بخشتا ہے؟
چیختے ہیں جو لوگ مجه پر آج
ان گنواروں سے ترجماں لو گے
؟؟


اس نکمے سے اس اناڑی سے
کیسے کیسے کہو بیاں لو گے
؟؟

دل ہتهیلی میں پیش کرتا ہوں
اب بتاو بهی مہرباں لو گے
÷÷درست

درد دے کر عظیم کہتے ہیں
کچه بتاو اے رازداں لو گے
؟؟
 

الف عین

لائبریرین
کیونکہ روٹهے ہیں کچه بتائیں بهی
چهوڑ جانا ہی تها تو آئیں بهی
۔۔دوسرا مصرع کچھ اور ہو تو بہتر ہو جائے

ہم بهی کچه کہہ سکیں زمانے سے
ایسا اک شعر کہہ سنائیں بهی
۔۔کہہ سنائیں؟ ایسا اک شعر اب سنائیں بھی ‘ بہتر ہو گا۔

دل جو دیتے ہیں آپ کو سنئے
روندنے کو ہی لیک آئیں بهی
۔۔سنئے‘ محض وزن پورا کرنے کے لئے گھسا دیتے ہو!!!

جائیے ہم بهی اب نہ بولیں گے
اجی سنتے ہیں اب منائیں بهی
÷÷درست

آپ کو دیکهتے ہیں ہر جانب
بزم یاراں میں لوٹ آئیں بهی
۔۔ڈھونڈھتے‘ کہو

کیا کہیں ان سے آہ محفل میں
دوسروں کی طرح ستائیں بهی
÷÷بیکار ہے شعر

یوں نہیں چپ کریں گے ہم صاحب
وہ جو آئیں تو چپ کرائیں بهی
۔۔یوں نہ صاحب خموش ہوں گے کبھی
 

الف عین

لائبریرین
یہ سب سے بہتر ہے
زندگانی کی شام ہو جائے
اب تو قصہ تمام ہو جائے
÷÷درست

یاالہی یہ تیرا بیچارہ
کوئی تیرا سلام ہو جائے
۔۔کوئی؟؟؟ یا الٰہی بھی بھرتی کا ہے۔ یہ تیرا بے چارہ کا دوسرے مصرع سے کوئی تعلق نہیں نظر آتا۔

اور تو کچه نہیں مگر اتنا
تیرے در پر قیام ہو جائے
÷÷پہلا مصرع؟ یوں ہو تو بات بنے
چاہتے ہیں تو صرف اتنا ہی

میں یہ کب چاہتا ہوں دنیا میں
میرا بهی نیک نام ہو جائے
۔۔نیک نام صفت ہوتی ہے۔ ’میرا مشہور نام‘ درست ہو سکتا ہے۔

اے مرے درد تو گواہی دے
موت کا اہتمام ہو جائے
÷÷حاصل غزل شعر، خوب!

اس سے پہلے کہ مر ہی جاوں میں
زندگی سے سلام ہو جائے
÷÷درست

صاحب اپنا بهی عشق میں کوئی
ذرے جیسا مقام ہو جائے
یہ تو الٹی بات ہو گئی۔ ایسا کون چاہتا ہے؟
 

عظیم

محفلین
اے دل بیقرار کیوں آئے
کیوں تجهے آج کل سکوں آئے

یوں بهی ہوتا ہے کیا زمانے میں
دشت سے ہو کے جوں کے توں آئے

اب یہ ممکن ہے میری آنکهوں میں
اشک آئیں نہ جب تو خوں آئے

میری بدبختیاں ہیں قابل دید
چین چاہوں مگر جنوں آئے

عین ممکن ہے مل بهی جائے لیک
کیا کہوں اب قرار کیوں آئے

اس گلستاں میں کم نصیبوں کے
آئے بهی گر بہار کیوں آئے

صاحب ایسا بهی کیا ہوا دیکها
اک حقیقت سے ہو فسوں آئے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ایسی گمگشتگی عطا کیجئے
آج اپنا ہمیں پتا دیجئے

جانے والے ہیں کوئے یاراں کو
رہنماؤ چلو دعا کیجئے

کب تلک زہر ہم پئیں کچھ تو
اب دوا زہر میں ملا دیجئے

یہ تغافل یہ دوریاں ہم سے
کس لئے آخرش بتا دیجئے

ہم کہیں اور وہ کہیں اک دن
صاحب اپنی بهی کچھ سنا کیجئے
 

عظیم

محفلین
دوست بن کر رقیب آتے ہیں
سوچتا ہوں حبیب آتے ہیں

مر چلا جب کہ اس ترے غم میں
دیکھ لو اب طبیب آتے ہیں

جن سے میں دور ہو چلا تها وہ
کیوں کہ میرے قریب آتے ہیں

کیا بتاؤں عجائبوں میں بهی
کچھ مناظر عجیب آتے ہیں

دیکهئے اب کے دشمنوں میں ہوں
تهام کر وہ صلیب آتے ہیں

تم مقدر کو پیٹتے ہو یار
ہم سے ملنے نصیب آتے ہیں

کیا کہیں اب عظیم صاحب ہم
کاٹ کهانے کو جیب آتے ہیں
 

عظیم

محفلین
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
تلخیاں بڑھ گئیں زمانے کی

کوئی دیکهے تو ان کی یاد آنا
اس پہ حالت غریب خانے کی

کب سلجهتی ہے ڈور الجهائی
آپ سلجهوں سے اس دوانے کی

خود پہ ہی طنز کر چلا ہوں میں
کیوں کہ آخر سنوں زمانے کی

ابهی زندہ کیا ابهی مارا
اتنی جلدی بهی کیا بلانے کی

لاش اپنی کو دیکهتا ہوں میں
خود میں طاقت نہیں اٹهانے کی

صاحب اس دہر میں ہوئی عادت
ہر کسی کو ہمیں ستانے کی
 
آخری تدوین:
Top