عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین


ضبط کو آزمانے آیا ہُوں
غم زمانے کے ساتھ لایا ہُوں

کوئی اپنا نہیں یہاں میرا
ساری دنیا سے مَیں پرایا ہُوں

یاد آتا پِهروں کسی کو کیوں
مَیں تو خود آپ کا بهلایا ہُوں

میری آہوں میں کیوں نہیں تاثیر
درد عالَم کے چِهین لایا ہُوں

کیا کسی بُت کو پوجتا ہُوں مَیں
کیا کسی عشق کا ستایا ہُوں

جان باقی نہیں رہی لیکن
زندگی کو تلاش آیا ہُوں

اپنی پہچان ڈُهونڈنے کو مَیں
اپنے اندر کہیں سمایا ہُوں

مَیں وہی ہُوں جو تیرے اِس در کا
تیری چوکهٹ کا آزمایا ہُوں

کیا کہوں اُس سے اے ستمگر مَیں
پہلے ہی دِل سے چوٹ کهایا ہُوں





 

عظیم

محفلین

چاہتوں میں فقط خسارا ہے
میں نے کو چهان مارا ہے

راہ تکتا ہے اک قیامت کی
دل مرا منتظر تمہارا ہے

تو نے دیکها سنا نہیں لیکن
رات دن تجھ کو ہی پکارا ہے

ڈوبنا چاہتا ہوں میں خود میں
میری تہہ میں مرا کنارا ہے

ہے مجهے غم عزیز تر میرا
اپنا ہر درد مجھ کو پیارا ہے

کوئی کیا جانتا پهرے کیسے
میں نے اس عمر کو گزارا ہے

اک ترا ذکر ہی تو ہے آخر
بے سہاروں کا جو سہارا ہے

کیا کسی سے گلہ کروں صاحب
مست خود میں جہان سارا ہے

بزم غیراں میں کیوں چلا آتا
وہ ستم کوش بس ہمارا ہے


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

تِری اِک اِک اَدا پر جان جائے
یقیں جائے مِرا اِیمان جائے

اَگر ممکن ہو تیرا یہ دِوانہ
تِرے صدقے تِرے قُربان جائے

یہ ڈر ہے اِس ہماری بیخودی کو
نہ کوئی عقلمند پہچان جائے

چَلا جائے اگر دِل سے تِرا غم
مِرے سَر سے کوئی احسان جائے

مِرا دل ہے وہ ضدی جو مِری بهی
قسم لے لو اَگر اِک مان جائے

وہاں اک چهیڑ ہے اُن کی یہاں اِک
کوئی کم بخت ہارا جان جائے

عظیم اُس نازنیں سے اتنا کہنا
اگر ممکن ہو پردہ تان جائے



 

عظیم

محفلین

شام ہے جام ہے چلے آؤ
آپ سے کام ہے چلے آؤ

دوریاں بهی ہیں لازما لیکن
ضبط ناکام ہے چلے آؤ

عشق میں، دشت میں ، جنوں میں ہے
اب مِرا نام ہے چلے آؤ

دید کا عید کا حیائی کا
مُجھ پہ الزام ہے چلے آؤ

مُشکلیں آ پڑیں زمانے کی
نام بدنام ہے چلے آؤ

خواہشیں وصل کی ستاتی ہیں
ہجر کی شام ہے چلے آؤ

بات بے بات رُوٹھ جاتے ہو
بد ہی بدنام ہے چلے آؤ

دیکھ لو آ کے میرے زخموں کو
اب تو قہرام ہے چلے آؤ

خستہ حالت ہے غالبیت کی
غلبیت خام ہے چلے آؤ



 

عظیم

محفلین

اپنی پلکوں کو یُوں بهگوتی ہیں
میری تنہائیاں بهی روتی ہیں

ہر تمنا بهلا چکا ہوں میں
خواہشیں اسطرح کی ہوتی ہیں


 

عظیم

محفلین

عشق پر سب لٹا کے بیٹها ہوں
اپنی ہستی بُهلا کے بیٹها ہوں

آزمائے گا اے زمانے کیا
مَیں تجهے آزما کے بیٹها ہوں

میری آواز دَب گئی مجھ میں
اِک حقیقت چُهپا کے بیٹها ہوں

غم ہے اب صرف میرے کهانے کو
ساری خُوشیاں مَنا کے بیٹها ہوں

اپنی صورت سے خوف آتا ہے
شکل اپنی مِٹا کے بیٹها ہوں

ایک دنیا بسی رہی مجھ میں
ایک دنیا جَلا کے بیٹها ہوں

مَیں مِری خلوتوں سے اٹھ جا کر
تیری محفل میں آ کے بیٹها ہوں

اے مرے درد کوئی درماں ہے
زہر تک پی پِلا کے بیٹها ہوں

میری میت ہے میرے آگے اور
قبر اپنی سجا کے بیٹها ہوں

ظلم خود پر بہت سے ڈهائے آج
اپنے پہ رحم کها کے بیٹها ہوں

ہو گیا کیا عظیم رب جانے
اِک قیامت اُٹها کے بیٹها ہوں




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

دل پہ کب اختیار ہے صاحب
عشق ایسا بخار ہے صاحب

تم جسے جانتے ہو دنیا وہ
میری خاطر غبار ہے صاحب

نقد اِس جان کا چُکانا ہے
جانِ جاں کا اُدهار ہے صاحب

ہر طرف نفرتیں سی پهیلی ہیں
چار سُو اِنتشار ہے صاحب

وہ کوئی بهی ہو میری نظروں میں
میرا اِک دوست یار ہے صاحب

ہو بهی شاید اگر یہ وحشت ہو
دل بڑا بے قرار ہے صاحب

یوں تو ہے دشمنی زمانے سے
آپ سے ہم کو پیار ہے صاحب

زندگی طول کیوں پَکڑتی ہے
کیا کوئی اِنتظار ہے صاحب

لوگ جس راہ پر چلے اُس پر
صرف گرد و غبار ہے صاحب

در پہ اُن کے مَیں بول دستک دی
کوئی خدمت گزار ہے صاحب

آئی آواز گهر ہمارا بهی
ایک اجڑا دیار ہے صاحب






 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

کسی دن مسکرانا چاہتا ہوں
مَیں تیرا غم بُهلانا چاہتا ہوں

نہ لگ جائے کہیں فتوی ہُوں کافر
تجهے تجھ سے چرانا چاہتا ہوں

مَیں اس دل کی ہزاروں خواہشوں کو
تری خاطر مِٹانا چاہتا ہوں

تڑپتا ہوں جدائی میں مسلسل
میں تیرے پاس آنا چاہتا ہوں

خود اپنے گهر میں ہو کر اپنے گهر کو
ہی آخر لوٹ جانا چاہتا ہوں

یہ میری تلخیاں بے باکیاں مَیں
زمانے کو دکھانا چاہتا ہوں

بلائے قتل کو ہی کیوں نہ کوئی
مَیں اپنا سر کٹانا چاہتا ہوں

یہ وحشت مار ڈالے گی خدایا
مَیں خود سے خوف کهانا چاہتا ہوں

تباہی آ چکی آنی تهی جتنی
اب اِک بستی بسانا چاہتا ہوں

جنوں کو آزمایا جا چکا ہے
سکوں کو آزمانا چاہتا ہوں

میں خود کو بهول جاؤں اِس ضمن میں
کہ تجھ کو یاد آنا چاہتا ہوں

عظیم اِس دشت سے اِس دہر سے میں
نہ جانے کیا کمانا چاہتا ہوں

ترے ہی در کا ٹهکرایا ہُوں صاحب
ترا ہی آستانا چاہتا ہوں




 
آخری تدوین:
Top