عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین




کوئی کُچھ پوچھتا کیونکر نہیں ہے ؟
تمہیں کُچھ سوجھتا کیونکر نہیں ہے ؟

یہ میرا بانکپن دیکھا نہیں کیا
کوئی مُنہ پُھوٹتا کیونکر نہیں ہے

تعلق توڑ بیٹھا ہُوں میں خُود سے
تعلق ٹوٹتا کیونکر نہیں ہے

یہ میرا گریہ میری آہ و زاری
یہ سب ہی چھوٹتا کیونکر نہیں ہے

تمہارے سامنے یہ آئینہ ہی
بلاخر ٹوٹتا کیونکر نہیں ہے

اگر صاحب بُرا ہے اتنا لوگو
تو کوئی پوچھتا کیونکر نہیں ہے

عظیم ایسا بھی کیا مانا ہے کوئی
کہ ہم سے روٹھتا کیونکر نہیں ہے




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


زندگی کی دُعا کرے کوئی
مرنے والے کا کیا کرے کوئی

ساتھ لائے ہیں اپنے مجبوری
خاک اپنا بَهلا کرے کوئی

آئے کوئی تو آئے آ کر آج
مجھ سے اپنی کہا کرے کوئی

دیکهتا ہوں کسی کی جانب مَیں
میرے دل میں رَہا کرے کوئی

اب تو یہ حال ہے تمہارے بِن
مَر گئے ہم مَرا کرے کوئی

یُوں بَهلا چاہئے ہمارا کیا
یُوں بَهلا بهی بَهلا کرے کوئی

ہم کہے جائیں گے غزل صاحب
لاکھ لکها کِیا کرے کوئی




 

عظیم

محفلین


اِس خرابے میں کیسی آبادی
ہو مبارک تمہیں یہ آزادی

لُٹ گئے عشق میں کسی کے ہم
کوئی دیکهے ہماری بربادی

کیسی دستار کیا اِمامت شَیخ
غمزداؤں کے واسطے شادی ؟

جهانکتی ہے ہمارے لفظوں میں
اِس تخیل کی اپنے شہزادی

کیا تسلی دلاسہ کاہے کا
سِیدھ ہم سی نہیں اُنہیں سادھی

اِک یقیں کی لَپیٹ میں ہُوں مَیں
آج ٹهکرا دی دُنیا جهٹلا دی

ہم نہ سمجهے عظیم جو آخر
بات دُنیا کو ہم نے سمجها دی

 

عظیم

محفلین

ترے در سے ہو کے رسوا ترا جاں نثار اٹهتا
یہ نہیں تها اپنے بس میں سو رہا غبار اٹهتا

کہاں اس میں تاب اتنی کہ اٹهائے اس جہاں سے
ترا بے قرار جاتا ترا بے قرار اٹهتا

ہو اگر تمہیں یہ چاہا تو یہ مر مٹا تمہارا
کئی ایک بار مرتا کئی ایک بار اٹهتا

انہی محفلوں میں بیٹها کئے ہم غموں کا چرچا
انہی محفلوں سے اپنا کوئی غم گسار اٹهتا

تهی خزاں نصیب میں تو کوئی دن بہار ٹکتی
مرے دل کے اس چمن سے گو دهواں ہزار اٹهتا

یہاں اپنی ہی خبر کو ہمیں جا نہ پائے لیکن
وہاں اٹھ سکا نہ اٹهتے کوئی طرف دار اٹهتا

تهے عظیم جگ میں رسوا مگر آپ سا نہ دیکها
کوئی ایک بار گر کر کئی ایک بار اٹهتا

 

عظیم

محفلین
قتل کرنے کو وہ بلاتے ہیں
ٹهہرو قاصد ! مَرے ہی جاتے ہیں

کیا مقدر پہ داد دیں اپنے
مہرباں ہم کو آزماتے ہیں

اتنا بهی کیا کہ شوق میں تیرے
ساری دنیا کو بهول جاتے ہیں

روز کرتے ہیں آ گلہ تم سے
روز خود سے ہی روٹھ جاتے ہیں

ہم کہاں اور تیری آگاہی
ہم تو اپنا کہا سناتے ہیں

درد مندوں سے پُوچھ اے واعظ
طور کیسے سِکهائے جاتے ہیں

دیکھ چاروں طرف کی تاریکی
پاؤں پِیروں کے ڈگمگاتے ہیں

جو نہیں آپ اپنے ہی طالب
ایک مطلب سے جی لگاتے ہیں

دِید کو اُن کی ہم نہیں مرتے
غم تو یہ ہے کہ دیکھ پاتے ہیں

وہ جنہیں یاد ہم نہیں آتے
کتنا وہ ہم کو یاد آتے ہیں

جانے کیا روگ لگ گیا صاحب
غیر کی محفلوں میں جاتے ہیں


 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
عظیم غزل اور نظم کی جو بحریں تکیل سے موافق ہوں ان پر بھی توجہ دیا کرو بھائی۔ایسی بحریں منظومات میں مناسب لگتی ہیں تغزل کے لیے بحر کے انتخاب پر بھی سوچا کرو۔
 

عظیم

محفلین

کہاں ممکن ہے سینے سے یہ تیرِ پُر الم نکلے
نکلتے اِس کے ہی آخر نہ کیونکر اپنا دَم نکلے

یہی اُمید تھی دُنیا ملے گی بدلے جنت کے
اِسی اُمید کو لے کر ترے کُوچے سے ہم نکلے

نہ جانے کس طرف لے جائیں گے یہ راستے ہم کو
خُدا جانے ہمارے کس کی جانب اب قدم نکلے

جنہیں اپنا الہ تسلیم کر بیٹھے وہی آخر
زمانے کے تراشے آپ سے ہی اِک صنم نکلے

اجی سنتے ہو کیا یہ دَم تمہارا دیکھ نکلے ہم
ہمارا بھی تمہارے دَم نکلنے پر ہی دَم نکلے

ہزاروں خواہشوں نے پال رکھے تھے جو سینوں میں
ہمارے ایک دَم سے آج سارے وہ بھرم نکلے

کسے معبود اپنا ہم کہیں سجدہ کریں کس کو
ہمارے وہ ستمگر ہی ہمارے جب صنم نکلے

ہوئی ہے صبحِ غم کی شام خوشیاں جگمگاتی ہیں
یُوں ہو کے ہم سے تیرے آج سارے ہی الم نکلے

عظیم اپنی کہانی کا ہو آخر کیا کوئی انجام
خُود اپنی اِس کہانی کا کوئی کردار ہم نکلے




 
آخری تدوین:
Top