چاک اپنے گریبان کو کر کر نہیں دیکها
اپنے سا کسی اور نے مَر کر نہیں دیکها
دُنیا نے رکها دیکھ کسی اور کا غلبہ
دُنیا نے مرے دِل میں اُتر کر نہیں دیکها
گُزرے ہے یہاں دِن بهی قیامت کی طرح دیکھ
شب ہائے ہِجر تُو نے گُزر کر نہیں دیکها
واعظ تُجهے قبول ہے جنت مگر بتا
پهولوں سا اِس چمن میں بِکهر کر نہیں دیکها
مَیں اپنی ہی رفتار کو قابو میں رَکهوں کیا
اے کارواں کہ مَیں نے سُدهر کر نہیں دیکها
کرتا ہے کس وثوق سے عہدِ وفا کا قصد
عاشق نے تِرے خُود سے مُکر کر نہیں دیکها
اِس بزمِ دوستاں میں صنم ہم سا بهی کسی
تم سا بهی کسی اور نظر کر نہیں دیکها
سُدهرے گا حال کیا کہ عظیم آپ نے ہی خود
اپنے لئے جناب سدھر کر نہیں دیکها
مَیں رندِ خرابات ہُوں صاحب مگر ایسا
زاہد بهی کہیں سر کو یہ دَهر کر نہیں دیکها
آخری تدوین: