عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین

تیرے حسن و جمال سے آگے
خواب کیسا خیال سے آگے

ہے کسی اور چاہ کا ہونا
آپ کے اِس وصال سے آگے

سوچتے ہیں وہ خُوب گو لیکن
کیا ہمارے کمال سے آگے

پاؤں رکهتے ہیں ہم رقیبو اب
گردِشِ ماہ و سال سے آگے

کوئی چل کر ہمیں دِکهائے تو
اِس ہماری بهی چال سے آگے

 

الف عین

لائبریرین
خلیل میاں کی ترکیب لگا کر گا کر فٹ کر لو، یہ دونوں بحریں الگ الگ ہو جائیں گی۔
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
اور
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور
دونوں الگ الگ بحور ہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
خلیل میاں کی ترکیب لگا کر گا کر فٹ کر لو، یہ دونوں بحریں الگ الگ ہو جائیں گی۔
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
اور
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور
دونوں الگ الگ بحور ہیں۔
آداب عرض ہے استادِ محترم
 

عظیم

محفلین


دل درد کا مارا تها جاتا تو کدهر جاتا
ہم ہجر کے ماروں کو چین آتا تو کیوں آتا

دو دن کی حیاتی ہے اِس اپنے مخاطب سے
اِک لمحے کو ہی لیکن آ جاتا کہ مل جاتا

یہ عشق کا مارا تها بدنام زمانے کا
در بار سے کیوں تیرے اغیار سے اُٹھ پاتا

خوش بخت نصیبوں پر روئیں بهی تو کیوں آخر
سب کو ہی نوازے ہے محبوب مِرا داتا

اب سوچتا ہُوں کیونکر میں مان کئے پهرتا
اب سوچتا ہُوں کیونکر کاہے کو مَیں اِتراتا

تم آئے نہیں لیکن اِس حال میں اک کلمہ
اے جانِ تمنا اِک پیغام ہی آ جاتا

اِس درد کے مارے کو مل جاتا سکوں آخر
آتا وہ کوئی صاحب اَیام کو ٹهکراتا

اللہ وہ ہماری سُن اِک بار چلا آتا
اللہ وہ ہم سے آ اِک بار تو مِل جاتا

یُوں آج نہ جاں جاتی یُوں آج نہ مرتے ہم
دِل جاتا نہ جاں جاتی جاں جاتی نہ دِل جاتا


 
آخری تدوین:
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔۔۔ یا۔فعولن۔یا ۔فاعلات
مفعول مفاعیل مفاعیل فاعلن ۔۔۔یا۔فعولن۔یا ۔فاعلات
عظیم۔یہ دو بحریں عموماً خلط ہو جاتی ہیں ۔ان میں ذرا زیادہ احتیاط کر لیا کرو۔ہمارے خلیل بھائی نے بر محل نظر ڈالی ہے اور صائب مشورے دیے ہیں ۔ ۔۔
آداب عرض ہے سید عاطف علی بھائی
 

عظیم

محفلین
دل لگا کر میر بهی پچهتائے تهے
ہم تو پھر صاحب کوئی کملائے تهے

کب سلجھ پائے کسی سلجهائے ہم
یُوں تمہاری زُلف کے الجهائے تهے

ضبط تب تک ہم کِیا تم ہو گواہ
آنکھ میں دریا اُتر جب آئے تهے

یاد کرنے پر بهی یاد آتا نہیں
کب کہاں کس واسطے مسکائے تهے

دِن حقیقت وہ بهی کر کے دیکهے ہم
جو ہمارے آپ کے جهٹلائے تهے

کیا کہیں ہم نے تو دشمن کی بهی سمت
اپنے بازو کهول کر پهیلائے تهے

کیوں نہ کرتے آخرش صاحب یقیں
دنیا بهر سے لاکھ دهوکے کهائے تهے

چل پڑیں گے چهوڑ دنیا ہم عظیم
بس یہاں کچھ دیر کو ہی آئے تهے

اب وہی تعمیر کرتا ہُوں جو بُت
اِبنِ آزر نے کسی دن ڈهائے تهے




 

عظیم

محفلین


کیوں کوئی ہنستا ہمارے حال پر
ہم ہنسے ایسا خُود اپنی چال پر

اب کوئی نغمہ کہیں باقی نہیں
اب کہاں سُر ہو کسی کی تال پر

اک پرندہ خُود سے آ بیٹها کوئی
خوبصورت آپ کے اِس جال پر

یُوں گیا روندا کسی کی راہ میں
ایک مُو تک بچ رہا نہ کهال پر

کب تلک نوحہ ہی اپنا ہم کہیں
اِک نظر ڈالو ہمارے حال پر

بهیج دو چٹهی کوئی سندیس اب
لمحہ سبقت لے چلا ہے سال پر

صاحب ایسے طنز مارو گے تو ہم
اک لگائیں گے تمہارے گال پر




 
ہماری درخواست ہے کہ اگر آپ اپنی شاعری کو مشق سمجھتے ہیں تو اسے اصلاحِ سخن میں پوسٹ کیجیے۔

اور میری یہ درخواست ہے کہ " میری شاعری " جسے میں مشق سمجهتا ہوں اگر ممکن ہو سکے تو محفل سے ڈلیٹ کر دیا جائے کیونکہ میرا اس سے اب کوئی لینا دینا نہیں -
 

عظیم

محفلین
ہماری درخواست ہے کہ اگر آپ اپنی شاعری کو مشق سمجھتے ہیں تو اسے اصلاحِ سخن میں پوسٹ کیجیے۔


''باز آؤ گے کب خلیل میاں
عمر اتنی نہیں طویل میاں ''

باز تِتر اُڑے تو دیکهیں ہوں
اُڑتی دیکهی نہ آپ چیل میاں

یہ ریاضت بهلے ہو کم معلوم
علم اپنا نہیں قلیل میاں

کیا نہ جانے بَگاڑے جاتے ہو
ہے کسی بات کی دلیل میاں ؟

سب سے آگے ہے دیکهنا خود کو
ہو وہ غالب یا پهر قتیل میاں

یُوں اُکهڑتے نہیں اُکهاڑے سے
ٹهوکتے ہم ہیں اَب وہ کیل میاں

اس بچے سے اگر ہو بچنے کی
سوچ رکهنا کوئی سبیل میاں



 

عظیم

محفلین
زہر یہ تنہا پِیا جاتا نہیں
آپ کے بِن اَب جِیا جاتا نہیں

کر چُکے ماتم غموں پر ہم تمام
کیا کریں اب کچھ کِیا جاتا نہیں

ہو تعجب دَہر والو ہم پہ کیوں
زخم کیا دِل کا سِیا جاتا نہیں

لاغری کا اپنی تُجھ بتلائیں کیا
سانس بهی اپنا لِیا جاتا نہیں

مَیں نے دیکها ہے زمانے میں کہ یُوں
آج کل پردہ کِیا جاتا نہیں

دے پِهرے کتنے جواب اغیار کو
اِک ہمیں کو ہی دِیا جاتا نہیں

کہہ نہیں سکتے جو صاحب کیا ہُوا
ہاں مگر تم بن جِیا جاتا نہیں

 

عظیم

محفلین


بات سچ ہے مگر زمانے کی
کوئی سنتا نہیں دِوانے کی

میری نظروں میں اَب حقیقت کیا
اپنے خانے کی قید خانے کی

اِن ہَواؤں سے دوستی کرنا
اورعادت دِیے جلانے کی

مجھ سے میری زبان میں بولو
بات کوئی ہو گر بَتانے کی

حُسن کی خوبیوں میں اِک خوبی
ہم نے دیکهی ہے آزمانے کی

بے سبب چیخنا نہیں میرا
مجھ پہ تلخی ہے اِس زمانے کی

عشق کیا چیز ہے مِرے یارو !
ہے یہ سوغات کس گهرانے کی

صاحب اس کرب سے ہو چھٹکارا
وہ گھڑی چاہ کر نہ آنے کی

بات سچ تھی مگر دِوانے کی
کوئی سنتا پھرے زمانے کی

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ہماری شکل ہم سے لا پَتا ہے
یُوں ایسے کوئی ہم کو تاکتا ہے

مَیں آگے ہوں کسی کے کارواں سے
مِرے پیچهے بهی کوئی بهاگتا ہے

کہیں پیرِ مُغاں کو نیند آئی
کہیں اِک طفلِ مکتب جاگتا ہے

یہ انساں ہیں اِنہیں کیوں بَهیڑ جیسا
اے واعظ تو قسم سے ہانکتا ہے

کہاں تجھ کو خبر ہے آج اپنی
کہاں ہم کو ہمارا بهی پَتا ہے

نہ جانے کیوں زمانہ گُهور ہم کو
یہ آخر اِس طرح سے دیکهتا ہے

عظیم اپنی زباں پر ناز کیسا
ہے مُنہ میں غیر کے بهی کچھ پتا ہے


 

عظیم

محفلین


تُم نہ آئے قرار آئے گا
ہجر مارا بهی چین پائے گا

مَیں تو یہ سوچ سوچ ہنستا ہُوں
اب یہ کم بخت مُسکرائے گا

یاد ہے پُوچهنا تمہارا حال
حال کہہ دیں تو حال آئے گا

تیرے آنے سے سنگدل میرے
اس غزل کا خمار جائے گا

کب تلک راز داری کی جائے
کیا زمانہ سمجھ نہ پائے گا

عشق چهپتا ہے کب چُهپانے سے
اور کب تک کوئی چُهپائے گا

جس طرح ہم بلا رہے ہیں نا
کوئی دُوجا نہیں بلائے گا




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

مُنہ تهکے ہے جناب جی کرتے
بات کرتے تو آپ کی کرتے

تیغ شہ رگ کے پار حسنِ یار
مان کافر جو دیکھ سی کرتے

خاکساری ہے انکساری کیا
اپنی عزت خراب ہی کرتے

جانتے کیا ہیں اُن رقیبوں کو
ہم جو خود میں شمار بهی کرتے

جتنی عزت گئی ہمیں بخشی
اُتنی حسرت ہے اور کی کرتے


 
آخری تدوین:
Top