عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
بدلے گی رخ یہ اک دن تصویر دیکه لینا
ہم خواب دیکه جائیں تعبیر دیکه لینا

کب تک سماعتوں پر پہرا یہ کفر دے گا
اک دن سنائی دے گی تکبیر دیکه لینا

جب بهی دکهائے دیں گے تم کو یہ لفظ جاناں
روئے گی تب ہماری تحریر دیکه لینا

خوشیوں کے شہر غم کا چرچا کریں گے جا کر
خوشیوں میں غم کی ہوگی تشہیر دیکه لینا

کس سے عظیم سیکها تم نے یہ فن بتاو
غزلوں میں آپ اپنی تقدیر دیکه لینا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
آ کر مرے مزار پہ اک بار دیکھنا
مر کر بھی جی اُٹھیں گے یہ بیمار دیکھنا

ہائے نصیب اُن کے، ہے جن کو ہوا نصیب
قبل از دمِ اخیر رخ یار دیکهنا

شاید یہی عبارتِ قسمت میں تها لکها
تیرے نگر کے کوچہ و بازار دیکھنا

گر میں نہیں رہوں بھی فسانے میں بُود کے
آئیں گے مجھ سے اور بھی کردار دیکھنا

کہہ دو عظیم اُن سے بہت سُن لیا جنہیں
اب تم ہماری شوخیِ گفتار دیکھنا

 

عظیم

محفلین

سپرد خاک خود کو کر چکے ہیں
نہیں مرنا تها لیکن مر چکے ہیں

بتائیں کیا خطائیں جو نہیں تهیں
خطاوں میں کہیں وہ کر چکے ہیں

چهلک جانے دو ان آنکهوں سے آنسو
کہ اب غم کے پیمانے بهر چکے ہیں

ہم اتنی بار توبہ کر رہے ہیں
کہ جتنی بار پہلے کر چکے ہیں

عظیم اب خوف رکهئے آسماں کا
زمیں سے لوگ کتنا ڈر چکے ہیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کس اذیت سے ہم گزرتے ہیں
روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں

تجه کو میری تلاش ہے غافل ؟
پہلے خود کو تلاش کرتے ہیں

نام تیرا ہی لب پہ آتا ہے
ہم کہ تجه کو ہی یاد کرتے ہیں

یاد کیسی کہ یاد کرتے ہی
اپنے ہونے سے بهی مکرتے ہیں

تم تو مجرم ہو میرے مزہب کے
لوگ تم کو سلام کرتے ہیں

نام آئے نہ کیوں ہمارا پهر
زکر تیرا جو عام کرتے ہیں

عیب چهپتے ہیں کیا چهپانے سے
حرف کاغذ پہ بن ابهرتے ہیں

وہ تو بنتے ہیں لفظ اے شاعر
تجه کو لگتا ہے نظم کرتے ہیں

اس نے بولا فنا ہوا ہوں میں
ہم کہ اپنی بقا سے ڈرتے ہیں

دیکه لینا وہ وقت آ پہنچا
اب تو گهڑیوں میں دن گزرتے ہیں

روز خود کو سمیٹتے ہیں ہم
روز تیرے لئے بکهرتے ہیں

تم سے کتنے اجڑ گئے ظالم
تم سے کتنے یہاں سنورتے ہیں

چهوڑ جاتے ہو جب کبهی تنہا
تب تو خود سے عظیم ڈرتے ہیں

پوچهنا وقت کے خداوں سے
کس خدائی پہ مان کرتے ہیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مجهے پهر سے رلانے آ گئے ہو
کہ میرا دل جلانے آ گئے ہو

خدارا لوٹ جاو کیوں مجهے تم
نئے سپنے دکهانے آ گئے ہو

تمہیں کس نے اجازت دی ہے ظالم
جو میرا دل دکهانے آ گئے ہو

ابهی تک یاد ہیں وہ لفظ تیرے
جنہیں دل سے بهلانے آ گئے ہو

چلے جاو کہ میری قبر پر تم
پهر اشکوں کو بہانے آ گئے ہو

مجهے خود سے بهی نفرت ہو چکی ہے
کسے اپنا بنانے آ گئے ہو

مرا کیا حال ہے پوچهو کسی سے
تم الٹا کیوں بتانے آ گئے ہو

میں کیونکر اپنے غم کا ساز چهیڑوں
خوشی کے گیت گانے آ گئے ہو

عظیم اب موت کے نزدیک ہے تم
اسے جینا سکهانے آ گئے ہو
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
رونقیں دنیا کی کهاتی ہیں مجهے
خلوتیں میری مٹاتی ہیں مجهے

میں کوئی عاشق نہیں تیرا اگر
کیوں تری راہیں بلاتی ہیں مجهے

روک لو ان بارشوں کو ، ہجر کی
آگ میں جلنا سکهاتی ہیں مجهے

جب بهی آتی ہیں ہوائیں اس طرف
ساته شمع کے بجهاتی ہیں مجهے

پهر وہی ظالم گهٹائیں چها گئیں
جو نہ برسیں تو رلاتی ہیں مجهے

زندگی کیا پهر سے ملنی ہے ابهی
کچه پناہیں سی چهپاتی ہیں مجهے

میں نے خود کو دور رکها تم سے پر
دوریاں نزدیک لاتی ہیں مجهے

مر نہ جاوں آج میں اس خوف سے
وحشتیں جینا سکهاتی ہیں مجهے

ہو گیا ہوں جس کے غم میں مبتلا
اس کی خوشیاں اب مناتی ہیں مجهے

خواہشیں جس کی سکون قلب ہیں
حسرتیں اس کی رلاتی ہیں مجهے

معتبر تو ہو گیا ہوں آج ، پر
کل کی باتیں کاٹ کهاتی ہیں مجهے

کیا کہوں اس درد کی شدت کا حال
شدتیں کہنا سکهاتی ہیں مجهے

ان کے پہلو میں سلائیں گی عظیم
جن کی یادیں اب جگاتی ہیں مجهے

 
آخری تدوین:
محترمی عظیم شہزاد صاحب۔ اسلوب آپ کا بہت عمدہ ہے، تاہم محنت کی کمی کا سا احساس ہو رہا ہے۔
ایک تو یہ ہے کہ شعر چاہے تعداد میں کم کہئے مگر کوشش کیجئے کہ وہ بھرپور ہوں۔ آپ کا سنجیدہ قاری آپ سے ’’بیانِ محض‘‘ کی توقع نہیں رکھتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ آپ فکری اور محسوساتی سطح پر بھی اس کو کچھ نہ کچھ عطا کریں، اس کی آپ کے ساتھ کچھ نہ کچھ سانجھ بنے اور یہ سانجھ جتنی زیادہ ہو گی، آپ کا شعر اتنا ہی مؤثر اور بھرپور ہو گا۔
 
ایک آدھ جگہ تھوڑی سی بے احتیاطی ہوئی ہے، نوٹ فرما لیجئے۔

جب بهی آتی ہیں ہوائیں اس طرف
ساتھ شمع کے بجهاتی ہیں مجهے
اس غزل کی بحر ہے: فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (بحر رمل مسدس محذوف)۔ آپ نے ’’شمع‘‘ کو فعلن کے وزن پر باندھا ہے جو درست نہیں۔ یہ لفظ (شمع) اصولی طور پر ’’ فِعل ‘‘ کے وزن پر ہے: علم، عشق، صبر، وصل، حکم، دار، دیر؛ وغیرہ۔
 
بعض اشعار مجھ پر کھل نہیں پائے۔ مثلاً:
مر نہ جاوں آج میں اس خوف سے
وحشتیں جینا سکهاتی ہیں مجهے​

ایسا لگ رہا ہے کہ دو الگ الگ مصرعے یک جا لکھ دیے گئے۔ توجہ فرمائیے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی سے متفق ہوں، مزید دو اشعار میں ’پر‘ بمعنی ’مگر، لیکن‘ اچھا نہیں لگتا۔ اس کی جگہ آسانی سے مگر کیا جا سکتا ہے، جیسے
خود کو تم سے دور ہی رکھا مگر
دوسرے شعر میں ’آج پرّ کی جگہ ’اب مگر‘
 

عظیم

محفلین
آگ دل میں لگا کے دیکهو تو
آپ خود کو جلا کے دیکهو تو

تجه سے ہمدم ہے التجا میری
راہ الفت میں آ کے دیکهو تو

بهول جاو گے روز محشر کو
تم جو خود کو بهلا کے دیکهو تو

ایک ناصح نے یہ نصیحت کی
سچ سے رشتہ نبها کے دیکهو تو

اس کی گلیوں میں غم نہیں ملتے
اس کی گلیوں میں جا کے دیکهو تو

لاش اپنی گهسیٹ لاوں گا
در پہ اپنے بلا کے دیکهو تو

میں نے مانا عزیز ہے لیکن
تم یہ دنیا بهلا کے دیکهو تو

لوگ کرتے ہیں صبر کی تلقین
ان سے کہئے کرا کے دیکهو تو

بات کڑوی ہے پر یہی سچ ہے
لاکه چہرے خدا کے دیکهو تو

اس زمیں پر ذرا کبهی اپنی
تم بهی نظریں جهکا کے دیکهو تو

دیکهئے کہنے دیجئے دل کی
یوں نہ کہئے سنا کے دیکهو تو

وہ سمجهتے ہیں گر تمہاری بات
قیس ان کو بتا کے دیکهو تو

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یقیں نہ ہوتا گماں نہ ہوتا
کوئی کسی کا یہاں نہ ہوتا

نظر نظر نے فلک تها تکنا

سنو! جو عشق بتاں نہ ہوتا

کہاں نہ ہوتا مرا یہ ماتم
مرا یہ گریہ کہاں نہ ہوتا

اگر تها اتنا عجیب منظر
تو کاش مجه پر عیاں نہ ہوتا

مجهے بتاتا اگر وہ حاسد
جہاں وہ جاتا وہاں نہ ہوتا

جلا دیا دل تو کیوں یہ سوچوں
عظیم اتنا دهواں نہ ہوتا

 
آخری تدوین:
یقیں نہ ہوتا گماں نہ ہوتا
کوئی کسی کا یہاں نہ ہوتا

یقیں نہ ہوتا، گماں نہ ہوتا
جو حال اپنا بیاں نہ ہوتا


نظر نظر نے فلک تها تکنا
سنو! جو عشق بتاں نہ ہوتا
نظر نظر دیکھتی خلا میں
اگر یہ عشقِ بتاں نہ ہوتا


کہاں نہ ہوتا مرا یہ ماتم
مرا یہ گریہ کہاں نہ ہوتا

بجا جو ہوتا وفا کا ماتم
تو میرا گریہ نہاں نہ ہوتا


اگر تها اتنا عجیب منظر
تو کاش مجه پر عیاں نہ ہوتا

وہ اس قدر تھا مہیب منظر
کہ کاش مجھ پر عیاں نہ ہوتا


مجهے بتاتا اگر وہ حاسد
جہاں وہ جاتا وہاں نہ ہوتا

میں جانتا گر کہ وہ ہے حاسد
تو وہ ہمارے میاں نہ ہوتا


جلا دیا دل تو کیوں یہ سوچوں
عظیم اتنا دهواں نہ ہوتا

جلا اگر ہوتا دل ہمارا
تو آہ اٹھتی دھواں نہ ہوتا



آج یہ فقیر وہ کچھ کر گزرا جو کبھی نہ کیا تھا۔
فقط : محمد یعقوب آسی

جناب الف عین صاحب۔
 

عظیم

محفلین
جہاں کے قدموں میں آ گرے ہیں
تمہاری نظروں سے کیا گرے ہیں

اسی کے دم سے ہی اٹه سکیں گے
ہم آج جس کے بنا گرے ہیں

 
Top