عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
... اگر ...

اگر دل کو جلا کر
اگر آنسو بہا کر
مجهے کچه چین آتا
تو یہ سب کر گزرتا
اگر خود کو بهلا کر
کہیں سے اس کو جا کر
کبهی میں ڈهونڈ پاتا
تو یہ سب کر گزرتا
اگر گلیاں سجا کر
نئی عیدیں منا کر
وہ خالق مان جاتا
تو یہ سب کر گزرتا

 

عظیم

محفلین
ترے شہر کی ہوائیں

بڑی تیز چل رہی ہیں
ترے شہر کی ہوائیں
بڑا ظلم کر رہی ہیں
ترے شہر کی ہوائیں

در دل پہ جانے کب سے
دئے جا رہی ہیں دستک
مرے دل میں بس نہ جائیں
ترے شہر کی ہوائیں

انہیں روک لو کہ میں ہوں
کوئی اک چراغ شب کا
مجهے دن میں مت بجهائیں
ترے شہر کی ہوائیں

کسی شام تیری خوشبو
کسی شب مہک کو تیری
کبهی ساته بهی تو لائیں
ترے شہر کی ہوائیں

بڑا ظلم کر رہی ہیں
ترے شہر کی ہوائیں

 

عظیم

محفلین


اس کے در پر جو دل گنوا آئے
کتنے خوش ہیں کہ جاں بچا آئے

اس کی زلفوں میں قید جب سے ہیں
تب سے ہوتے ہوئے رہا آئے

اب تو آیا ہے کفر کا جملہ
لب پہ کوئی نہ پهر صدا آئے

کان میں گونجتی ہے تنہائی
نیند راتوں میں ہم کو کیا آئے

اپنے مرقد پہ آ بہائیں کیا
خوں، لہو، اشک ، سب بہا آئے

خود سے رکها چهپا کے خود کو پهر
خود سے خود کو کہیں چهپا آئے

قیس چپ تهے ، مگر یہ کہتے ہیں
جو سنانا تها ہم سنا آئے




 

عظیم

محفلین
کیا داغ جگر کے اشکوں سے مٹتے ہیں جو اب مٹ جانے ہیں
بے کار میں یونہی رو رو کے دن چار مرے کٹ جانے ہیں

کیا روز میں اس کی یادوں کی یوں اوڑه کے چادر سو جاوں
کیا روز یونہی ان خوابوں میں صدیوں کے سفر کٹ جانے ہیں

اس خوف رجا سے پوچهو تم مجه سے نہ ہوا ممکن لیکن
امید مری کب ٹوٹے گی کب آس کے دم گهٹ جانے ہیں

اک درد جدائی دل میں ہے اک غم ہے بچهڑنے کا ان سے
اک خوف ہے ملنے کا ان سے مل کے جو بچهڑ جهٹ جانے ہیں

کس غم کا فسانہ اب چهیڑوں میں بات کروں کس وحشت کی
محفل ہے رقیبوں کی اس پر عاشق ہیں سبهی مٹ جانے ہیں

وہ قیس وہی ہے دیکهو تو گزرا ہے تمہارے در سے جو
وہ دیکهو وہی ہے کیا دیکهو کہتا تها جو در چهٹ جانے ہیں

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
واقعی اچھی غزل ہے عظیم، ایسی ہی غزلیں کہا کرو، وہ شعر بدلو تو پہلا مصرع بھی بدل دو، رواں نہیں
اپنے مرقد پہ آ بہائیں کیا
 

عظیم

محفلین
عجب سا وہم کهائے جا رہا ہے
یقیں میں ڈر سمائے جا رہا ہے

عجب سی ایک بے چینی ہے دل کو
عجب سا غم ستائے جا رہا ہے

بہت مجبور ہو کر کہہ رہا ہوں
وہ ظالم ظلم ڈهائے جا رہا ہے

نصیحت کس لئے ناصح اسے جو
تمہی میں عیب پائے جا رہا ہے

نجانے کس خوشی میں آج اتنا
یہ دل ماتم منائے جا رہا ہے

نہیں معلوم ازلوں سے ہی شاید

وہ ہم کو یوں مٹائے جا رہا ہے

ان آنکهوں میں نہیں ہیں اشک لیکن
کلیجہ خوں بہائے جا رہا ہے

ہوا ہے معتبر وہ شخص کتنا
جو فتنوں کو اٹهائے جا رہا ہے

مری اس بے بسی پر آپ ہی اب
مجهی کو ترس آئے جا رہا ہے

خدا جانے وہ معنی کیا بلا ہیں
خدا جن کو چهپائے جا رہا ہے

مرے مالک کا مجه پر کرم ہے جو
مجهے کچه چین بهائے جا رہا ہے

تها بهولا ایک بهٹکا جو مسافر
وہ اب رستہ دکهائے جا رہا ہے

نکل جانی ہے جس پل جان جاناں
وہ پل نزدیک آئے جا رہا ہے

عظیم اس شہر ہے خوشیوں کا چرچا
تو اپنے غم سنائے جا رہا ہے

 
آخری تدوین:
واااہ! کیا بات ہے۔ اللہ کرے زورَ قلم اور زیادہ ۔۔۔
انہیں روک لو کہ میں ہوں کوئی اک چراغ شب کا
مجهے دن میں مت بجهائیں ترے شہر کی ہوائیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اصلاح کی ضرورت کہیں محسوس نہیں ہوتی، ہاں، ایک تو اس کا کوئی عنوان ضروری ہے۔ اگر آپ نے اس کا عنوان "ترے شہر کی ہوائیں" ہی رکھا ہے تو خوب ہے۔
بہتری کی گنجائش اگر ہے تو صرف اتنی کہ جس قدر یہ نظم لکھی گئی ہے، اس سے دگنی ہونی چاہئے تھی ۔۔۔ کم از کم ۔۔۔ اگر ممکن ہو۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عجب سا وہم کهائے جا رہا ہے
یقیں میں ڈر سمائے جا رہا ہے
۔۔ دوسرا مصرع قدرے کمزور ہے۔۔۔
عجب سی ایک بے چینی ہے دل کو
عجب سا غم ستائے جا رہا ہے
۔۔۔ درست
بہت مجبور ہو کر کہہ رہا ہوں
وہ ظالم ظلم ڈهائے جا رہا ہے
۔۔۔ دوسرا مصرع ۔۔۔ ظالم کا ظلم ڈھانا یا قاتل کا قتل کرنا سمجھی سمجھائی بات ہے۔ ظالم اور ظلم کے الفاظ ایک ہی صفت کی تکرار محسوس ہوتے ہیں جو بھلے نہیں لگتے۔
نصیحت کس لئے ناصح اسے جو
تمہی میں عیب پائے جا رہا ہے
۔۔۔ نصیحت اور ناصح کے لیے تو گزشتہ شعر کا بیان ہی کافی۔ دوسرا مصرع بیان کے لحاظ سے کچا ہے۔
نجانے کس خوشی میں آج اتنا
یہ دل ماتم منائے جا رہا ہے
۔۔۔ دونوں مصرعے متضاد محسوس ہوتے ہیں۔۔۔
نہیں معلوم ازلوں سے ہی شاید
وہ ہم کو یوں مٹائے جا رہا ہے
۔۔۔ ازل سے کہنا درست ہے، ازل کی جمع درست نہیں لگتی۔ جائز ہو بھی، تو شعر نامکمل ہے۔
ان آنکهوں میں نہیں ہیں اشک لیکن
کلیجہ خوں بہائے جا رہا ہے
۔۔۔ محاورے سے دور ہے ۔
ہوا ہے معتبر وہ شخص کتنا
جو فتنوں کو اٹهائے جا رہا ہے
۔۔۔ یہاں شعر مکمل لگتا ہے، تاہم "فتنوں کو اٹھانے " کے معاملے میں الجھن کا شکار ہوں۔
مری اس بے بسی پر آپ ہی اب
مجهی کو ترس آئے جا رہا ہے
۔۔۔ "آپ ہی اب" کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ یہ کمزور ہے۔ مری اس بے بسی پر ۔۔۔ مجھی کو ترس آئے جارہا ہے ، بھی مکمل لگتا ہے، اگر بچ رہنے والی جگہ استعمال کرتے ہوئے بے بسی کی وجہ واضح کی جائے۔
خدا جانے وہ معنی کیا بلا ہیں
خدا جن کو چهپائے جا رہا ہے
۔۔ سوال اچھا ہے لیکن سلیقے سے نہیں کیا گیا۔
مرے مالک کا مجه پر کرم ہے جو
مجهے کچه چین بهائے جا رہا ہے
۔۔۔ مرے مالک کا ہے مجھ پر کرم جو ۔۔۔ درست ہے ۔۔ چین کا بھانا سے بہتر تھا چین آنا۔
تها بهولا ایک بهٹکا جو مسافر
وہ اب رستہ دکهائے جا رہا ہے
۔۔۔ بھولا اوربھٹکا کے درمیان کچھ نہ لاتے تو اچھا تھا۔۔ تھا خود اک بھولا بھٹکا جو مسافر ۔۔۔
نکل جانی ہے جس پل جان جاناں
وہ پل نزدیک آئے جا رہا ہے
۔۔۔ درست ۔۔۔
عظیم اس شہر ہے خوشیوں کا چرچا
تو اپنے غم سنائے جا رہا ہے
۔۔۔ درست ۔۔۔ حالانکہ شہر کے بعد "میں" کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔۔

۔ جو کمی بتائی ہے ضروری نہیں کہ پائی جاتی ہو۔ جس شعر کو نامکمل کہا، ہوسکتا ہے کہ مکمل اور عمدہ ہو۔
میری بات حرفِ آخر نہیں، بہتر ہے کہ اساتذہ کو ٹیگ کرکے ان کی رائے لی جائے ۔
 

عظیم

محفلین
ابهی تو وصل کے لمحے شمار کرنے ہیں
ابهی تو ہجر کے صدمے شکار کرنے ہیں

ابهی تو غم کی سنانی ہے داستاں ہم نے
ابهی تو درد کے قصے نگار کرنے ہیں

ابهی تو وقت کی گردش میں ٹوٹنا ہے ہمیں
ابهی تو عمر کے ٹکڑے ہزار کرنے ہیں

ابهی تو ہم نے منانا ہے روٹهے ساجن کو
ابهی تو خاک سے سولہ سنگهار کرنے ہیں

ابهی تو عشق میں ہونا ہے غرق ہم کو قیس
ابهی تو آگ کے دریا بهی پار کرنے ہیں

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
صدمے شکار کرنا؟
ساجن کے علاوہ کوئی اور لفظ ہو تو بہتر ہے۔
مقطع کی روانی بہتر بنائی جا سکتی ہے
مزید آج کل طارق شاہ بہت غور سے تخلیقات دیکھ رہے ہیں۔
لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ تم نے احباب کے مشوروں کو رد کیا ہےیا قبول؟
 

الف عین

لائبریرین
مری اس بے بسی پر آپ ہی اب
مجهی کو ترس آئے جا رہا ہے
ترس میں تا اور را دونوں مفتوح ہوتے ہیں۔ یہاں رحم کیا جا سکتا ہے۔
باقی شاہد شاہنواز کی بہت سی باتون سے میں متفق ہوں
 
Top