عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
یقیں نہ ہوتا گماں نہ ہوتا
تو حال دل کا بیاں نہ ہوتا

نظر نظر دیکهتی خلا میں
اگر یہ عشق بتاں نہ ہوتا

بجا جو ہوتا وفا کا ماتم
تو میرا گریہ نہاں نہ ہوتا

وہ اس قدر تها مہیب منظر
کہ کاش مجه پر عیاں نہ ہوتا

میں جانتا گر کہ وہ ہے حاصد
تو وہ ہمارے میاں نہ ہوتا

جلا اگر ہوتا دل ہمارا
تو آہ اٹهتی دهواں نہ ہوتا


 
آخری تدوین:
میں جانتا گر کہ وہ ہے حاصد
تو وہ ہمارے میاں نہ ہوتا

حاسد کے ہجے ٹھیک کر لیجئے۔ اس میں ایک اور تبدیلی اگر ہو جائے ؟؟؟؟

میں جانتا گر کہ ہے وہ حاسد
ترے مرے درمیاں نہ ہوتا

۔۔۔۔
 

عظیم

محفلین
یقیں نہ ہوتا گماں نہ ہوتا
تو حال دل کا بیاں نہ ہوتا

نظر نظر دیکهتی خلا میں
اگر یہ عشق بتاں نہ ہوتا

بجا جو ہوتا وفا کا ماتم
تو میرا گریہ نہاں نہ ہوتا

وہ اس قدر تها مہیب منظر
کہ کاش مجه پر عیاں نہ ہوتا

میں جانتا گر کہ ہے وہ حاسد
ترے مرے درمیاں نہ ہوتا

جلا اگر ہوتا دل ہمارا
تو آہ اٹهتی دهواں نہ ہوتا​
 

عظیم

محفلین




ایک دھوکا سا زمانے کو دیئے جاتے ہیں
ہم جو مرنے کی تمنا میں جیئے جاتے ہیں

لوگ آینگے وہاں فیض کے منگتے لاکھوں
ہم جہاں دفن محبت کو کیئے جاتے ہیں

سامنے رکھ کے وہ ساغر کو یہ بولے ہم سے
جام الفت کے نگاہوں سے پیئے جاتے ہیں

لے کے آئے تھے ستاروں کی تمنا دل میں
جھولیاں بھر کے شراروں سے لیئے جاتے ہیں

ہم نہ سمجھے تھے نہ سمجھے نہ سمجھ پائیں گے
کس طرح زخم محبت کے سیئے جاتے ہیں

 

عظیم

محفلین
ہر خُوشی غم میں بدلتی جا رہی ہے
زِندگی کی شام ڈهلتی جا رہی ہے

اِک تَمنا ہے جو دِل میں جَل رہی ہے
اِک تمنا ہے کہ جلتی جا رہی ہے

ضبط لازم ہے مگر اس ہجر میں ۔تو
جانِ جاناں ! جاں نِکلتی جا رہی ہے

ہائے ! مجبُورئ دل کو مارتا ہُوں
پر یہ کم بخت اور پلتی جا رہی ہے

اِس قدر حِدت دی جذبوں کو خدایا
رُوح تک میری پگهلتی جا رہی ہے

زِندگی اِک چال چلتی آ رہی ہے
موت بهی اک چال چلتی جا رہی ہے

عالَمِ وحشت میں مُجھ کو اک تمہاری
دِید کی حسرت نِگلتی جا رہی ہے

دیکهئے اَوروں کی جب جب موت صاحِب
شُکر کیجئے ہم سے ٹَلتی جا رہی ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

ہم سے تیرے ہجر کی گَهڑیاں گِنی جاتی نہیں
وقت کی آہیں
کَراہیں۔ اَب سُنی جاتی نہیں

کر گئے جو نام۔ راہِ عشق میں ۔کیا لوگ تهے
ہم کِدهر جائیں کہ راہیں تک چنُی جاتی نہیں

مَست نظروں سے ہم اُن کی- مستیوں میں کهو گئے
اپنی سوچیں بُن رہے ہیں پر بُنی جاتی نہیں

دِل لگی بهی کیا بَلا ہے۔ رُوح تک لگ جائے آگ!
اور یہ آتش وہ ہے جس کی سَنسَنی جاتی نہیں

زاہِدوں کو پِیر مانا جا رہا ہے ۔ عابدو!
حَیف پِیری میں بهی اِن کی- کم سِنی جاتی نہیں

خُود گواہی دیں گے اپنے حق میں جاکر ہم ۔عظیم
جرُم ِاُلفت پر رقیبوں کی سُنی جاتی نہیں

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تقطیع کر کت دیکھیں، ہر پہلا مصرع فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہے، جب کہ دوسرا فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن ہے۔
اک مری روح۔۔۔۔ میں رُح تقطیع ہوتا ہے جو غلط ہے۔
 

عظیم

محفلین
اِک مُسلسل عذاب ہے جاناں !
عشق خانہ خراب ہے جاناں !

موت برحق ہے۔کیوں نہیں آتی؟
غم کا کرنا حساب ہے جاناں !

میری قسمت میں تم نہیں شامل
میری قسمت خراب ہے جاناں !

ڈر ہے لوگوں کا لوگ پوچهیں گے
کس کا گریہ جناب ہے- جاناں !

دِل کی فطرت میں ٹُوٹنا ہی ہے
توڑ ڈالو ثواب ہے جاناں !

آکے دیکهو تمہارے شاعر کی
ہر حقیقت بھی خواب ہے جاناں !

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

عشق کی حد سے گُزرنا چاہتا ہُوں
روز جینا ۔ روز مرنا چاہتا ہُوں

بادلوں کو باندهنے کی آرزو ہے
اور ہَوائیں قید کرنا چاہتا ہُوں

شوق ِنظارہ کی حد کیا پوچهتے ہو
آئنے میں خُود اُترنا چاہتا ہُوں

مَیں کوئی بُهولا ہُوا راہگیر ہُوں اور
راستوں میں ہی بکهرنا چاہتا ہُوں

درد کی شدت کا چارہ کر تو لُوں پر
اب نہیں کرنا نہ کرنا چاہتا ہوں

صاحب ِکون و مکاں سے ہُوں مخاطِب
اور خُود سے بھی مُکرنا چاہتا ہُوں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اِس دِلِ غم کوش کو۔ کیوں شاد رکھوں
کِس کی حسرت اِس میں تیرے بعد رکھوں

تُم نہیں کرتے اگر عہدِ وفا تو
مُجھ پہ لازِم کیوں کہ وعدہ یاد رکھوں

لُٹ چُکی دنیا مری اَب کِس کی خاطر
دَشت و صحرا کو کہو ۔ آباد رکھوں

اِنتہائے شوق ! اپنی اِبتدا کو
تُم سے پہلے یا تُمہارے بعد رکھوں

زِندگی کی راہ میں بھٹکا ہُوا ہُوں
رہنماوٗں کا کہا کیوں یاد رکھوں

اُس کی خواہش کے نہیں قابل ہُوں صاحب
بے سبب خُود کو نہ مَیں ناشاد رکھوں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
خالقِ کون و مکاں! ہستی مری بیکار ہے
موت کی چارہ گری ہے زندگی لاچار ہے !

آہ ! طالِب ہُوں میَں جس پردہ نشیں کی دِید کا

کب مُقدر میں مرے اُس شوخ کا دِیدار ہے

مر نہیں سکتا ابهی ہجراں میں تیرے گُل بَدن
اِنتقالِ ذہن سے پر رُوح تک بیزار ہے


کیا بتاوں تُم کو جاناں کِس سفر پر ہُوں چلَا
جس سفر کی راہ میں حائل دِلِ بیمار ہے ؟

اِمتحانِ شوق تها۔ اُن کا تغافل وہ جنہیں
تھا گماں کہ دو ہی دن کا بس یہ میرا پیار ہے

خاک سمجھے۔ وہ کہ جس کی آرزوئیں مر گئیں
اس کی تُربت پر جو سونے کا نسب مِینار ہے

یُوں تو کتنے دَر کُهلے ہیں اِس زمانے میں عظیم
پر مجُهے اُس کی گلی۔اُس کے ہی دَر سے پیار ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
خالقِ کون و مکاں! ہستی مری بیکار ہے
موت کی چارہ گری ہے زندگی لاچار ہے !

آہ ! طالِب ہُوں میَں جس پردہ نشیں کی دِید کا

کب مُقدر میں مرے اُس شوخ کا دِیدار ہے

مر نہیں سکتا ابهی ہجراں میں تیرے گُل بَدن
اِنتقالِ ذہن سے پر رُوح تک بیزار ہے


کیا بتاوں تُم کو جاناں کِس سفر پر ہُوں چلَا
جس سفر کی راہ میں حائل دِلِ بیمار ہے ؟

اِمتحانِ شوق تها۔ اُن کا تغافل وہ جنہیں
تھا گماں کہ دو ہی دن کا بس یہ میرا پیار ہے

خاک سمجھے۔ وہ کہ جس کی آرزوئیں مر گئیں
اس کی تُربت پر جو سونے کا نصب مِینار ہے

یُوں تو کتنے دَر کُهلے ہیں اِس زمانے میں عظیم
پر مجُهے اُس کی گلی۔اُس کے ہی دَر سے پیار ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
نہیں میرے دُکھ کی دَوا یاد رکھنا !
ہُوں روگی غمِ عشق کا یاد رکھنا !

بھلے تم بُھلا دو مری سرد آہیں
مگر اپنے دِل کی صدا یاد رکھنا !

کِسے یاد رہتے ہیں وعدے وفا کے
کہ تُم صرف اپنی جفا یاد رکھنا !

ترے دَر سے اُٹھ کر چلا جاوں گا مَیں
نہیں بخشتے گر خطا یاد رکھنا !

نہیں غم اگر یہ زمانہ بُھلا دے
مگر تُم اے جانِ وفا یاد رکھنا !


ہُوں رسوا مَیں دنیا کی سب محفلوں میں
مری خلوتوں کے خُدا یاد رکھنا !

اِنہیں تُم نظر سے گراؤ نہ صاحب

ہیں اللہ کے بندے۔ سُنا ؟ یاد رکھنا


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
میری بگڑی سنوارنے والے !
سب ہی نکلے بگاڑنے والے !

یا الہی ! رہیں سلامت وہ
دل کی دنیا اُجاڑنے والے


مات کھائی ہے دل کے ہاتھوں سے
لوٹ جائیں پچھاڑنے والے

دن ہو جیسا- گزار لیتے ہیں
رات ایسی گزارنے والے


زندہ رہنے تو دیجئے کچھ دن
کب ہیں صدیاں گزارنے والے

جیت صاحب ہوئی زمانے کی
اور زمانے ہیں ہارنے والے


 
آخری تدوین:
Top