عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
بابا غزل جان کر ارسال کرنے جا رہا ہوں اگر کوئی غلطی ہوئی تو نشاندہی فرما دیجئے گا - ایک بار پهر سے کوشش کر لوں گا -


جاں سے جانا کہ جاں سے جانا ہے
کیا ہمیں آسماں سے جانا ہے

چل دئیے ہیں تمہاری جانب ہم
اب ہمیں اس جہاں سے جانا ہے

دیکهتا ہوں کہ تم کہاں ہو اور
آج اپنا کہاں سے جانا ہے

ہم جو بولے تو آپ سن لیجئے
سب نے اپنی زباں سے جانا ہے

جاتے جاتے جناب آخر سب
اس زمان و مکاں سے جانا ہے

ہو چکی آپ سے جو تشریح آج
ہر کسی نے بیاں سے جانا ہے

میں نہ کہتا تها آپ سے صاحب
ہم نے دور آسماں سے جانا ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یہ بهی بابا -


زندگی ڈهونڈئیے کہاں صاحب
آپ دیکهیں تو اپنی جاں صاحب

ہر کوئی اپنے آپ میں ہے مست
ہم نے دیکها یہاں وہاں صاحب

کیا کہیں تنگ آ چکے تم سے
روز کا یہ ترا بیاں صاحب

میں جو رویا تو آج رو دے گا
ساتھ میرے یہ آسماں صاحب

اپنی پہچان بهول بیٹها ہوں
ڈهونڈتا ہوں ترا نشاں صاحب

اب کہاں دل میں درد پہلے سا
اب وہ آوارگی کہاں صاحب

شعر گوئی پہ ہم ہی مائل کیوں
اور بهی لوگ ہیں یہاں صاحب


اور بابا تخلص ڈرتے ڈرتے استعمال کرتا ہوں لوگ ہنستے ہوں گے -
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

اے مرے مہرباں کہاں ہو تم
سب سے کہتا ہوں رازداں ہو تم

میں کب اپنا نشان ٹهہرا اور
میری ہستی کا اک نشاں ہو تم

کیا محبت کہ تم سے کیسا بیر
میں زمیں ہوں تو آسماں ہو تم

اب تمہارا پتا بهی پوچهوں کیا
اور بتاوں کہاں کہاں ہو تم

میری اس روح کی تمنا اور
میری اس جان کی اماں ہو تم

دیکهتا ہوں تمہیں کو ہر جانب
میری نظروں سے کیوں نہاں ہو تم

یوں اسے رات دن ستاتے ہو
خوب صاحب پہ مہرباں ہو تم


 

عظیم

محفلین


کیا مری حالت سدهاری جائے گی
آپ سے اب یہ خماری جائے گی

دیکهئے ہم بے سہاروں کی بهلا
کس طرف اب کے سواری جائے گی

مر بهی جائیں گے تمہارے ہجر میں
عمر بهی اپنی گزاری جائے گی

رات دن رو رو کے اپنے بخت پر
اپنی ہی قسمت سنواری جائے گی

یہ زباں جو آپ کے منہ میں نہیں
اس زباں سے اب نکهاری جائے گی

غنچہ غنچہ پهول پهول اس شوخ پر
ہر کلی اس گل پہ واری جائے گی

دیکهنا تہذیب کا بنتا مذاق
ہر گلی کوچہ پکاری جائے گی

صاحب اپنا شوق لایا کهینچ کر
جس جگہ میت اتاری جائے گی

آ بهی جاو اتنا بتلانے کو تم
کب غموں کی بردباری جائے گی


 

عظیم

محفلین

ایک اُن کو بھی جام دے ساقی
کوئی تیرا بھی نام لے ساقی

رہنے دے ہوش کُچھ تو باقی آج
ہاں مگر ہوش کام کے ساقی

مست ہے دیکھ ساری دُنیا اب
اب کہاں بادہ جام، نے ساقی

تُم ہی مدہوش کر چلے ہو اور
تُم ہی آؤ گے تھامنے ساقی

کر دیا تیرا میکدہ آباد
ایک تیرے ہی نام نے ساقی

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ایک عالم میں کھو گیا ہُوں مَیں
جانے یہ کس کا ہو گیا ہُوں مَیں

مُجھ سے پوچھو کہ نیند ہے کیا چیز
ایسا جاگا کہ سو گیا ہُوں مَیں

کیوں بہاتے ہو اشک میت پر
جتنا رونا تھا رو گیا ہُوں مَیں

زخم دل کے تو ساتھ جائیں گے
داغ دامن کے دھو گیا ہُوں مَیں

تُم نہ آئے نہ تُم نے آنا تھا
یہ چلا میں کہ لو گیا ہُوں مَیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

آپ کے بِن جِیا نہیں جاتا
لاکھ دیکھا کِیا نہیں جاتا

جس طرح آپ نے وفا کی ہے
یُوں تو دھوکا دِیا نہیں جاتا

چاک دامن کے سی لئے ہم نے
زخم دل کا سِیا نہیں جاتا

سو طرح نام آپ کا لیں ہم
کیا کہیں کیوں لیا نہیں جاتا

سن تو رکھا ہو زندگی کا زہر
یُوں اکیلے پیا نہیں جاتا

سب کیا جا چکا مگر ہم سے
آپ کے بن جیا نہیں جاتا

کُچھ حیا کیجئے گا صاحب آپ
عشق رسوا کِیا نہیں جاتا

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


کُچھ نہ سمجھا نہ کوئی پہچانا
زندہ رہنا تھا ہم کو مرجانا

ہم گرفتار ہیں محبت کے
کیا خبر کیا ہے اپنا ہرجانا

سخت مشکل ہے اور کی سننا
اک قیامت ہے اپنی سمجھانا

چھیڑیو مت کہ مست ہے لوگو
آج اُس نازنیں کا مستانا

مر ہی جائے گا تیرے آنے تک
اے مری جان تیرا دیوانا

شرم آئے گی کیا رقیبو اب
دل لگانا پھر اُس پہ پچھتانا

درد رہتا ہے سر میں اکثر آپ
آ کے صاحب کے بال سہلانا


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین




ہجر کا درد سہہ کے دیکھا ہے
ہم نے تنہا بھی رہ کے دیکھا ہے

کوئی سمجھا نہ بات اس دل کی
ساری دنیا سے کہہ کے دیکھا ہے

کیا کسی نے ہمارے جیسا بھی
آپ اپنے میں رہ کے دیکھا ہے

اس اذیت کو جانتے ہیں کیا
کہنے والوں نے کہہ کے دیکھا ہے

آپ اپنی ہی آنکھ کا بن اشک
اپنی آنکھوں سے بہہ کے دیکھا ہے

حال اپنا نہ کھل سکا اُن پر
ہر کسی طور کہہ کے دیکھا ہے

کیا رہیں ہم جہان میں صاحب
اُن کی نظروں میں رہ کے دیکھا ہے





 

عظیم

محفلین


آ گیا درد کو سوا کرنا
حکمتِ شہر تُم دُعا کرنا

کوئی دیکھے مری وفا کا رنگ
اُس جفاکار کا جفا کرنا

کسقدر شرم ہے اِن آنکھوں میں
آئینہ دیکھنا حیا کرنا

زلف میں اپنی قید کر ڈالا
وائے محبوس کا رہا کرنا

بھاگنا دُور اپنے سائے سے
وہ مرا یار سے ملا کرنا

دیکھئے التجائیں میری آپ
ایسے مجبور کا گلا کرنا

چاہنا غیر کا بھلا صاحب
ہم سے ہوتا نہیں بُرا کرنا







 

عظیم

محفلین



زندگی جھوم جانے والی ہے
پھر تری یاد آنے والی ہے

مُجھ سے رخصت جو چاہتے ہو تُم
کیا مری جان جانے والی ہے

ہر ادا آپ کی مرے محبوب
میرے دل کو جلانے والی ہے

ہر گھڑی آپ کا خفا ہونا
ہر گھڑی آٖزمانے والی ہے

میری اس بے بسی پہ اب آنسو
ایک دُنیا بہانے والی ہے

اپنی رفتار تیز کر لُوں میں
موت نذدیک آنے والی ہے

وصل کا دن بھی چاہئے دیکھا
ہجر میں جان جانے والی ہے

یہ محبت جسے نہیں سمجھے
ہم سے نفرت کرانے والی ہے

دیکھنا تُم بھی جان پاؤ گے
میری پہچان آنے والی ہے

آرزو تیری جستجو مُجھ کو
آج مجھ سے چرانے والی ہے

چھپ رہو آپ میں کہ صاحب کیا
تُم میں خوبی دِکھانے والی ہے






 

عظیم

محفلین


دشمنوں کو شرم آنی چاہئے
اب ہمیں بھی زندگانی چاہئے

جی سنا کیجے گا غم کی داستاں
اور کہنے کو کہانی چاہئے

اس نئی تہذیب میں چاہت کوئی
کوئی حسرت سی پرانی چاہئے

ہائے بوڑھوں کو لگی کیسی ہوس
اب انہیں پھر سے جوانی چاہئے

ہاتھ میں ہے دو جہاں کی چاندنی
یار کی صورت بنانی چاہئے

کیوں کسی قاصد کا رکھیں اعتبار
آپ کی اپنی زبانی چاہئے

دیجئے گا کب ہمیں غم سے نجات
آخرش تو موت آنی چاہئے

کب تلک صاحب کہیں اپنی غزل
آپ کو بھی کہہ سنانی چاہئے

خون آنکھوں میں اتر آیا ہے اب
اِن رگوں میں مُجھ کو پانی چاہئے



 
Top