عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

طارق شاہ

محفلین

غزل

کسی کے نام لکھنا چاہتا ہُوں
دل کا پیغام لکھنا چاہتا ہُوں

کہوں سچ، مدح میں زُلفوں کی اُس کی
مَیں صبح و شام لکھنا چاہتا ہُوں

خریدیں تو، مجھے جس مول چاہیں
کب اپنا دام لکھنا چاہتا ہُوں

میں اپنے جرم کے نیچے بس اُن کا
دِیا الزام لکھنا چاہتا ہُوں

کہاں جوعشق مَیں گزُری نہ مجھ پر
کوئی الہام لکھنا چاہتا ہُوں

زمانے بهر کی خود پر کوششوں کو
مَیں اب ناکام لکھنا چاہتا ہُوں

شکستہ حال ہُوں ، لیکن ارادے
نہ اپنے خام لکھنا چاہتا ہُوں

رقیبو! ہو خبر اب آسماں پر
میں اُس کا نام لکھنا چاہتا ہُوں

رہے یوں ابتدائے عشق دائم
مَیں کب انجام لکھنا چاہتا ہُوں

اُسے بھی قیس یوں خوش نام لکھّوں !
کہ کب بدنام لکھنا چاہتا ہُوں

محمد عظیم قیس

8 جنوری 2014
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبدیلیاں ناگریز تھیں ، آپ کوشش سے بہت بہتر لکھ سکتے ہیں
خریدیں تو، مجھے جس مول چاہیں
کو " خریدیں وہ مجھے جس مول چاہیں " بھی کرسکتے ہیں مگر
" تو" میں ایک دیرینہ خواہش جھلکتی ہے )
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں:):)
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
عظیم قیس صاحب!
ردیف = سے ہے آتا خوف اب
تعقید لفظی پرجان کر مرتب کی گئی لگتی یا محسوس ہوتی ہے
دوسری بات اس ردیف میں روانی بالکل ہی نہیں کہ اس میں ہر لفظ پہ ہی
یعنی چار جگہ آواز ٹوٹتی ہے۔ سے، ہے، آ، تا خوفب (5 syllables ہیں )
لمبی ردیفیں رواں اور مترنم ہونی چاہیے کہ شعر کا زیادہ حصہ ہوتی ہیں
اور ردیف ہی غزل کی جان ہوتی ہے
تیسری بات جتنی آہستگی سے اسے پڑھیں، ردیف میں اب کی الف ادا نہیں ہو پاتی ۔ بلکہ
خوفب ہی پڑھی جاتی ہے ۔۔ جو اصول بستن ، یا ایسی بستگی میں بحر اور اوزان کے تناظر میں جائز نہیں

اس کو اسی قالب میں ڈھالیں، لکھیں جس طرح ہم اسے گفتگو میں استعمال کرتے ہیں = " سے بھی خوف آتا ہے اب "

ہم اسیروں کو رہائی سے بھی خوف آتا ہے اب
یارکی مشکل کشائی سے بھی خوف آتا ہے اب

ہم اسیروں کو رہائی سے بھی خوف آتا ہے اب
ایسی کوئی خوش نوائی سے بھی خوف آتا ہے اب

ذکر گلشن اور رہائی سے بھی خوف آتا ہے اب
یوں کہی ہر خوش نوائی سے بھی خوف آتا ہے اب

اگر مناسب سمجھیں تو اس یا کچھ ایسی ردیف پر خیال آرائی کریں
پھر دیکھتے ہیں کہ کیا صورت نکلی یا آپ نے نکالی :):)
 

عظیم

محفلین
عظیم قیس صاحب!
ردیف = سے ہے آتا خوف اب
تعقید لفظی پرجان کر مرتب کی گئی لگتی یا محسوس ہوتی ہے
دوسری بات اس ردیف میں روانی بالکل ہی نہیں کہ اس میں ہر لفظ پہ ہی
یعنی چار جگہ آواز ٹوٹتی ہے۔ سے، ہے، آ، تا خوفب (5 syllables ہیں )
لمبی ردیفیں رواں اور مترنم ہونی چاہیے کہ شعر کا زیادہ حصہ ہوتی ہیں
اور ردیف ہی غزل کی جان ہوتی ہے
تیسری بات جتنی آہستگی سے اسے پڑھیں، ردیف میں اب کی الف ادا نہیں ہو پاتی ۔ بلکہ
خوفب ہی پڑھی جاتی ہے ۔۔ جو اصول بستن ، یا ایسی بستگی میں بحر اور اوزان کے تناظر میں جائز نہیں

اس کو اسی قالب میں ڈھالیں، لکھیں جس طرح ہم اسے گفتگو میں استعمال کرتے ہیں = " سے بھی خوف آتا ہے اب "

ہم اسیروں کو رہائی سے بھی خوف آتا ہے اب
یارکی مشکل کشائی سے بھی خوف آتا ہے اب

ہم اسیروں کو رہائی سے بھی خوف آتا ہے اب
ایسی کوئی خوش نوائی سے بھی خوف آتا ہے اب

ذکر گلشن اور رہائی سے بھی خوف آتا ہے اب
یوں کہی ہر خوش نوائی سے بھی خوف آتا ہے اب

اگر مناسب سمجھیں تو اس یا کچھ ایسی ردیف پر خیال آرائی کریں
پھر دیکھتے ہیں کہ کیا صورت نکلی یا آپ نے نکالی :):)



زلف جاناں کی جدائی سے نہ آئے خوف کیوں
ہم اسیروں کو رہائی سے نہ آئے خوف کیوں

کیوں نہ اپنی خاک اوڑهے اب کہیں ہم جا بسیں
اب ہمیں اس کی خدائی سے نہ آئے خوف کیوں
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
:thumbsup:
زلف جاناں کی جدائی سے نہ آئے خوف کیوں
ہم اسیروں کو رہائی سے نہ آئے خوف کیوں

ہم میں آپ کے ساتھ کون یا کون کون شامل ہے؟

زلف جاناں کی جُدائی سے نہ آئے خوف کیوں
یوں اسیری کو، رہائی سے نہ آئے خوف کیوں

یا
ہو اسیری یوں، رہائی سے نہ آئے خوف کیوں
 

طارق شاہ

محفلین
اسیر کیفیت ہونے کی وجہ سے بہت سی آپشنز نہیں مہیا کرتا ہے
معنویت میں مشکل پر یا ضرورت پڑنے پر اِسے صفت میں تبدیل کرکے
یعنی اسیری کرکے یا لکھ کر احاطہ یا دائرۂ الفاظ (Spectrum) وسیع کیا جاسکتا ہے
 

عظیم

محفلین
زلف جاناں کی جدائی سے نہ آئے خوف کیوں
قید ہو ایسی، رہائی سے نہ آئے خوف کیوں
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
زلف جاناں کی جدائی سے نہ آئے خوف کیوں
قید ہو ایسی، رہائی سے نہ آئے خوف کیوں

قید کو اس معنی میں، صرف خیال، بیان اور دیگر الفاظ یا جملے سے موزونیت پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے
کہ اس کے معنی ذرا سخت رویّے میں آتا ہے ، محبوس ، مقیّد ، سلاخوں کے پیچھے ہونا وغیرہ
جبکہ اسیر بمعنی ، گرفتار ، اختہ، مبتلا ، حراست میں ہونا وغیرہ جیسے قدرے سہل مفہوم میں لیا یا لکھا جاتا ہے
:):)
 

عظیم

محفلین
یہ کِس کا غم منائے جا رہے ہیں
جو اِتنا مسکرائے جا رہے ہیں

اُسے معلوم ہے، دنیا کو جس کے
لئے دشمن بنائے جا رہے ہیں

نجانے کِس لئے اشکوں کا دریا
نجانے کیوں بہائے جا رہے ہیں

کہو اُس نغمہ گر سے چپ رہے وہ
کہ اب نوحے سنائے جا رہے ہیں

بہت مجبور ہو کر اُٹھ رہے ہیں
جو اُس در سے اُٹهائے جا رہے ہیں

گِنی جاتی ہیں اب ہجراں کی گهڑیاں
گهڑی پل یوں بِتائے جا رہے ہیں

دهنسے ہیں پاوں اپنی خاک میں ہی
خودی میں خود سمائے جا رہے ہیں

فلک پر اک ستارہ ٹوٹتا ہے
زمیں پر قہر ڈهائے جا رہے ہیں

سکونِ قلب اتنی دیر کردی
کہ اب تو ہم اُٹهائے جا رہے ہیں

جو کل تک رہنما بن کر تهے بیٹهے
وہی رہ زن بَتائے جا رہے ہیں

خدایا اِس زمیں پر آسماں کے
بہت فتنے اُٹهائے جا رہے ہیں

عجب سی ایک بے چینی ہے دل کو
عجب سے وہم کهائے جا رہے ہیں

وہی ہیں معتبر اپنی نظر میں
جو نظروں سے گِرائے جا رہے ہیں

عظیم اِس گلستاں میں اور بهی تو
کئی غنچے جلائے جا رہے ہیں

 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
یہ کِس کا غم منائے جا رہے ہیں
جو اِتنا مسکرائے جا رہے ہیں



غزل

وہ کِس کا غم منائے جا رہے ہیں
جو اِتنا مُسکرائے جا رہے ہیں

اُسے معلوم ہو اُس کے لئے ہم
جہاں دشمن بنائے جا رہے ہیں

غمِ فرقت میں اب اشکوں کا دریا
نجانے کیوں بہائے جا رہے ہیں

کہو اُس نغمہ گر سےکیوں بھلا اب
ہمیں نوحے سُنائے جا رہے ہیں

دلِ رنجُور بیٹھا جا رہا ہے
جو اُس در سے اُٹهائے جا رہے ہیں

شماراب روز شب کا، کیا ضروری
یہ کب ہم سے بِتائے جا رہے ہیں

دهنسے یوں پاؤں اپنی خاک میں اب
خود اپنے میں سمائے جا رہے ہیں

ستارہ اِک فلک پر ٹوٹتے ہی
زمیں پر قہر ڈهائے جا رہے ہیں

بہت ہی دیر کردی مہرباں نے
کہ اب تو ہم اُٹهائے جا رہے ہیں

ہمارے رہنما کل تک رہے جو
وہی رہزن بَتائے جا رہے ہیں

خدایا رحم کر تُو اِس زمیں پر
بہت فتنے اُٹهائے جا رہے ہیں

عجب سی دل کو بے چینی رہے اب
عجب سے وہم کهائے جا رہے ہیں

نظر کے کھیل میں وہ معتبرکیوں
جو اپنی سے گِرائے جا رہے ہیں

عظیم اِس گلستاں میں ایک سے اِک
حسیں غنچے کِھلائے جا رہے ہیں

محمد عظیم قیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

× عظیم اِس گلستاں میں اور بهی تو
کئی غنچے جلائے جا رہے ہیں

×( اگر یہ جل گیا تو کیا قیامت ، والا مفہوم ہے، یعنی ایسا ہونا آپ صحیح سمجھتے ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
×× سکونِ قلب اتنی دیر کردی

کہ اب تو ہم اُٹهائے جا رہے ہیں

×× (اگر یہ سکون قلب ہے تو یہ جب بھی آتی یا مِلتا تو اٹھائے ہی جاتے، کا تاثر بھی لئے ہوئے ہے یہ شعر )

بہت بہتر سوچ لیں گے اگر وقت دیں گے
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں :):)
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
عظیم اس گلستاں... دل کو تسلی دی تهی ...
سکون قلب اتنی دیر کردی ...
شکوہ کرنا چاہا تها لیکن واضح نہ کر پایا
جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین
مَیں کیسی اُلجھنوں میں گِهر گیا ہُوں
خُود اپنے قول سے ہی پِهر گیا ہُوں

اُٹها کر خُود کو لایا تها جہاں سے
وہیں پِهر آج آ کر گِر گیا ہُوں

مَیں اُس کی ذات سے غافل تها پہلے
اَب اپنی غفلتوں میں گِهر گیا ہُوں

بہت بے صبر ہوں جو کل بُلائے
اُسے مَیں آج ملنے پِهر گیا ہُوں

خُود اپنے آئینوں سے شَرم آئے
خُود اپنی ہی نظر میں گِر گیا ہُوں

عظیم اب تک کہا مومن نہ جاؤں
ازل سے مَیں کہا مُنکِر گیا ہُوں

محمد عظیم
13 جنوری 2014


 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
مَیں کیسی اُلجھنوں میں گِهر گیا ہُوں


غزل

کب اپنے قول سے میں پِهر گیا ہُوں
ذرا بس اُلجھنوں میں گِهر گیا ہُوں

اُٹها لایا تها خُود کو میں جہاں سے
وہیں پِهر آج کیونکر گِر گیا ہُوں

ہر اک شے سے رہا غافل تها کچھ کچھ
مگر اب غفلتوں میں گِهر گیا ہُوں

بہت نادم تھا کل مِلنے پہ جس سے
اُسے مَیں آج مِلنے پِهر گیا ہُوں

مقابل آئینے کے شرم آئے
خُود اپنی ہی نظر میں گِر گیا ہُوں

محمد عظیم
13 جنوری 2014

اچھی رہی غزل ، مگر ربط اورواضح مفہوم پر کڑی نظر رکھیں ۔
مطلع میں نیگیٹیو پرسنالِٹی ظاہر ہونے پر تبدیلی کی ۔
مفہومِ مقطع مجھ پر واضح نہیں :(
بہت خوش رہیں :):)
 
آخری تدوین:
Top