عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین

مری قسمت میں لکها غم جہاں کا
تو لکها خوف بهی سود و زیاں کا

بنا کر دوست مجه کو تم نے اپنا
بنا رکها ہے دشمن اس جہاں کا

مرے ہی واسطے وہ خط ہے قاصد
پتا لکها نہیں جس پر یہاں کا

وہ دیکهو پوجتے ہیں لوگ جس کو
وہ پوجا جا چکا ہے ان بتاں کا

خدا جانے، نہ ہونے کا پتا ہو
مکاں میں خواب دیکها لامکاں کا

زمیں کی بات کتنے کر گئے ہیں
کوئی قصہ سناو آسماں کا

صبا اس کو مرا پیغام دینا
عظیم اپنا نہیں کیا دوستاں کا

26 جنوری 2014

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


تو میری جان چاہے جان دے دوں
کہ دیں مزہب ہے کیا ایمان دے دوں

مری جانب اگر ہو اک اشارہ
قسم کهاتا ہوں تیری، جان دے دوں

ترے دیدار کے صدقے میں لاکهوں
کڑوڑوں بار جاناں جان دے دوں

سنا ہے عشق میں جائے جوانی
بڑهاپے کا سرو سامان دے دوں

میں اپنے ہر تعلق کو خدایا
نئی پهر سے کوئی پہچان دے دوں

عظیم اس سوچ میں بیٹها ہوں اس کو
میں دے دوں دل جگر یا جان دے دوں


26 جنوری 2014


 

عظیم

محفلین
جیت جاوں تو ہار جاتا ہوں
خود سے لڑنے بے کار جاتا ہوں

تیرے گلشن سے روز لے کر میں
اپنی جهولی میں خار جاتا ہوں

تجه پہ جاتا ہوں صدقے جان جاں
تجه پہ ہر دم نثار جاتا ہوں

تیری راہوں میں دهول ہو کے میں
بن کے اپنا غبار جاتا ہوں

جیت جاتا ہوں قیس دنیا سے
خود سے لیکن میں ہار جاتا ہوں


27 جنوری 2014​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
آخری دو اشعار خوب ہیں۔ اگرچہ مقطع سے پہلے کے شعر میں روانی بہر ہو سکتی ہے۔
مطلع میں بے کار ‘بکار‘ تقطیع ہو رہا ہے جو غلطی ہے۔
باقی دو اشعار میں کوئی خاص بات نہیں، بھرتی کے اشعار ہیں
 

عظیم

محفلین
اپنے ہونے سے بهی اب تو خوف آتا ہے مجهے
اس کے ہونے سے اے ناصح کیوں ڈراتا ہے مجهے

دیکه لی اوقات اپنی آج اس کی آنکه میں
جو سمجهتا ہے کهلاتا ہے پلاتا ہے مجهے

کس تعلق پر میں رکهوں تجه سے رشتہ استوار
ہر تعلق بے سبب ہی توڑ جاتا ہے مجهے

کیا برا تها گر نہ ہوتا شوق مرنے کا تجهے
زندگی کیا ہے مرا قاتل سکهاتا ہے مجهے

چین کا اک پل کبهی ہوگا میسر کیا عظیم
ہر نئی شب کو نیا صدمہ رلاتا ہے مجهے

27 جنوری 2014​
 

عظیم

محفلین


سوچتا ہوں لوٹ جاوں اس سفر کو چهوڑ کر
اپنے پیروں کو پهر اس دنیا کی جانب موڑ کر

تم گئے ہو کیوں مجهے یوں چهوڑ کر تنہا کہو
یوں بهی جاتا ہے کوئی کیا سب تعلق توڑ کر

ٹوٹ جاتا ہوں مسلسل ٹوٹنے کے خوف سے
خود کو رکهتا ہوں میں پهر سے ٹوٹنے کو جوڑ کر

 

عظیم

محفلین

دین و دنیا بُھلا کے بیٹھے ہیں
عشق مذہب بَنا کے بیٹھے ہیں

اپنی مَیت سَجا کے بیٹھے ہیں
اِک تماشا لَگا کے بیٹھے ہیں

خُون اپنا بہا کے بیٹھے ہیں
آپ خُود کو مِٹا کے بیٹھے ہیں


دل جلانے کی بات کرتے ہو
ہم تو خُود کو جَلا کے بیٹھے ہیں

تیرے ہجراں میں کون جانے ہم
کتنے صدمے اُٹها کے بیٹھے ہیں

بُهول بیٹھے ہیں تیرے وعدوں کو
اپنے وعدے بُھلا کے بیٹھے ہیں

زندگی میں عظیم کیا کہئے
چند خُوشیاں مَنا کے بیٹھے ہیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

تری جانب سے اِک پیغام آتا
رہی حسرت کہ میرے نام آتا

خُوشی سے مر نہ جاتا گر ستم گر
زُباں تک دل سے تیرا نام آتا

کبهی تو بزمِ ساقی سے اِدهر بهی
ہَوا میں جُهومتا اِک جام آتا

کہانی زندگی کی تهی تو کیسے
بَھلا اِک موت سے اَنجام آتا

عظیم اُن شہرتوں کی بَستیوں سے
کوئی تو لَوٹ کر بدنام آتا



 
آخری تدوین:
جناب عظیم شہزاد صاحب۔
سب سے پہلے ایک گزارش کروں گا، جو میرے نزدیک بہت اہم ہے۔ اپنے ہر فن پارے کے لئے ایک نیا تاگا چلانے کی بجائے اگر آپ ایک تاگا مختص کر لیں اور اس میں اپنے فن پارے باری باری لگاتے رہیں تو کئی لحاظ سے بہتر ہوگا:
1۔ ویب سائٹ پر جگہ بچے گی۔
2۔ آپ کے فن پارے یک جا جمع ہوتے رہیں گے۔
3۔ آپ کے ایک فن پارے پر بات کرنے والے کو موقع مل جائے گا کہ آپ کے دیگر فن پاروں کو بھی دیکھ سکے، اس سے ایک بہتر رائے قائم ہو سکتی ہے۔
4۔ خود آپ کو اپنے ادبی سفر کا تجزیہ کرنا آسان ہو گا، یعنی بہتر خود تنقیدی کا عمل۔
توجہ فرمائیے گا۔

نقل بخدمت جناب الف عین صاحب، اس امید پر کہ آپ اتفاق فرمائیں گے۔
 
Top