عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

طارق شاہ

محفلین
خُود اپنی ہی نظر میں گِر گیا ہُوں​
کی بجائے
خُود اپنی ہی نظر سے گِر گیا ہُوں​
ہوتا تو زیادہ بہتر تھا
نظر میں = ۔۔۔۔۔۔۔ سے اب وقعت اور حیثیت کا نہ ہونا یا کھو دینا بہتر ادا ہوتا ہے ، یہ گرداننے یا موازنہ کرنے کے مفہوم میں اچھا اور فصیح ہے
غالب صاحب کا یہ شعر مثال کے طور پر :

مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں

جہاں کی مزے کی وقعت اور حیثیت نظر میں خاک نہیں

جبکہ
نظر سے گرنا ، کسی عمل کے ہوجانے یا کرنے سے عزت کا کھودینا کے مفہوم میں زیادہ مناسب ہے

تشکّر اظہار خیال کے لئے صاحب :):)
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جہاں سے میں خود کو اٹها کے لایا ہوں وہاں پهر سے گرنے کو جانا لازم ہے شاید.
اللہ بہتر جاننے والا ہے
جزاک اللہ
 

طارق شاہ

محفلین
جہاں سے میں خود کو اٹها کے لایا ہوں وہاں پهر سے گرنے کو جانا لازم ہے شاید.
اللہ بہتر جاننے والا ہے
جزاک اللہ
اٹھا کر یا اٹھا کے خود کو لانا ، سے physically عمل یا کام کرنا کی طرف ذہن رجوع کرتا ہے
اٹھا لایا تھا خود کو سے ، نکال لینے کا مفہوم حاصل ہوتا ہے ۔' کر' یا 'کے' کا زور نہیں
:)
 

عظیم

محفلین
بہت نزدیک آئے جا رہے ہو
مُجهے بیخود بَنائے جا رہے ہو

تُمہاری حسرتِ دیدار ہے تُم
مُجهے کیا کیا دِکهائے جا رہے ہو

مِٹا ہُوں نام پر جب سے تمہارے
جہاں سے کیوں مِٹائے جا رہے ہو

دیارِ غیر میں کِس آبرُو کے
لئے مجھ کو جلائے جا رہے ہو


عظیم اپنی ہی بربادی کا قصہ
زمانے کو سنائے جا رہے ہو


محمد عظیم
13 جنوری 2014
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کسی کی یاد میں دل بے قرار رہتا ہے
کسی کے عشق کا ہم کو بخار رہتا ہے

کسی کے نام سے آتے ہیں لفظ ہونٹوں پر
کسی کے نام کا ہم پر ادهار رہتا ہے

کوئی ہے جس کی تمنا میں خود کو بهولے ہیں
کوئی ہے جس کا یوں ہر دم خمار رہتا ہے

بجها کے شب کے چراغوں کو تب سے بیٹهے ہیں
کہ جب سے زلف کا اس کی حصار رہتا ہے

ہمارے نقش تو کب کے ہیں مٹ چکے لیکن
سرائے دشت سے اٹهنا غبار رہتا ہے

ہوئے ہو کس کی محبت میں تم دیوانے قیس
یہ کس کے عشق کا تم کو بخار رہتا ہے

محمد عظیم قیس
13 جنوری 2014

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
نہ میرا دل جلاو خدا کا واسطہ ہے
خدارا رحم کهاو خدا کا واسطہ ہے

میں اپنی زندگی کا گَلا خُودگھونٹ دونگا
مجهے جینا سکهاو خدا کا واسطہ ہے

زمانے کے خداو ! نہ اتنا ظلم ڈهاو !
نہ مجھ کو یُوں ستاو ! خدا کا واسطہ ہے

مرے غم کی کہانی کبهی اپنی زبانی
مُجهے تم کہہ سناو خدا کا واسطہ ہے

بهَٹکتا جا رہا ہُوں اے میرے رہنماو
صحیح رستہ دکهاو خدا کا واسطہ ہے

مری آوارگی کا کوئی مقصُود ہے کیا ؟
کوئی تو کچھ بَتاو خدا کا واسطہ ہے

عظیم اِس دشت سے تُم اگر مُمکن ہو تُم سے
تو جاو لَوٹ جاو خدا کا واسطہ ہے


محمد عظیم
14 جنوری 2014​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جنوں میں اک عجب سا ہی سماں ہے
خرد میں جو یقیں ہے یاں گماں ہے

عجب سی اک بے ہوشی ہوش میں ہے
عجب بے ہوشیوں میں ہوش یاں ہے

کہیں بیٹها ہوا ہوں دور اس سے
جہاں میں ہوں وہاں سے وہ وہاں ہے

زباں پر کس کے نغمے آ گئے ہیں
مرے دل میں یہ کس کا غم جواں ہے

لہو بن کر رگوں میں دوڑتا ہے
نہ پوچهو آنکه کا پانی کہاں ہے

مقدر پر بہاوں اشک اپنے
مری قسمت میں لکهی بس فغاں ہے

حیات جاوداں انمول ہے تو
مری اوقات اتنی کب کہاں ہے

سناوں اک کہانی آج ان کو
حقیقت واسطے جن کے عیاں ہے

عظیم اس دہر سے جاو خدارا
تہمارے واسطے نہ کچه یہاں ہے


 

عظیم

محفلین
داستانِ غم سُنانی آ گئی
دَرد کی شِدت گَھٹانی آ گئی

دُشمنوں سے جِیت جانا آ گیا
دوستوں سے مات کهانی آ گئی

قتل گاہوں میں یہ چرچا عام ہے
قاتلِوں کی حُکمرانی آ گئی

اُس کی خاطر دِل گنوایا تها کبهی
جِس کی خاطر جاں گنوانی آ گئی

میرے قدموں تک جهکاؤ سَر مرا
ذرے ذرے میں نشانی آ گئی

دِل جَلوں نے یُوں جَلایا شہر کو
جیسے آتش بَن کے پانی آ گئی

کیا کہا روزِ قیامت سَر پہ ہے
کیا کہا جس دن نہ مانی آ گئی

فَرض کرلو یاد تُم نے ہو کیِا
فَرض کرلو یاد جانی آ گئی

لَوٹنے والو کہو کچه یاد ہے
کب گهڑی تهی اِمتحانی آ گئی

خلوتوں میں ٹُوٹنے مُجھ پر عظیم
جَلوتوں کی بد گُمانی آ گئی



 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خوب۔ کہیں کہیں ردیف کی گرامر غلط ہو گئی ہے۔ مثلاً آتش مذکر ہے، اس مصرع کو یوں کیا جا سکتا ہے
آگ جیسے بن کے پانی
یہ اشعار غزل نکالاُ کے مستحق ہیں
کیا کہا روزِ قیامت سَر پہ ہے
کیا کہا جس دن نہ مانی آ گئی

فَرض کرلو یاد تُم نے ہو کیِا
فَرض کرلو یاد جانی آ گئی

لَوٹنے والو کہو کچه یاد ہے
کب گهڑی تهی اِمتحانی آ گئی
 

شوکت پرویز

محفلین
انکل !
آتش مؤنث ہی ہے نا ۔۔۔
مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
(غالب)

عشق کی خلقت سے آگے میں ترا دیوانہ تھا
سنگ میں آتش تھی جب تو شمع میں پروانہ تھا
(سودا)
۔۔۔۔
ویسے آگ کے استعمال سے مصرع میں زیادہ روانی آ گئی ہے؛ عظیم صاحب کے مصرع میں 'جیسے' میں 'ے' کا گرنا کچھ بھاری لگ رہا تھا، اور جب ہم کچھ متبادل لا کر روانی بہتر کر سکتے ہیں تو ہمیں ضرور ایسا کرنا چاہئے۔
 

عظیم

محفلین
عشاق کی مجال کہاں حال دل کہیں
معشوق جانتے ہیں وہ خلوت نشیں رہیں

کس کو دکهائیں زخم جو کهائے ہیں روح پر
زخمی کو دیکه شہر میں خونی ستم سہیں

کهو کر خود اپنی ذات میں ڈهونڈا کئے پتا
اس کا کہ جس کو لوگ بڑا معتبر کہیں

اوروں کی کیا کہیں کہ ہے اپنی ہمیں خبر
تم سے عظیم سچ ہی کہیں گے اگر کہیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تری یاد ہے مری زندگی
یہ رو داد ہے مری زندگی

ترا نام ہے مجهے یاد بس
کہاں یاد ہے مری زندگی

تجهے دیکه لوں تو میں مرسکوں
کہ نا شاد ہے مری زندگی

مرے شعر پر مری نظم پر
مری داد ہے مری زندگی

کہو غم میں اس کے ہو خوش عظیم
کہو شاد ہے "مری زندگی"


25 جنوری 2014
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
خاک اپنے بخت میں تهی خاک میں ہم سو گئے
ہم اسی جانب سے آئے تهے جدهر کو ہو گئے

رات بهر کرتے رہے ہم یوں کسی سے اک گلہ
جس طرح ہم بے وفا سے با وفا سے ہو گئے

واہ رے قسمت کیا عجب ہی کهیل کهیلا ہے کہ اب
ہنستے ہنستے آپ اپنی لاش پر ہیں رو گئے

تو نے اتنا بهی نہ دیکها اے ہمارے عشق کیا
جاگتے ہم رہ گئے اور شہر سارے سو گئے


کون سمجهے گا عظیم اس تیرگی کی بات کو
خود ہمارے لفظ گرتے ہی لبوں سے کهو گئے


25 جنوری 2014

 

الف عین

لائبریرین
اس میں بھی دو ایک آنچوں کی کسر رہ گئی!!!
خاک اپنے بخت میں تهی خاک میں ہم سو گئے
ہم اسی جانب سے آئے تهے جدهر کو ہو گئے
۔۔دوسرا مصرع کی روانی بہتر نہیں۔ ’جدھر کو‘ دلا جائے

رات بهر کرتے رہے ہم یوں کسی سے اک گلہ
جس طرح ہم بے وفا سے با وفا سے ہو گئے
۔۔دوسرا مصرع واضح نہیں÷

واہ رے قسمت کیا عجب ہی کهیل کهیلا ہے کہ اب
ہنستے ہنستے آپ اپنی لاش پر ہیں رو گئے
۔۔دونوں مصرعوں میں شاید ٹائپو ہے، پہلے میں کیاُ زائد ہے، دوسرے میں ’ہیں‘ کا نہیں ’ہی‘ کا محل ہے۔ شعر نہ واضح ہے اور نہ رواں ہی۔

تو نے اتنا بهی نہ دیکها اے ہمارے عشق کیا
جاگتے ہم رہ گئے اور شہر سارے سو گئے
۔ گرہ میں جان نہیں، دوسرا مصرع بہت خونصورت ہے اس کی روانی کی بہتری ہو سکتی ہے
جاگتے ہی رہ گئے ہم، شہر سارے سو گئے

کون سمجهے گا عظیم اس تیرگی کی بات کو
خود ہمارے لفظ گرتے ہی لبوں سے کهو گئے
۔۔واضح نہیں، تیرگی سے گفتگو کا کیا تعلق؟
 
Top