عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین


مسکراتا ہوں مسکرائے گا
یہ دوانہ بھی گنگنائے گا

مشکلیں یُوں کھڑی کرے گا شیخ
میری آسانیاں بڑھائے گا

ہے کوئی بات میرے آگے اب
ہے کوئی راز تُو چھپائے گا

میں تو یہ چاہ کر چلا ہوں یار
میرے پیچھے جہان آئے گا

سامنے غیر کے کروں ماتم
عشق ایسا بھی وقت لائے گا

کب کے طالب ہوں اُس طریقے کا
جو زمانہ مجھے سکھائے گا

رحم کیا اب جناب کو میرے
حال پر بھی حضور آئے گا



 

عظیم

محفلین


بستیوں میں گھر بسانا چاہئے
دشت کو اب چھوڑ جانا چاہئے

آپ کو منظور ہو رونا مرا
اس خبر پر مسکرانا چاہئے

یہ تو بتلائیں جناب اک عقلمند
یا کوئی مجھ سا دوانا چاہئے

اب ہمیں بھی آپ کی خاطر یہ غم
ہو سکے تو بھول جانا چاہئے

ہم نہیں کہتے مگر اس حال پر
اُن کو تھوڑا ترس کھانا چاہئے

کیا خبر ہم کو ہے صبح و شام کی
بس ہمیں پینا پلانا چاہئے

وہ اگر آئیں تو اُن سے کیا کہیں
اب ہمیں کو دور جانا چاہئے


 

عظیم

محفلین

اے مرے دل کچھ انتظار تو کر
صبر تھوڑا سا اختیار تو کر

آنے والا ہے وقت خوشیوں کا
میری باتوں کا اعتبار تو کر

 

عظیم

محفلین



اک عجب امتحان میں ہوں میں
آپ اپنے گمان میں ہوں میں

ہے زمیں میری نظروں میں ویران
اس لئے آسمان میں ہوں میں

کچھ نہیں عشق میں گنوانے کو
اور تیری امان میں ہوں میں

کیا یہیں جاننا ضروری تھا
اس نئے لامکان میں ہوں میں

آدمی کو تلاش کرتا ہوں
اور اس خاکدان میں ہوں میں


 

عظیم

محفلین


اُن سے کیا گلا کیجے
آپ ہی وفا کیجے

ہو سکا نہ دنیا سے
کیوں نہیں بھلا کیجے

جی ضرور اچھا ہوں
ہاں مگر دعا کیجے

یوں نہیں رقیبوں سے
جائیے ملا کیجے

درد کی ہمارے بھی
ہو کوئی دوا کیجے

ہم کہاں کے دانا ہیں
مدعا کہا کیجے

اب تو آپ کے غم سے
غمزدہ رہا کیجے

اور کب تلک کہئے
غیر کی سنا کیجے

اب کہاں ٹھکانا ہے
جو مرا پتا کیجے

یوں نہیں ہمارے سے
آپ کو جدا کیجے

دل جلائے بیٹھے ہیں
کیونکہ جل بجھا کیجے

کچھ عظیم صاحب آپ
صبر بھی کِیا کیجے

شاعری جو چھوڑیں ہم
سوچتے ہیں کیا کیجے






 

عظیم

محفلین

چین آرام کھو چکا ہوں میں
اپنی قسمت پہ رو چکا ہوں میں

زخم دل کے نہیں دکھاوے کو
داغ دامن کے دھو چکا ہوں میں

کیوں کسی کی تلاش جاری ہو
جب کہ اپنے کو کھو چکا ہوں میں

خود سے رشتہ نہ جانے کیسا ہے
جانے کس کا یہ ہو چکا ہوں میں

کھل نہ پائے ہیں پھول خوشیوں کے
بیج چاہت کے بو چکا ہوں میں

یہ مری ذات کیوں ادھوری ہے
دیکھ پورا تو ہو چکا ہوں میں

کیا کہوں مسکراتے لوگوں سے
کس قیامت کا رو چکا ہوں میں



 

عظیم

محفلین


زمانے مسکرانا چاہتے ہیں
ہم اپنا دُکھ سنانا چاہتے ہیں

عجب مجنون ہیں اس دشت کو ہم
اب آخر چھوڑ جانا چاہتے ہیں

جھکانا سر بہانا جانئے مت
جبیں پر چوٹ کھانا چاہتے ہیں

ہمیں معلوم کب ہے وہ حقیقت
جسے جگ سے چھپانا چاہتے ہیں

خدا جانے یہ حسرت کون سی ہے
کہ ہر خواہش بھلانا چاہتے ہیں

دکھائی دے رہا ہے جو ہمیں کو
وہی منظر بنانا چاہتے ہیں

ابھی سے ہم تمہارے عشق میں کیوں
یہ اپنی جاں گنوانا چاہتے ہیں

عظیم اِس شوق میں جتنا ہو ممکن
ہم اپنا سر کھپانا چاہتے ہیں

اُنہیں کو یاد کرنے کے لئے ہم
زمانہ بھول جانا چاہتے ہیں




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


محبت میں تمہاری جاں گنوا دیں
کہو یہ بھی کرشمہ کر دِکھا دیں

جلا دیں غیر کو اس بزم میں ہم
اجازت ہو تو تھوڑا مسکرا دیں

کہیں ایسی کہی اپنے جگر کی
کہ منبر پر کھڑا واعظ رُلا دیں

بہت مجبور ہیں اس دل کے ہاتھوں
وگرنہ آپ ہی خود کو مٹا دیں

عظیم اپنے تماشائی بہت ہیں
پہ کیوں نہ اک تماشا سا لگا دیں



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

زلفِ جاناں کے ہم اسیر ہوئے
میر میروں کے بھی امیر ہوئے

اُس کے در پر ہی سر جھکاتے ہیں
شیخ صاحب ہوئے فقیر ہوئے
 
آخری تدوین:
ہماری صلاح

یوں نہیں رقیبوں سے
جائیے ملا کیجے​

چاہیے ملا کیجے

درد کی ہمارے بھی
ہو کوئی دوا کیجے

دوسرے مصرع کا مطلب؟
’ہو کوئی دوا‘ کہیے یا ’کوئی دوا کیجے‘ کہیے دونوں کا محل شاید نہیں۔
یوں نہیں ہمارے سے
آپ کو جدا کیجے​

’ہمارے سے‘؟؟

خود سے رشتہ نہ جانے کیسا ہے
جانے کس کا یہ ہو چکا ہوں میں

یہ مری ذات کیوں ادھوری ہے
دیکھ پورا تو ہو چکا ہوں میں​

مندرجہ بالا دونوں اشعار میں لفظ ’یہ‘ سے چھٹکارہ حاصل کیجیے۔

ابھی سے ہم تمہارے عشق میں کیوں
یہ اپنی جاں گنوانا چاہتے ہیں​
یہ
جلا دیں غیر کو اس بزم میں ہم
اجازت ہو تو تھوڑا مسکرا دیں

جلادیں یا جلائیں؟


عظیم اپنے تماشائی بہت ہیں
پہ کیوں نہ اک تماشا سا لگا دیں

پہ کا مطلب ’پر‘ یعنی ’لیکن‘ ہو تا ہے۔ یہاں ’تو‘ استعمال کردیکھیے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

خواب کا ایک گھر بنائیں گے
ہم حقیقت میں کر دِکھائیں گے

چاہتے ہیں عظیم کتنا ہم
اِن رقیبوں کو بھی بتائیں گے

ہم نہ کہتے تھے شیخ عاشق ہیں
ہارنے پر بھی جیت جائیں گے

رو لِیا ہم نے جتنا رونا تھا
اب مقدر پہ مسکرائیں گے

اُس کے در کا ہوں اِک سوالی میں
بھیک منگتے مراد پائیں گے



 

عظیم

محفلین
اُن سے کیا گلا کیجے
ہونٹ سی لیا کیجے

ہو سکا نہ دنیا سے
آپ ہی بھلا کیجے

جی حضور اچھا ہوں
ہاں مگر دعا کیجے

یوں نہیں رقیبوں سے
باخدا ملا کیجے

درد کی ہمارے بھی
ہو سکے دوا کیجے

ہم کہاں سنا سمجھا
مدعا کہا کیجے

اب تو آپ کے غم سے
دیکھئے رہا کیجے

اور کب تلک جا کر
غیر کی سنا کیجے

اب کہاں ٹھکانا ہے
کیوں مرا پتا کیجے

یوں نہیں ہمارا آپ
آپ سے جدا کیجے

دل جلائے بیٹھے ہیں
دل بجھا دِیا کیجے

کچھ عظیم صاحب آپ
حوصلہ کِیا کیجے

شاعری نہیں چھٹتی
چھوڑ بھی دِیا کیجے









 

عظیم

محفلین
ہماری صلاح



چاہیے ملا کیجے



دوسرے مصرع کا مطلب؟
’ہو کوئی دوا‘ کہیے یا ’کوئی دوا کیجے‘ کہیے دونوں کا محل شاید نہیں۔


’ہمارے سے‘؟؟



مندرجہ بالا دونوں اشعار میں لفظ ’یہ‘ سے چھٹکارہ حاصل کیجیے۔


یہ


جلادیں یا جلائیں؟



پہ کا مطلب ’پر‘ یعنی ’لیکن‘ ہو تا ہے۔ یہاں ’تو‘ استعمال کردیکھیے

کرکے دیکھئے خلیل بھائی کر دیکھئے کیا ہوا ؟ جی ضرور کر دیکھتا ہوں کرکے ۔ صلاح نوازی فرماتے رہئے گا ۔
 
Top