عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
ہم اسیروں کو رہائی سے ہے آتا خوف اب
ان بتوں کی ہمنوائی سے ہے آتا خوف اب

ہو کوئی ایسا ٹهکانہ جس میں اب ہم جا چهپیں
ہم کو جگ کی پارسائی سے ہے آتا خوف اب

دم ترا بهرتے ہیں لیکن ہو ہمیں اپنی تلاش
پند گو کی اس دہائی سے ہے آتا خوف اب

کیوں کریں اس کی تمنا جو تمنا تها نہیں
ہائے اپنی بے وفائی سے ہے آتا خوف اب

اس طرف اس کا ہے گهر اس اوڑه کو اپنا مزار
اف یہ وحشت کی سجهائی سے ہے آتا خوف اب

قیس اپنی داستاں کو اب نیا اک موڑ دیں
ناقدیں کی رہنمائی سے ہے آتا خوف اب




7 جنوری 2014​
 
آخری تدوین:
یہ دیکھ لیں پھر سے۔۔۔
اٹھالو کو مفعولن باندھنا درست نہیں شاید۔
ابهی جینے کو اٹها لو اٹها ہے
عظیم بھائی معذرت۔۔۔ میں نے اپنی غلط سمجھ کے مطابق اسے ”اٹھالو“ امر جمع حاضر سمجھ کر یہ لکھا تھا۔
آپ نے بالکل درست باندھا ہے۔ :)
 

عظیم

محفلین

تیرے ہجراں میں مر نہ جاوں میں
جو نہ کرنا ہے کر نہ جاوں میں

یوں تغافل برت نہ مجه سے تو
چهوڑ تیرا بهی در نہ جاوں میں

اے شب غم گسار اب تجه سے
تیرے سائے سے ڈر نہ جاوں میں

کب تلک در بدر پهروں جگ میں
کب تلک بول گهر نہ جاوں میں

جب سے سیکها ہے قیس نے جینا
اس کو ڈر ہے کہ مر نہ جاوں میں

7 جنوری 2014​
 

عظیم

محفلین
اُسے پیغام لکھنا چاہتا ہُوں
اُسی کے نام لکھنا چاہتا ہُوں

اے زُلفِ یار کی کالی گھٹاو
مَیں صبح و شام لکھنا چاہتا ہوں

سرِ بازار بکنے آ گیا ہوں
خود اپنے دام لکھنا چاہتا ہوں

میں اپنا جرم کب کا لکھ چکا ہوں
ترا الزام لکھنا چاہتا ہوں

میں اپنی ذات پر ہوتا ہوا اک
کوئی الہام لکھنا چاہتا ہوں

زمانے بهر کی ساری اُلجهنوں کو
مَیں پهر ناکام لکھنا چاہتا ہوں

شکستہ حال ہُوں لاچار ہُوں میں
ہُوں کتنا خام لکھنا چاہتا ہوں

رقیبوں سے یہ کہنا جا کے قاصد
اب اُس کا نام لکھنا چاہتا ہوں

مَیں کیسی ابتدائے عشق لکھوں
مَیں کیا انجام لکھنا چاہتا ہوں

سُنا ہے قیس کہتا پهر رہا ہے
کہ ہُوں بدنام لکھنا چاہتا ہوں

8 جنوری 2014

 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین


ہجر میں تیرے مر نہ جاؤں میں
ڈر ہے جس کا وہ کر نہ جاؤں میں

کر تغافل مگر رہے یہ خیال !
چهوڑ کر تیرا در نہ جاؤں میں

متوقّع ہُوں روشنی کا ، چراغ !
مت بنا سائے ڈر نہ جاؤں میں

در بدر یوں رہوں بتا کب تک
لوٹ کر اپنے گهر نہ جاؤں میں

جب سے سیکها ہے قیس نے جینا
ڈر اسے اپنا "مر نہ جاؤں میں"

محمد عظیم قیس
7 جنوری 2014
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مرے آگے نہ کچه بهی اب جہاں ہے
مری خاطر مکاں بهی لا مکاں ہے

مجهے کب ہوش ہے کہ میں کہاں ہوں
مجهے کب علم ہے کہ تو کہاں ہے

میں کیوں کر اپنی شہرت کے لئے یوں
کہوں دنیا سے ہاں ہاں تو بهی ہاں ہے

ملا ہے حکم اس کا تو سناوں
وگرنہ سن سکو کب داستاں ہے

کہاں ہیں آج میرے اشک ڈهونڈو
وہ میری مسکراہٹ اب کہاں ہے

زبان غیر سے بهاتا نہیں ہے
کچه ایسا بے مزہ میرا بیاں ہے

عظیم اس دشت میں مجنوں ہے مجه سا
نہ لیلی سی کوئی لیلی یہاں ہے


8 جنوری 2014
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مرے آگے نہ کچه بهی اب جہاں ہے
مری خاطر مکاں بهی لا مکاں ہے
÷÷ واضح نہیں
مجهے کب ہوش ہے کہ میں کہاں ہوں
مجهے کب علم ہے کہ تو کہاں ہے
÷÷بہتر روانی کی خاطر
مجهے یہ ہوش کب ہے ، میں کہاں ہوں
کہاں یہ علم بھی ہے ،تو کہاں ہے

میں کیوں کر اپنی شہرت کے لئے یوں
کہوں دنیا سے ہاں ہاں تو بهی ہاں ہے
÷÷شہرت سے اس کا کیا تعلق؟

ملا ہے حکم اس کا تو سناوں
وگرنہ سن سکو کب داستاں ہے
÷÷دوسرا مصع بے معنی÷ شکستہ ہے

کہاں ہیں آج میرے اشک ڈهونڈو
وہ میری مسکراہٹ اب کہاں ہے
÷÷درست

زبان غیر سے بهاتا نہیں ہے
کچه ایسا بے مزہ میرا بیاں ہے
۔۔ واضح نہیں

عظیم اس دشت میں مجنوں ہے مجه سا
نہ لیلی سی کوئی لیلی یہاں ہے
÷÷ پہلے مصرع میں الٹی بات ہونی تھی
نہ مجھ سا دشت میں مجنوں ہے کوئی
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور در بدر والاے اشعار کی طارق کی اصلاح خوب ہے۔ دوسرے اشعار میں مفہوم بدل دئے ہیں، جو میرا طریقہ نہیں۔ اسی مفہوم کو رکھتے ہوئے میں یون مشورہ دیتا


اے شب غم گسار آج کی رات
تیرے سائے سے ڈر نہ جاوں میں

اور
کب تلک در بدر رہوں ایسے
کب تلک اپنے گھر نہ جاؤں میں
 

طارق شاہ

محفلین
مطلع اور در بدر والاے اشعار کی طارق کی اصلاح خوب ہے۔ دوسرے اشعار میں مفہوم بدل دئے ہیں، جو میرا طریقہ نہیں۔ اسی مفہوم کو رکھتے ہوئے میں یون مشورہ دیتا


اے شب غم گسار آج کی رات
تیرے سائے سے ڈر نہ جاوں میں

اور
کب تلک در بدر رہوں ایسے
کب تلک اپنے گھر نہ جاؤں میں
جی عبید صاحب ! صحیح کہا آپ نے ،
مفہوم بدلنا نہیں چاہئے ،( آپ کا اپنایا ہوا اصول ہی صحیح ہے )
مگر ، پہلے شعر میں شب، کہ تاریک ہوتی ہے اپنی تاریکی میں کیا سائے پیدا کر کے ڈرائے گی
کا خیال تھا ، اور دوسرے میں ، تلک کو متروک گردانے جانے پر اس کے استعمال سے اجتناب برتنا
ضروری سمجھا تھا :):)
 

عظیم

محفلین
ملا ہے کیا تجهے دنیا جلا کر
یوں میرا اک تماشا سا بنا کر

نجات اس غم سے مر کر ہی ملے گی
مری خاطر تو مرنے کی دعا کر

کبهی آ بیٹه میرے روبرو سن
کبهی اپنی سنا میری سنا کر

عجب ہے عشق میں یہ خود پسندی
خدارا اب مجهے خود سے رہا کر

کبهی اپنی بهی جانب دیکه ناصح
مری ہی ذات کو نہ بد کہا کر

خدا نے جس کو بخشی ہے زباں سن
تو اس کے سامنے بس چپ رہا کر

دل بیمار کا دم گهٹ رہا ہے
خدا کے واسطے اس کی دوا کر

دکهاوں زخم دل کے قیس جن کو
وہ کہتے ہیں دکهاوا مت کیا کر

8 جنوری 2014

 
آخری تدوین:
Top