محمد یعقوب آسی
محفلین
غزل میں کوئی قابلِ گرفت خامی بھی نہیں اور کوئی بہت بڑی خوبی بھی نہیں۔دین و دنیا بُھلا کے بیٹھے ہیں
عشق مذہب بَنا کے بیٹھے ہیں
اپنی مَیت سَجا کے بیٹھے ہیں
اِک تماشا لَگا کے بیٹھے ہیں
خُون اپنا بہا کے بیٹھے ہیں
آپ خُود کو مِٹا کے بیٹھے ہیں
دل جلانے کی بات کرتے ہو
ہم تو خُود کو جَلا کے بیٹھے ہیں
تیرے ہجراں میں کون جانے ہم
کتنے صدمے اُٹها کے بیٹھے ہیں
بُهول بیٹھے ہیں تیرے وعدوں کو
اپنے وعدے بُھلا کے بیٹھے ہیں
زندگی میں عظیم کیا کہئے
چند خُوشیاں مَنا کے بیٹھے ہیں
ہاں اس امر کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ ادھر غزل کہی، ادھر پوسٹ کر دی۔ یہ میرا احساس ہے، ضروری نہیں کہ فی الواقع ایسا ہوا ہو۔
اپنا کوئی بھی فن پارہ دوستوں کے سامنے رکھنے سے پہلے بہت ضروری ہے کہ کچھ وقت اس کے ساتھ گزارئیے، اس میں کوئی قطع و برید ایسی سوجھ جائے جو بہتری لا سکے تو کر دیجئے۔ زبان و بیان کی صحت کا خیال رکھا کیجئے، کہ آج کے ایک شاعر کا کہا کل کے زبان دان کے لئے حوالہ بنے گا۔ کسی دوسرے کا مصرع اگر استعمال کرنا ہے تو اُس کو واوین میں لکھ دیجئے، کہ آپ کا قاری جان جائے ۔
آشیانے کی بات کرتے ہو
دل جلانے کی بات کرتے ہو
حادثہ تھا گزر گیا ہو گا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو
ہم کو اپنی خبر نہیں یارو
تم زمانے کی بات کرتے ہو
یہ غزل غالباً ناصر کاظمی کی ہے، ریڈیو اور ٹی وی پر بہت گائی گئی ہے۔
دل جلانے کی بات کرتے ہو
حادثہ تھا گزر گیا ہو گا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو
ہم کو اپنی خبر نہیں یارو
تم زمانے کی بات کرتے ہو
یہ غزل غالباً ناصر کاظمی کی ہے، ریڈیو اور ٹی وی پر بہت گائی گئی ہے۔