عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
بابا باقی تو آپ دیکه لیجئے گا - مگر مجهے یہ شعر پسند آیا

ابهی زندہ کیا ابهی مارا
اتنی جلدی بهی کیا بلانے کی -

کمال ہے جلدی میں تو میں بهی ہوں - اور شکوہ ان سے - اب یہ مت پوچهئے گا کن سے -
 

عظیم

محفلین
آپ صاحب جناب میرے ساتھ
یہ سوال و جواب میرے ساتھ

تاکنا دور سے نگاہوں کا
اور ایسا حجاب میرے ساتھ

یہ زمیں ہے عظیم فاتح کی
کیجے بنجر جناب میرے ساتھ

بد حسابی پہ میری ہی آخر
آپ رکها حساب میرے ساتھ

ڈگمگاتے ہیں پیر میخانہ
رات پی لی شراب میرے ساتھ

اک تو کم بخت ہے جہاں دشمن
اس پہ حب حباب میرے ساتھ

جانے کیا چال چل گیا صاحب
عشق خانہ خراب میرے ساتھ
 

عظیم

محفلین
نام غیروں کا جب لیا میں نے
ذکر تیرا ہی تو کیا میں نے

عمر بهر آہ اپنے دامن کو
خود ہی پهاڑا کیا سیا میں نے

میری وحشت کو جانتے ہو کیا
جی سکو جس طرح جیا میں نے

تم جو کہتے ہو اب نہ آؤ گے
جرم ایسا بهی کیا کیا میں نے

واہ مجھ سے بهی زیادہ ضدی ہو
نام تیرا نہیں لیا میں نے

ہاں دهکیلا گیا ہوں سب میں میں
خود کو دهکا نہیں دیا میں نے

مر گیا ہجر میں ترے آخر
وصل کا دن نہیں جیا میں نے

صاحب اس کو پکار بهی دیکها
نام جس کا نہیں لیا میں نے
 

عظیم

محفلین
کب تلک جسم و جاں جلائیں ہم
کب تلک آپ کو صدائیں ہم

گر نہیں لوٹنے کی فرصت آپ
ہم سے کہئے کہ لوٹ جائیں ہم

یاں تو یہ حال ہے کہ جانیں کیا
واں یہ مشہور ہے بتائیں ہم

ہے خبر کیا کہ سوچتے کیا ہیں
جانئے کیا کہ کیا چهپائیں ہم

اب تو یہ حال ہے تمہارے بن
جی نہ پائیں تو مر ہی جائیں ہم

آ بهی جاؤ کہ خون روتے ہیں
ایک لمحے کو مسکرائیں ہم

جا کہیں دل کی بات کن سے اور
غم کے قصے کسے سنائیں ہم

صاحب اس کرب سے مسلسل بیر
دشمنی آپ سے نبهائیں ہم

ہم نے مانا عظیم وہ جیتے
اس بہانے ہی جیت جائیں ہم
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جی سے جائیں کہ جاں سے جائیں ہم
کسطرح آپ کو منائیں ہم

اس منانے کے واسطے تیرے
خود سے آخر نہ روٹھ جائیں ہم

یاد آتا ہے رات بهر رونا
جب کبهی دن کو مسکرائیں ہم

کیا سنے غیر بهی ہمارا حال
اور کیا یار کو سنائیں ہم

اب یہ حالت ہے عشق میں اپنی
آپ اپنے پہ رحم کهائیں ہم

جانئے کیا کہ آ کے غیروں میں
ایک اپنے کو ڈهونڈ پائیں ہم

دل کا لگ جانا اک قیامت ہے
اور قیامت بهی جو اٹهائیں ہم

لفظ مدہوش کر چلے آخر
خود کو خاموش اب کرائیں ہم

صاحب ان محفلوں سے دنیا کی
اپنی خلوت میں لوٹ جائیں ہم
 

عظیم

محفلین
کب یہاں زندگی کے میلے ہیں
آپ تنہا تو ہم اکیلے ہیں

دیکھ رکھی ہیں ساری خوشیاں اور
ہم نے دُنیا کے درد جھیلے ہیں

یہ زمانہ کیا ہم سے کھیلے گا
کھیل ایسے جہاں سے کھیلے ہیں

شہر والوں سے کیا شکایت ہو
ہم کسی دشت کے دھکیلے ہیں

کیا کہیں ہم کہ محفلوں میں بھی
ہم سے صاحب کئی اکیلے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ایک زندہ مثال جیسا ہے
کیا بتائیں کہ حال کیسا ہے

یہ کرم ان کا اور پر شاید
ہم پہ کوئی وبال ایسا ہے

اک گهڑی ہجر کی ہمیں اب تو
ایک لمحہ بهی سال جیسا ہے

جا ملیں ہم ہی کیوں نہ ان سے آج
اپنے لب پر سوال کیسا ہے

اک حقیقت دکهائی دیتی ہے
روپ لیکن خیال جیسا ہے

جن کو فرقت میں ہو گیا مرنا
وہ نہ جانیں وصال کیسا ہے

صاحب ان کا جمال بهی اپنے
خوبصورت خیال جیسا ہے
 

عظیم

محفلین
ہر مکاں لامکان سے آخر
ہم گئے جسم و جان سے آخر

آج مانگیں بھی ہم تو کیا مانگیں
آپ سے مہربان سے آخر

گرتے گرتے تمہاری نظروں سے
گر گئے آسمان سے آخر

لے لئے آہ کیا بیاں تُم نے
ہم سے اس بے زبان سے آخر

وہ نہ آئے نہ اُن کو آنا تھا
ہم چلے اس جہان سے آخر

کیا کریں دوستی بھی صاحب ہم
آپ سی سخت جان سے آخر

جاتے جاتے چلے ہیں ہم یارو
آج اپنے نشان سے آخر
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


سوچتا ہوں کہ چپ رہوں کیونکر
ظلم دنیا کے میں سہوں کیونکر

کہتے پهرتے ہیں آپ غیروں سے
میں کچھ اپنوں سے بهی کہوں کیونکر

ایسی دنیا میں آپ ہی کہئے
رہنا چاہوں بهی گر رہوں کیونکر

خشک دریا ہوں اپنی آنکهوں کا
تر کسی چشم سے بہوں کیونکر

میرے ہونے کا یہ تقاضا ہے
نہ تها میں کیوں کہ اب جو ہوں کیونکر

اے غم زندگی بتا مجھ کو
مسکراتا بھی اب رہوں کیونکر

سہہ چکا ہوں عظیم دردوں کو
اب یہ تکلیف کو سہوں کیونکر


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

بے خودی میں ہیں تیرے دیوانے
کوئی سمجهے نہ آج پہچانے

مست رہتے ہیں تیری مستی میں
کیا کریں اور تیرے مستانے

جل بجهے اپنی ہی لگی سے آہ
شمع افروز تیرے پروانے

وہ پلاتے ہیں جام نظروں کے
بند کردو تمام میخانے

کیا خبر آج مر ہی جائیں ہم
کب تلک جی سکیں گے مرجانے

درد حد سے گزر چکا لیکن
بهرنے والے نہیں یہ پیمانے

عشق میں کیا مقام اپنا ہے
ہم ہی جانے نہ ہم ہی پہچانے

زندگی ہے کسی دعا کا نام
موت کیا چیز ہے خدا جانے

کہہ دیا جو عظیم تها کہنا
کوئی آتا رہے گا سمجهانے​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

ہم سے کیا مشورہ لیا جائے
عشق آسان ہے کیا جائے

کب تلک بیٹھ اپنے زخموں کو
نوک خنجر سے یوں سیا جائے

کیا نہیں جانتے ہیں جینا ہم
جی نہ پائیں اگر جیا جائے

ہے کوئی دل میں آپ کے بهی درد
آئیں ہم کو دکها لیا جائے

خود ہی اپنا علاج ٹهہرے ہم
سب کو جا کر بتا دیا جائے

کرتے رہتے ہیں یاد ہم ان کو
جتنا بهی ہم سے کر لیا جائے

ایسے کیسے عظیم لوگوں کو
اتنی جلدی بهلا دیا جائے


محمد عظیم صاحب -



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دیکهئے ہم گلہ نہیں کرتے
ہاں مگر یوں کیا نہیں کرتے

ملتے رہتے ہیں آپ غیروں سے
کیوں کہ ہم سے ملا نہیں کرتے

یہ ہماری جو زندگی ہیں آپ
ہم سے مر کر مرا نہیں کرتے

آپ تو جانتے ہیں سچائی
ظلم ایسا خدا نہیں کرتے

دوست دشمن تو بن ہیں جاتے لیک
دوست دشمن ہوا نہیں کرتے

اچها یہ بات ہے تو جائیں اب
ہم بهی کوئی دعا نہیں کرتے

دیکهئے لوگ کیا سمجهتے ہیں
ملنے والے ملا نہیں کرتے

خوب صاحب ہیں کہہ چلے پهر بهی
ہم سے کہتے کہا نہیں کرتے

کیا برا غیر کا کریں صاحب
ہم تو اپنا بهلا نہیں کرتے
 
آخری تدوین:
Top