عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین

کوئی دم سانس آنا چاہئے تھا
کبھی تو مسکرانا چاہئے تھا

سُنے جاتے نہ تھے ہم سے جو نغمے
ترے غم کا فسانا چاہئے تھا

یہ کیا کہ محفلوں میں رسوا کرنا
ہمیں ہم سے چرانا چاہئے تھا

عجب تھا وہ ہمارا بچپنا بھی
اُنہیں بھی اِک دِوانا چاہئے تھا

منایا جس طرح سے ہم نے لوگو
نہ اُن کو مان جانا چاہئے تھا

کِیا تب یاد اُن کو جب ہمیں خُود
کسی کو یاد آنا چاہئے تھا

بُھلا کر اب تمہارا غم میں سوچوں
بہت پہلے بُھلانا چاہئے تھا

نئی تہذیب کے ہم تھے نہ پنچھی
ہمیں اُڑنا اُڑانا چاہئے تھا

ہے کیا جلدی ہمیں مرنے کی صاحب
ابھی تک مر بھی جانا چاہئے تھا




بابا میں باز آنے والا نہیں ۔ آ ہی جائے گا اثر بھی ۔
 

عظیم

محفلین


حالتِ رِنداں سُدھاریں کیا کریں
شیخ جی واعظ پکاریں کیا کریں

ہم ہمارے دیوتا کو عشق کے
رات دن یُوں مت پجاریں کیا کریں

سوچتے ہیں آئینوں کو دیکھ کر
اپنی ہی صورت سنواریں کیا کریں

ہم کسی دہلیز پر جا جا کے یُوں
دیر تک ماتھا نہ ماریں کیا کریں

کب گزر پاتی ہیں گھڑیاں ہجر کی
یُوں نہ مر مر کر گزاریں کیا کریں

جل چکی دنیا ہماری دوستو
آ بھی جائیں گر بہاریں کیا کریں

سامنے رکھی ہے اپنے اپنی لاش
دیکھئے صاحب قطاریں کیا کریں




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


پُهولے نہیں سماتے
جن کو ہیں یاد آتے

لگتی ہے عمر یارو
جاتے یُوں جاں سے جاتے

ہم کون تهے جو اُن کی
یادوں میں مُسکراتے

پہلے وہ شیخ کہتے
صاحب مگر بلاتے

ہنستا ہوں لوگ اپنا
یہ صبر آزماتے

اللہ وہ عید کے دِن
میرے بلائے آتے

بچتے جو چند آنسو
خونِ جگر بہاتے ؟

کیا کیا نہ تم سے کہتے
کیا کیا نہ تم سناتے

محفل میں وہ ہمارے
اپنے لئے ہی آتے

ہم سے نِباہ کیسا
خُود سے نہیں نبهاتے

یُوں تو نہیں کہا تها
یُوں تو نہیں ستاتے

عمریں گزر گئیں تم
آئے نہ آتے آتے

صاحب وہ میری غزلیں
پڑھ کر مجهے سناتے



 

عظیم

محفلین


دِل اِختیار میں کب صاحب جَناب کا
اُس پر یہ آپ جهگڑا روزِ حِساب کا

کیا کیا نہ کر کے دیکها چارہ عظیم نے
لیکن نہیں ہے چارہ خانہ خراب کا

مستی ہے ہم پہ تیری یا اک خمار ہے
ساقی تری نظر کی پیدا شراب کا

دیکهیں ہماری خاطر آتا ہے کوئی چھوڑ
پردہ یہ توڑ آخر اپنے حجاب کا

پِیری سے ڈر گیا مَیں اپنی جو حال ہے
اِس بچپنے کا میرے عہدِ شباب کا

رکها ہے ایک ناصح بت کو بهی مَیں تراش
اِس پر یقین اپنے رب کی جناب کا

ہم نے عظیم صاحب خُوشیاں نہ رکھیں دیکھ
دھڑکا ہو دل کو کیسا آخر عذاب کا




 

عظیم

محفلین

چاہتیں جِینا سِکهاتی ہیں ہمیں
حسرتیں سی مار جاتی ہیں ہمیں

کیوں نہ جائیں دوڑ دنیا اپنی چھوڑ
آپ کی راہیں بُلاتی ہیں ہمیں

وصل کا اِک دِن تو رکهئے گا جناب
ہجر کی گهڑیاں ستاتی ہیں ہمیں

کیا کہیں یادیں جب آئیں آپ کی
کسطرح کتنا رُلاتی ہیں ہمیں

اب تو حالت حال کی ماضی ہُوئی
اب کہاں نیندیں بهی آتی ہیں ہمیں

خوب کهیلا کهیل ہم سے آپ نے
آپ کی چالیں بَتاتی ہیں ہمیں

کیا کہیں صاحب وہ آئے ہی نہیں
جن کی یادیں آ ستاتی ہیں ہمیں


 

عظیم

محفلین




آ بهی جاؤ اب زمانے ہو گئے
ہوتے ہوتے ہم دوانے ہو گئے

ندرتیں ملتی ہیں کس بازار میں
ڈهونڈئیے ہم تو پرانے ہو گئے

کیا ہوا دل چل دیا ہے چهوڑ کر
ہم کو رونے کے بہانے ہو گئے

تم نہیں آئے ہمارے دشت کے
اب تو موسم تک سہانے ہو گئے

جاگتے ہم یوں رہے اس شہر میں
لوگ سو سو کر دوانے ہو گئے

پہلی بارش تهی ہمارے پیار کی
جس میں بهیگے ہم نمانے ہو گئے

کیا کریں اس شہر کی تعمیر ہم
گهر بهی صاحب قید خانے ہو گئے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


اب ہمیں صاحب کوئی سمجهائے کیا
ہم بہل جائیں کسی بہلائے کیا

گتهیاں تقدیر کی سلجهیں ہیں کب
رات دن بیٹها کوئی سلجهائے کیا

دشت و صحرا چهان مارے عشق میں
اب قرار آئے بهی ہم کو آئے کیا

لگ چکا دل گر کسی کافر سے تو
دوسرا کافر یہاں پچهتائے کیا

ہائے مجبوری نے مارا ورنہ موت
آپ کی خاطر کوئی مر جائے کیا

ہے اگر سودا یہ جاں کا عشق تو
کیا ڈرے پهر آپ سے گهبرائے کیا

دیکهئے قاصد ہماری جان کو
جان دیتے ہیں یہ جا سمجهائے کیا

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


''ہوئے تم دوست جس کے دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو''
سُنا رکها تها غالب کا کہا اے ترجماں کیوں ہو

تری خاطر یوں رسوا بزمِ غیراں میں اے ہرجائی
ترا ہی بے سہارا یہ بے چارہ بے زباں کیوں ہو

مرے سینے میں دل بن کر دهڑکتے ہو مگر مجھ سے
تم اِتنے دُور میرے رازداں اے مہرباں کیوں ہو

کوئی تو آج ہم سے آئے آ کر پوچھ لے آخر
کہ اِتنے بے کراں اے صاحبِ کم بخت جاں کیوں ہو

عظیم اپنے لئے اِس دشت میں ہو چھت فراہم کیوں
ہمارے واسطے کوئی ٹهکانہ آستاں کیوں ہو


 

عظیم

محفلین


یہ تعلق نہ تم سے ٹوٹے گا
ایک عالم گو ہم سے روٹهے گا

چهوٹ جائے گا ساتھ دنیا کا
یوں مقدر ہمارا پهوٹے گا

 

عظیم

محفلین

ہم تمہارے تھے تمہارے ہی رہے
جی چکے تُم بِن اجی ہم جی رہے

کب تلک زندہ رہیں اِس دشت میں
اور کب تک رہ سکیں باقی رہے

کیوں رہے ہم کو خبر اغیار کی
کیوں خبر ہم کو ہماری بھی رہے

دی نہیں آواز اُس ظالم کو ہم
کرب میں بھی ہونٹ اپنے سی رہے

اپنے دل کی آگ سے واقف تھے ہم
کیا بتائیں کس لئے وحشی رہے

ہم نہ کر پائے کوئی اپنا تلاش
دشمنی بس آپ کی ساتھی رہے

سوچتے ہیں جاگنے پر پھر سے ہم
اُس خرابے میں گھڑی بھر ہی رہے

کیا کہیں کیا کیا نہ صدمے ہم سہے
کیا کہیں کیا کیا نہ دریا پی رہے

صاحب اپنے بخت کی تاریکیاں
اُس پہ حسرت مہر و مہ کی بھی رہے


 
Top