عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عمر فراز

محفلین
ﺩﺭﺩ، ﻭﮦ ﺁﮒ ﮐﮧ ﺑﺠﻬﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻠﺘﯽ ﺑﻬﯽ
ﻧﮩﯿﮟ
ﯾﺎﺩ، ﻭﮦ ﺯﺧﻢ ﮐﮧ ﺑﻬﺮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﺳﺘﺎ ﺑﻬﯽ
ﻧﮩﯿﮟ

10527335_745825425507795_4997330697799779484_n.jpg
 

عظیم

محفلین




سر پٹخ کر در دروں پر مار کر
سب سے جیتے ہم خودی سے ہار کر

شیخ منبر پر کھڑا ہے دیکھ تو
لوگ نفرت بانٹتے ہیں پیار کر

ہو سکے اپنے بھی اندر جھانک لے
اپنی بھی آنکھوں سے آنکھیں چار کر

کب تلک پیتے رہیں عمروں کا زہر
تیغ قاتل اس طرف بھی وار کر

اور کب تک ہم سہیں خاموشیاں
ہاں نہیں ممکن ہمیں انکار کر

الجھے بیٹھے ہیں ہم اپنے آپ سے
دیکھ ناصح یُوں نہیں تکرار کر

ہم عظیم آئے تھے اپنی زندگی
پہلے ہی شاید کسی پر وار کر










 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



درد کی حد سے گزرنا چاہئے
روز جینا روز مرنا چاہئے

دیکھتے ہیں آئینوں کو دیکھ کر
کس کی خاطر اب سنورنا چاہئے

اب سے ہی غنچے ہیں اہلِ شوق کے
پھول بن بن کر بکھرنا چاہئے

التجا کوئی کریں گے کیوں عظیم
ہم کو کتنا کچھ وگرنا چاہئے

کیا نہیں بگڑے ہمیں پر سب عظیم
کیوں ہمیں آخر سدھرنا چاہئے


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



آپ سے التماس کرتا ہوں
اور خود کو نراس کرتا ہوں

لوٹ آتا ہوں گھر کو جلدی میں
کام بھی آس پاس کرتا ہوں

رات دن یاد میں تری بیٹھا
اپنے دل کو اداس کرتا ہوں

بھول بیٹھا ہوں اپنی صورت کو
تیرا چہرہ شناس کرتا ہوں

کس خوشی سے میں آپ کے غم کو
اِس طبیعت پہ راس کرتا ہوں

 

عظیم

محفلین


ہر مکاں لامکان سے جاؤں
دور اِس آسمان سے جاؤں

عشق کرتا ہوں کیوں ترے در سے
میں اُٹھایا جہان سے جاؤں

جانے والا ہوں شہر بھر کو چھوڑ
کیونکہ اپنی اُڑان سے جاؤں

میں بنایا گیا ہوں مٹ مٹ کے
اب بھی اپنے نشان سے جاؤں

تم فضاؤں کی بات کرتے ہو
میں پرے کہکشان سے جاؤں

کس حقارت سے دیکھتے ہو آپ
میں بھی کس آن بان سے جاؤں

اب تو یہ چاہتا ہوں میں صاحب
دُور دنیا جہان سے جاؤں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



غم کوئی ایک بات کرتا ہے
دن کو دیکھو تو رات کرتا ہے

اب نہ جانے کہ ساتھ کیا میرے
آپ لوگوں کا سات کرتا ہے

شیخ صاحب کو کچھ نہیں معلوم
بات سنتا ہے بات کرتا ہے

وہ ہمیں ایک سے کرے گا دو
وہ جو پانچھوں کو سات کرتا ہے

ہم سے الجھے گا کیا زمانے تُو
جا سلجھ جا کے بات کرتا ہے

 

عظیم

محفلین



اپنے جگرے کو پھاڑ دیکھا ہے
خود میں نظروں کو گاڑ دیکھا ہے

اس خرابے میں آپ ڈھونڈیں عیش
ہم نے صاحب کباڑ دیکھا ہے

پھر بھی آباد ہم نہ ہو پائے
خوب خود کو اجاڑ دیکھا ہے

اُڑتے پھرتے ہیں کن ہواؤں میں
کن فضاؤں کو تاڑ دیکھا ہے

ہم نے جیتا ہے آگہی کو آپ
سب نے ہم کو پچھاڑ دیکھا ہے

 

عظیم

محفلین



آپ خود کو ہی مار دیکھا ہے
ہم نے جیون گزار دیکھا ہے

چاہتیں دیکھ لیں زمانے کی
آپ لوگوں کا پیار دیکھا ہے

ایک ہی دوست اپنا پایا اور
ایک ہی غم گسار دیکھا ہے

ہم سے کیا کیجئے سکوں کی بات
ہم نے کس دن قرار دیکھا ہے

ہر کوئی دوسرا زمانے میں
تیرے غم پر نثار دیکھا ہے

مُجھ پہ ہی چل رہا ہے جانے کیوں
آپ کا اختیار دیکھا ہے

کھاتا کھولا ہے آج خوشیوں سے
غم کا باقی اُدھار دیکھا ہے

دیکھ رکھا ہے کس نے مجنوں بھی
ہم سا کس نے شعار دیکھا ہے

چین آیا نہ ایک پل ہم کو
رو کے زار و قطار دیکھا ہے

کب کے آئے گی نیند بھی ہم کو
تیری آنکھوں میں پیار دیکھا ہے

وصل کیا ہم نے ہجر میں بھی اب
اک زمانہ گزار دیکھا ہے

اپنی عزت کو جانتے ہیں کیا
آپ اپنا وقار دیکھا ہے

ہم نے دیکھا نہیں مگر صاحب
کہتے پھرتے ہیں یار دیکھا ہے

سر کو دھنتے ہیں آج اپنے ہم
خود کو سُر میں اتار دیکھا ہے

آنکھ والوں نے دیکھ رکھے شہر
ہم نے آگے غبار دیکھا ہے

اور بگڑے ہیں دنیا والوں پر
لاکھ خود کو سدھار دیکھا ہے

جب بھی دیکھا عظیم ہم نے آپ
خود سے خود کو فرار دیکھا ہے



 

عظیم

محفلین


تیرے آنے پہ مسکرائیں ہم
گیت خوشیوں کے لاکھ گائیں ہم

اُٹھنے والے نہیں ہیں اُس در کے
دل سے جائیں کہ جاں سے جائیں ہم

حوصلہ کس قدر ہمیں بخشا
کھوج میں آپ کی دِکھائیں ہم

ہم تو یہ جانتے ہیں جو گزری
اپنی اِس جان پر بتائیں ہم

بھول جائیں بتوں کی چاہت اب
خود پہ تھوڑا سا رحم کھائیں ہم

تُم ہی کہہ دو اے مہرباں ہم سے
کیا فقط اشک ہی بہائیں ہم

کس طرح آسماں سے جاتے ہیں
اور ذرا دُور چل نہ پائیں ہم

بھاگ نکلیں حقیقتوں سے آج
خواب گاہوں میں گھر بسائیں ہم

ہو چکے عشق میں فنا صاحب
جائیں دنیا کو جا بتائیں ہم



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


بھول جا یاد ہم کو آنا دیکھ
مر ہی جائے گا یہ دوانا دیکھ

ہم نے دیکھا ہے آپ خود میں جھانک
ہو مبارک تجھے زمانا دیکھ

میری جاں کو بھی دیکھ لے قاتل
اپنے تیروں کا بھی نشانا دیکھ

دیکھ اپنی بساط بھی غافل
میرا محفل میں آنا جانا دیکھ

شعر کہنا انہیں ہو شاید شوق
مُجھ کو ملنے کا ہے بہانا دیکھ

جانتا ہوں کہ تُم ہوئے دشمن
مانتا ہوں کہ دل نہ مانا دیکھ

پچھلی عقلوں کو لا سمجھنے شیخ
مدعا ہے کوئی پرانا دیکھ

جاگنے پر ہے آنکھ ملت کی
پھر سے سپنا کوئی سہانا دیکھ

رونے دھونے سے لاکھ بہتر ہے
کتنا آساں ہے غم کمانا دیکھ


 

عظیم

محفلین


جگر کو چیر کھانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا
ہمیں رونے رلانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا

تمہیں تو چاہئیں نوحے جہاں والو مگر دکھ ہے
اِنہیں نغمے سنانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا

زمانے بھر کو شاید آپ کے ہی اس دوانے کو
یُوں آ آ کر ستانے کے علاوہ کچھ نہیں آٖتا

کرے آ زور ہمت ہے کسی میں آئے اور دیکھے
ہمیں غزلیں سنانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا

بہت آتا ہے مان اپنی فقیری پر فقیروں کو
مگر یہ سر جھکانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا

کہو مت شیخ کو صاحب تم ایسے یُوں برا دیکھو
اِسے آنکھیں دِکھانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا

ہم اپنے دل کی کہتے ہیں اور ان کی بات میں دیکھا
اُنہیں باتیں بنانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا

اگر ضدی کوئی ہم سا زمانے میں ہے دکھلاؤ
تمہیں اپنا بنانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا

عظیم اِس دشت سے آئے گا کیا اب خوف دنیا کو
اسی میں گھر بسانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

تمہاری یاد میں جھومیں گے ناچیں مسکرائیں گے
ہم اس دیوانگی سے سب کو دیوانہ بنائیں گے

نہ کر پائے بلائے عشق میں جو کام اچھے بھی
ہم ایسے ہی برے وہ کام اچھا کر دکھائیں گے

تمہیں چاہا ہے کیوں جا جا کے غیروں سے کہیں گے حال
تمہیں کو درد کے قصے تمہیں دکھڑے سنائیں گے

ہم اتنا دور نکلیں گے تمہاری آرزو میں لوگ
ہمیں اب ڈھونڈنے نکلیں گے دیکھو ڈھونڈ پائیں گے

زمانے بھر کے آگے جا کریں گے آپ کا چرچا
زمانے بھر سے لیکن آپ ہی خود کو چھپائیں گے

بلا جانے ہماری، دل کے لگ جانے پہ بیٹھے ہم
اب آگے ناز کرتے ہیں کہ بس نخرے اُٹھائیں گے

ہمیں معلوم ہے صاحب ہمارا کھیلنا دیکھو
عظیم ایسے کھلاڑی ہیں سبھی سے جیت جائیں گے​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


گنوانا دل بہت آسان ہے ہم جاں لٹائیں گے
کسی کے عشق میں اپنا پرایا بھول جائیں گے

ہم ایسے ناتواں اترٰیں گے جب جا کر اکھاڑے میں
بہت سے پہلوان اپنی توانائی بڑھائیں گے

نہ کر پائے ہیں راہِ عشق میں جو کام اچھے بھی
ہم ایسے ہی برے وہ کام اچھا کر دکھائیں گے

ہم اتنا دور جائیں گے کسی کی جستجو میں لوگ
قیامت تک ہمارے پپر کے نقشے مٹائیں گے

کہے دیتے ہیں خود کو کھو دیا ہے عشق میں ہم نے
کہے دیتے ہیں سب کے سامنے ہم ڈھونڈ لائیں گے

زمانے بھر کے آگے جا کریں گے آپ کا چرچا
زمانے بھر سے لیکن آپ کے بارے چھپائیں گے

بلا جانے ہماری دل کے لگ جانے پہ آگے ہم
کریں گے ناز یا بس آپ کے نخرے اُٹھائیں گے

ہماری بیخودی سے اک زمانہ ہو گیا واقف
نہ جانے ہوش آنے پر کسے منطق سکھائیں گے

ہمیں معلوم ہے صاحب ہمارا کھیلنا دیکھو
عظیم ایسے کھلاڑی ہیں کہ سب سے جیت جائیں گے







 
آخری تدوین:
Top