کوئی دم سانس آنا چاہئے تھا
کبھی تو مسکرانا چاہئے تھا
سُنے جاتے نہ تھے ہم سے جو نغمے
ترے غم کا فسانا چاہئے تھا
یہ کیا کہ محفلوں میں رسوا کرنا
ہمیں ہم سے چرانا چاہئے تھا
عجب تھا وہ ہمارا بچپنا بھی
اُنہیں بھی اِک دِوانا چاہئے تھا
منایا جس طرح سے ہم نے لوگو
نہ اُن کو مان جانا چاہئے تھا
کِیا تب یاد اُن کو جب ہمیں خُود
کسی کو یاد آنا چاہئے تھا
بُھلا کر اب تمہارا غم میں سوچوں
بہت پہلے بُھلانا چاہئے تھا
نئی تہذیب کے ہم تھے نہ پنچھی
ہمیں اُڑنا اُڑانا چاہئے تھا
ہے کیا جلدی ہمیں مرنے کی صاحب
ابھی تک مر بھی جانا چاہئے تھا
بابا میں باز آنے والا نہیں ۔ آ ہی جائے گا اثر بھی ۔