عجب سا وہم کهائے جا رہا ہے
یقیں میں ڈر سمائے جا رہا ہے
۔۔ دوسرا مصرع قدرے کمزور ہے۔۔۔
عجب سی ایک بے چینی ہے دل کو
عجب سا غم ستائے جا رہا ہے
۔۔۔ درست
بہت مجبور ہو کر کہہ رہا ہوں
وہ ظالم ظلم ڈهائے جا رہا ہے
۔۔۔ دوسرا مصرع ۔۔۔ ظالم کا ظلم ڈھانا یا قاتل کا قتل کرنا سمجھی سمجھائی بات ہے۔ ظالم اور ظلم کے الفاظ ایک ہی صفت کی تکرار محسوس ہوتے ہیں جو بھلے نہیں لگتے۔
نصیحت کس لئے ناصح اسے جو
تمہی میں عیب پائے جا رہا ہے
۔۔۔ نصیحت اور ناصح کے لیے تو گزشتہ شعر کا بیان ہی کافی۔ دوسرا مصرع بیان کے لحاظ سے کچا ہے۔
نجانے کس خوشی میں آج اتنا
یہ دل ماتم منائے جا رہا ہے
۔۔۔ دونوں مصرعے متضاد محسوس ہوتے ہیں۔۔۔
نہیں معلوم ازلوں سے ہی شاید
وہ ہم کو یوں مٹائے جا رہا ہے
۔۔۔ ازل سے کہنا درست ہے، ازل کی جمع درست نہیں لگتی۔ جائز ہو بھی، تو شعر نامکمل ہے۔
ان آنکهوں میں نہیں ہیں اشک لیکن
کلیجہ خوں بہائے جا رہا ہے
۔۔۔ محاورے سے دور ہے ۔
ہوا ہے معتبر وہ شخص کتنا
جو فتنوں کو اٹهائے جا رہا ہے
۔۔۔ یہاں شعر مکمل لگتا ہے، تاہم "فتنوں کو اٹھانے " کے معاملے میں الجھن کا شکار ہوں۔
مری اس بے بسی پر آپ ہی اب
مجهی کو ترس آئے جا رہا ہے
۔۔۔ "آپ ہی اب" کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ یہ کمزور ہے۔ مری اس بے بسی پر ۔۔۔ مجھی کو ترس آئے جارہا ہے ، بھی مکمل لگتا ہے، اگر بچ رہنے والی جگہ استعمال کرتے ہوئے بے بسی کی وجہ واضح کی جائے۔
خدا جانے وہ معنی کیا بلا ہیں
خدا جن کو چهپائے جا رہا ہے
۔۔ سوال اچھا ہے لیکن سلیقے سے نہیں کیا گیا۔
مرے مالک کا مجه پر کرم ہے جو
مجهے کچه چین بهائے جا رہا ہے
۔۔۔ مرے مالک کا ہے مجھ پر کرم جو ۔۔۔ درست ہے ۔۔ چین کا بھانا سے بہتر تھا چین آنا۔
تها بهولا ایک بهٹکا جو مسافر
وہ اب رستہ دکهائے جا رہا ہے
۔۔۔ بھولا اوربھٹکا کے درمیان کچھ نہ لاتے تو اچھا تھا۔۔ تھا خود اک بھولا بھٹکا جو مسافر ۔۔۔
نکل جانی ہے جس پل جان جاناں
وہ پل نزدیک آئے جا رہا ہے
۔۔۔ درست ۔۔۔
عظیم اس شہر ہے خوشیوں کا چرچا
تو اپنے غم سنائے جا رہا ہے
۔۔۔ درست ۔۔۔ حالانکہ شہر کے بعد "میں" کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔۔
۔ جو کمی بتائی ہے ضروری نہیں کہ پائی جاتی ہو۔ جس شعر کو نامکمل کہا، ہوسکتا ہے کہ مکمل اور عمدہ ہو۔
میری بات حرفِ آخر نہیں، بہتر ہے کہ اساتذہ کو ٹیگ کرکے ان کی رائے لی جائے ۔