عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

دین و دنیا بُھلا کے بیٹھے ہیں
عشق مذہب بَنا کے بیٹھے ہیں

اپنی مَیت سَجا کے بیٹھے ہیں
اِک تماشا لَگا کے بیٹھے ہیں

خُون اپنا بہا کے بیٹھے ہیں
آپ خُود کو مِٹا کے بیٹھے ہیں


دل جلانے کی بات کرتے ہو
ہم تو خُود کو جَلا کے بیٹھے ہیں

تیرے ہجراں میں کون جانے ہم
کتنے صدمے اُٹها کے بیٹھے ہیں

بُهول بیٹھے ہیں تیرے وعدوں کو
اپنے وعدے بُھلا کے بیٹھے ہیں

زندگی میں عظیم کیا کہئے
چند خُوشیاں مَنا کے بیٹھے ہیں

غزل میں کوئی قابلِ گرفت خامی بھی نہیں اور کوئی بہت بڑی خوبی بھی نہیں۔
ہاں اس امر کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ ادھر غزل کہی، ادھر پوسٹ کر دی۔ یہ میرا احساس ہے، ضروری نہیں کہ فی الواقع ایسا ہوا ہو۔
اپنا کوئی بھی فن پارہ دوستوں کے سامنے رکھنے سے پہلے بہت ضروری ہے کہ کچھ وقت اس کے ساتھ گزارئیے، اس میں کوئی قطع و برید ایسی سوجھ جائے جو بہتری لا سکے تو کر دیجئے۔ زبان و بیان کی صحت کا خیال رکھا کیجئے، کہ آج کے ایک شاعر کا کہا کل کے زبان دان کے لئے حوالہ بنے گا۔ کسی دوسرے کا مصرع اگر استعمال کرنا ہے تو اُس کو واوین میں لکھ دیجئے، کہ آپ کا قاری جان جائے ۔

آشیانے کی بات کرتے ہو
دل جلانے کی بات کرتے ہو

حادثہ تھا گزر گیا ہو گا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو

ہم کو اپنی خبر نہیں یارو

تم زمانے کی بات کرتے ہو



یہ غزل غالباً ناصر کاظمی کی ہے، ریڈیو اور ٹی وی پر بہت گائی گئی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں بھی کچھ اسی قسم کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا ۔ زود گوئی پر گوئی اگرچہ سلیس و رواں لہجہ بھی رکھے اور قابل تصحیح کوئی امر نہ بھی ہو لیکن تھوڑی توجہ فکر ی گہرائی پر یا کسی تخیل کی نزاکت یا کسی حلمت و دانائی کوئی خاص انداز بیان وغیرہ کے تصوّر پر فوکس لی جائے تو شاعری ذرا جاندار اور نسبتاً زیادہ اپیل کرنے والی ہو سکتی ہے۔
اگر چہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر شعر ہی بیت الغزل کے مقام کا حامل ہو جائے ۔تاہم اس کا خیال رکھا جائے تو بہتر ہو۔ باقی قیمتی مشورے تو مل ہی چکے ہیں۔
 

x boy

محفلین
مجھے شعر و شعاری سے خاص لگاؤ نہیں لیکن اس معاملے میں اچھائی نظر آئی ہے اس لئے
میں نے الحمدللہ پسند کیا،
باقی الف ب سے ے تک جاننے والے بتائینگے کہ کی خامی ہے کیا درست ہے
جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
یہی میں بھی اکثر کہتا رہتا ہوں عظیم شہزاد سے کہ عروضی اعتبار سے اکثر اشعار درست ہوتے ہیں، لیکن مفہوم کے اعتبار سے کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ یا بہت کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اکثر کچھ مشورے بھی دئے ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے کیا عمل کیا ہے ان پر، متفق ہیں یا نہیں، یا بہتری کے کسی مشورے کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ یا کم از کم غزل کی فائنل شکل ہی یہاں دوبارہ شئر کریں
 

عظیم

محفلین
میری جهولی میں کچھ شرارے ہیں
کچھ ہیں میرے تو کچھ تمہارے ہیں

پوچھتے
کیا ہو آو دیکهو تو
کیسے ہجراں میں دن گزارے ہیں

داغ دامن کے دهو لئے لیکن
داغ دل کے بہت نکهارے ہیں

اس کی نظروں کا تیر چلتے ہی
سب نے سینوں کے رخ سنوارے ہیں

ہم نے ہمدم کبهی یہ سوچا ہے ؟
ہم ہی دهرتی پہ کیوں پدهارے ہیں

رب کی لعنت ہو اُن بزرگوں پر
جن نے جاتے ہوئے پکارے ہیں


چلتے چلتے عظیم سوجهی کیا
آپ جو یوں یہاں پدهارے ہیں

محمد عظیم.
28 جنوری 2014

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اداس شب کے ستارو سلام کہتا ہوں
مری تلاش کے مارو سلام کہتا ہوں

جلا دیا ہے چمن دل کی ہر تمنا کا
مرے چمن کی بہارو سلام کہتا ہوں

دعائے خیر ہی دیتا ہوں بد دعاوں میں
مرے حبیب کے یارو سلام کہتا ہوں

عظیم بات نہ بنتی ہے کچه بنانے سے
گلی گلی میں پکارو سلام کہتا ہوں

29 جنوری 2014
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ترا شکریہ غم دو جہاں غم آ گہی سے ملا دیا
ترا شکریہ غم دو جہاں مجهے آج تو نے رلا دیا

ترا شکریہ غم دو جہاں کہ نصیب میرا جگا دیا
ترا شکریہ غم دو جہاں غم آ گہی سے ملا دیا

ترا شکریہ غم دو جہاں مجهے ظلم سہنا سکها دیا
ترا شکریہ غم دو جہاں مجهے ظالموں کا پتا دیا

ترا شکریہ غم دو جہاں کہ ابد کی نیند سلا دیا
ترا شکریہ غم دو جہاں تری خیر ہو کہ جگا دیا
 

عظیم

محفلین


تیری چوکهٹ پہ سر جهکاوں گا
تیرے قدموں میں جاں سے جاوں گا

تجه سے وعدہ ہے تیرے عاشق کا
چاک سینہ بهی کر دکهاوں گا

آگ دل میں لگائی وہ تو نے
روز محشر جسے بجهاوں گا


تو جو کہہ دے تو خون رووں گا
تو جو کہہ دے تو مسکراوں گا

مجه کو ڈر ہے تلاش میں تیری

گهر کا رستہ ہی بهول جاوں گا

تو ہی کہہ دے اے میری منزل کب
تیری جانب پلٹ کے آوں گا

آج سوچا تها اس کی خاطر میں
ہوش باقی جو ہے گنواوں گا

دل کو اپنے عظیم وحشی ہوں
وہ نہ آیا تو کاٹ کهاوں گا


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
قریب وقت وہ آیا خدا خدا کر کے
ملے گا دشت میں سایہ خدا خدا کر کے

سکون دل کا گنوایا صنم صنم کرتے
قرار دل کا ہے پایا خدا خدا کر کے

سبق وہی تو ہے مسلم جسے معلم نے
تجهے پڑها کے سکهایا خدا خدا کر کے

کیا ہے دوست رقیبوں کو آج پهر ہم نے
ہے دشمنوں نے ستایا خدا خدا کر کے

جهکائیے نہ زمانے کے سامنے پهر سے
ہے اپنا آپ اٹهایا خدا خدا کر کے

عظیم، مفلس و لاچار ہائے بے چارہ
ہے راہ راست پہ آیا خدا خدا کر کے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
خون آنکهوں کے رستے بہا دیجئے
اک نئے ڈهنگ سے ہم کو رلا دیجئے

مار ڈالیں نہ یادیں گئے وقت کی
گزری باتوں کو دل سے بهلا دیجئے

اب تو رخت سفر بهی میسر نہیں
حوصلہ اپنے قدموں کو کیا دیجئے

گر دعاوں سے تاثیر چهننے لگے
مخلصی دل کی تهوڑی بڑها دیجئے

اس برس پهر تمنا نہ کی جائے گی
پچهلے سالوں کے وعدے نبها دیجئے

چیختی ہیں صدائیں سر عرش پر
اب خدارا لبوں کو ہلا دیجئے

کچه نہیں ہے ہماری خبر بهی ہمیں
آپ ہم کو ہمارا پتا دیجئے

بن کہے وہ نہ سمجهے تو کیا فائدہ
ایسے جزبوں کو سولی چڑها دیجئے

ہم بهی کربل کے پیاسے چلے آئے ہیں
جام وحدت ہمیں بهی پلا دیجئے

نام سے کوئی ہوتا نہ ہوگا عظیم
عمل سے خود کو اونچا بٹها دیجئے



 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ڈھنگ میں ن معلنہ ہوتا ہے، یہاں ڈھب کر دیا جائے۔
مقطع کا پہلا مصرع بھی دیکھو، عمل کا م ساکن تقطیع ہو رہا ہے
 

عظیم

محفلین
یہاں حاصل نہیں ہوتا، جو کچه مطلوب ہوتا ہے
ہماری خواہشوں کا یاں، تماشا خوب ہوتا ہے

نظر کے سامنے رکها ہے جو کچه، خوبصورت ہے
مگر جو کچه نہاں ہے وہ، بہت ہی خوب ہوتا ہے

تجهے اک راز بتلاوں ، اے میرے ہم نظر سن تو
نظر کے سامنے ہر پل مرا محبوب ہوتا ہے

سنا ہے جس کی خوشیوں میں ذرا سا کم اضافہ ہو
پهر اس کے غم کے زمرے میں اضافہ خوب ہوتا ہے

نہ خود میں جهانک کر دیکها نہ خود کی ذات پہچانی
عظیم اس شخص نے بولا ، ہراک معیوب ہوتا ہے

 
آخری تدوین:
Top