رات دن کیسے گزارا یاد ہے
حال کیا تُم کو ہمارا یاد ہے
اب تری آغوش میں بیٹھا ہے جو
یہ زمانے بھر کا مارا یاد ہے
جب کبھی تُم نے نگاہیں پھیر لیں
کسطرح تُم کو پکارا یاد ہے
کیا کسی سے اپنے بارے ہم کہیں
ایک بس چہرہ تمہارا یاد ہے
کیوں نکل آئے خود اپنے آپ سے
کب ہمیں کوئی ہمارا یاد ہے
در بدر بھٹکا کِیا اس دشت میں
آپ کا یہ بے سہارا یاد ہے
کس لئے مقطع میں کہتے ہو عظیم
نام ہے صاحب تمہارا یاد ہے