جنید عطاری
محفلین
بہت سارے مصرعے بے وزن ہے اور ابہام سے پُر ہیں۔ میں سمجھا نہیں کہ چند میں کہا کیا جا رہا ہے، خیر غالب کو نقل کرنے سے گریز کریں، زمین غالب کی ہے سو معیار بھی غالب کا سا ہی جچے گا،
معذرت۔۔
معذرت۔۔
جب میں نے داد دی تب تو یہاں کوئی شاعری نہیں تھی
بہت سارے مصرعے بے وزن ہے اور ابہام سے پُر ہیں۔ میں سمجھا نہیں کہ چند میں کہا کیا جا رہا ہے، خیر غالب کو نقل کرنے سے گریز کریں، زمین غالب کی ہے سو معیار بھی غالب کا سا ہی جچے گا،
معذرت۔۔
ان میں پہلی غزل کس شاعر کی تخلیق ہے؟ مطلع میں تو میر کا لفظ ہے، مگر حضرتِ میرؔ تقی میر کا معیار ایسا نہیں ہے
اپنی نظروں سے گر گیا ہوں میں
شیخ صاحب سدهر گیا ہوں میں
بین کرتا تها وضع داری کا
آج خود سے مکر گیا ہوں میں
سوچتا تها کوئی مبلغ ہوں
بن کے فتنہ بکهر گیا ہوں میں
کوستا کیوں پهرا میں غیروں کو
اب تو اپنے سے ڈر گیا ہوں میں
تها کسی دشت سا مرا بچپن
اور جوانی میں مر گیا ہوں میں
کون صاحب کہاں کی عظمت آج
اپنی نظروں سے گر گیا ہوں میں
تهی مجهے کیا تلاش آخر کار
اس کے ہی ایک در گیا ہوں میں
جون ایلیاء کی نقل ہے۔ کچھ اپنا لکھیں تو بات ہے، وگرنہ دس بارہ غزلیں پڑھ کر تو کوئی بھی ایک ادھ غزل لکھ کر دکھا سکتا ہے۔ گِر کا قافیہ کا دیکھیں تو حرفِ ردی سے پہلے گ کے نیچے زیر ہے بقیہ سب میں ر کے پہلے حرف پر زبر ہے۔ ہر شعر کا پہلا مصرعہ دوسرے مصرعے سے جڑ نہیں رہا۔ پھر کہوں گا اپنا لہجہ بنائیں جس میں روٹھتے یا باتیں کرتے ہیں۔
اب اپنا ہی لکها دیکها کرو گے بهائی -
یہ ہوئی ناں بات۔ مدد درکار ہو تو خادم حاضر ہے۔ میں اس دور سے گزر چکا ہوں اس لیے کیا مشکلات درپیش آتی ہیں میں بخوبی جانتا ہوں۔
بدتمیز کڑوا سہی مگر مخلص ہوتا ہے۔ میں بھی ایسا ہی ہوں مگر انداز مختلف ہے، برملا اظہار نہیں کرتا، پیار پیار میں بڑے بڑے جواں نر مار دیتا ہوں۔
وہ حضرتِ میر نے کہا تھا کہ
بیتابیوں کے جور سے میں اب کے مر گیا
ہو کر فقیر صبر مری گور پر گیا
دیکھتا ہوں کہ عصرِ حاضر کی نسل میں خُون سفید ہو گیا ہے،
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی