عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

جنید عطاری

محفلین
ویسے اپنا ایک شعر کہوں گا، شاید سمجھ جاؤ گے میرا مدعا کیا ہے

سُن! شریر آدمی کے عالم میں
ہر خرابی تری زباں کی ہے
جنیدؔ عطاری
 

عظیم

محفلین
میری آج کی تازہ غزل



اے جہاں ٹهوکریں نہ مار مجهے
تها نہیں خُود پہ اِختیار مجهے

قتل کرنے کا ہے اِرادہ کیا
یاد آتے ہو آج یار مجھے

آپ سے اُنس آپ سے الفت
آپ سے چاہ اور پیار مجهے

عشق اُمید وصل رنج وغم
ایک یہ ہی ہے کاروبار مجهے

دیکهنے پر ہو آپ کی رائے
اپنا دَامن ہے تار تار مجهے

پہلے کم بخت ذِلتیں کم تهیں
اُس پہ اِس عشق کا بُخار مجهے

ہے خبر جس طرح صَدائیں دیں
آ کے بیٹها یہاں پُکار مجهے

کوئی دیکهے یہ میرا مر جانا
کوئی دیکهے تو آج مار مجهے

سُن اے صاحب کی جان اَب بهی ہے
اَب بهی تیرا ہے انتظار مجهے



محمد عظیم صاحب






 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


بے زبانی پہ سخت جانی ہے
داستاں عشق کی سنانی ہے

کیوں کریں ناز مت نصیبوں پر
آنکھ میں اب کسی کی پانی ہے ؟

بات پیروں کو مت سمجھ آئے
اللہ اللہ مری جوانی ہے

زندگی جانتا تها میں جس کو
وہ کسی خواب کی کہانی ہے

خود سے کچھ دور جا کے بیٹها ہوں
خاک میری بہت پرانی ہے

شاعری کم سخن نہیں کرتے
شاعری تک کی بند سکهانی ہے

میرا لہجہ اگرچہ ہے کڑوا
اس زمانے کی مہربانی ہے

کیوں نہیں منزلیں مبارک ہوں
میں نے دنیا کی خاک چهانی ہے

آزما خود کو میں چکا صاحب
اب وفا ان کی آزمانی ہے



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


خواہشیں کتنا رلاتی ہیں مجهے
حسرتیں کتنا ستاتی ہیں مجهے

اب کہاں ہے جاگنا تقدیر میں
اب کہاں نیندیں بهی آتی ہیں مجهے

وحشتوں سے دشت کی تها بهاگتا
شہر کی گلیاں ڈراتی ہیں مجهے

میں چلا جاتا ہوں اپنے سے پرے
اپنی ہی راہیں بلاتی ہیں مجهے

یہ تمہاری آرزوئیں ہی تو اب
دو گهڑی جینا سکهاتی ہیں مجهے

ورنہ کیا کرتا نہیں غم کا علاج
دیکھ باتیں کتنی آتی ہیں مجهے

تم نہیں آئے مگر اپنی سی کچھ
دی صدائیں چیر جاتی ہیں مجهے

کیا کہوں صاحب کہاں کی عقل ہے
اپنی ہی باتیں سناتی ہیں مجهے

آپ کی چپ جانئے کیا کیا نہیں
آپ کی باتیں سکهاتی ہیں مجهے



 

عظیم

محفلین


تم جو آتے تو بات بن جاتی
مسکراتے تو بات بن جاتی

بن سکی کب مرے بنائے سے
تم بناتے تو بات بن جاتی

اپنی ان مست سی نگاہوں سے
آ پلاتے تو بات بن جاتی

ساتھ میرے کوئی مرا ہی شعر
گنگناتے تو بات بن جاتی

ہجر کو وصل بهی ضروری تها
چهوڑ جاتے تو بات بن جاتی

یوں کسی دن ہمارا رونا تم
دیکھ پاتے تو بات بن جاتی

کیا ہے تہذیب اور ادب کیا ہے
چوٹ کهاتے تو بات بن جاتی

سامنے بیٹھ میری آنکهوں کے
آزماتے تو بات بن جاتی

ہم کبهی اپنے دل کی باتوں سے
کچھ بتاتے تو بات بن جاتی

اب بهی ضد پر اڑا ہوں اپنی میں
تم جو آتے تو بات بن جاتی

صاحبو صاحبو ہمیں کہہ کر
پهر بلاتے تو بات بن جاتی




 

عظیم

محفلین


گئے یارو ہم اپنی جاں سے جاتے
رہے اغیار ہم پر مسکراتے

ہمارے بخت میں تاریکیاں تهیں
دِیے ہم چاہتوں کے کیوں جلاتے

یہ ضد تهی عشق میں بدنام ہونا
وگرنہ شہرتیں ہم بهی کماتے

ہوئے برباد جس کی بندگی میں
ہم اُس کی کافری میں جاں گنواتے

یہاں اُگتے ہیں شعلے دَہر والو !
ہمارے کهیت کیونکر لہلہاتے

مُیسر ہی نہیں دنیا میں ہم کو
سُکوں ورنہ کہیں سے ڈُهونڈ لاتے

بہت مجبور تهے ہم دِل کے ہاتهوں
نہیں تو کب کا واپس لوٹ جاتے

جنابِ قیس بهی ہوتے اگر تو
ہماری وحشتوں سے خوف کهاتے

عظیم اِس غم کی اپنے داستاں ہم
رہی حسرت زمانے کو سناتے




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

حُضور اِتنا بهی کیا مُجھ کو سَتانا
بَنائے گا بہت باتیں زمانہ

مَگر ہے بجلیوں کی تاب اِس کو
اگرچہ جل چُکا ہے آشیانہ

یہ کہنا میرے قاصد جا کے اُن سے
نہ مَر جائے کہیں تیرا دِوانہ

نہیں یہ زَیب دیتا عاشِقوں کو
یہ بیماروں کو اپنے آزمانا

اُٹهائے بهار اپنی جاں کا بیٹهے
بَهلا کب تک یہ تیرا ناتوانا

اگر مُجھ سے شکایت ہے تو میرے
گلے شکوں کو تھوڑا ضبط لانا

دِیا پیغامِ دل صاحب یُوں اُن کو
سمجهتا پهر رہے گا یہ زمانہ





 

عظیم

محفلین


عشق ہے خوف ہے جنوں سا ہے
میرے اطراف میں فسوں سا ہے

دیکھ واعظ یہ میری آنکهوں میں
آج اُترا جو ایک خوں سا ہے

حال اس ہجر کے ستائے کا
وصل میں بهی تو جُوں کے تُوں سا ہے

میرے آگے جہان اب سارا
نونِ غنہ کی نونِ غوں سا ہے

چَین آتا نہیں مگر مجھ کو
ایک آرام اِک سکوں سا ہے

میرا ہونا بهی ایک اُس کی ہی
کوئی تکرار مَیں بهی ہُوں سا ہے

صاحب اپنا مزاج بهی شاید
میں ہی آخر کہوں کہوں سا ہے



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



غم کی پرچهائیوں میں رہتا ہوں
اپنی تنہائیوں میں رہتا ہوں

چاہتیں میری کائنات ہیں اور
سخت ہرجائیوں میں رہتا ہوں

ساری دُنیا کا ہُوں مَیں ٹُهکرایا
ایسی رسوائیوں میں رہتا ہوں

ہے مجهے خطر جان کا لاحق
اپنے ہی بهائیوں میں رہتا ہوں

بد سے اتنا برا نہیں ہوں میں
گو کہ عیسائیوں میں رہتا ہوں

اوڑھ بیٹها ہوا ہوں میں خود کو
اپنی پہنائیوں میں رہتا ہوں

طلب اُن سے کِیا پتا اُن کا
"دل کی گہرائیوں میں رہتا ہوں "

کیسا نادان ہوں کہ مَیں کتنی
اور دانائیوں میں رہتا ہوں

کیا کہوں میں عظیم مجنوں ہوں
چند صحرائیوں میں رہتا ہوں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


عشق کی راہ پر نہیں آتے
لوگ ہم سے مگر نہیں آتے

ڈهونڈتے پهر رہے زمانے میں
آپ اپنے ہی گهر نہیں آتے

کیا کہیں کیا جگر کو دهڑکا ہے
خواب تک بے خطر نہیں آتے

دیکهتے بهی انہی کی جانب ہیں
جو کسی کو نظر نہیں آتے

دنیا والو نصیب والے ہو
سب کو ایسے سفر نہیں آتے

وہ اُدهر ہیں جِدهر نہیں پہنچے
ہم جِدهر ہیں اُدهر نہیں آتے

جانئے کیا کسی کی آہوں کو
آپ آداب گر نہیں آتے




 
Top