ہم سے تیرے ہجر کی گَهڑیاں گِنی جاتی نہیں
وقت کی آہیں کَراہیں۔ اَب سُنی جاتی نہیں
کر گئے جو نام۔ راہِ عشق میں ۔کیا لوگ تهے
ہم کِدهر جائیں کہ راہیں تک چنُی جاتی نہیں
مَست نظروں سے ہم اُن کی- مستیوں میں کهو گئے
اپنی سوچیں بُن رہے ہیں پر بُنی جاتی نہیں
دِل لگی بهی کیا بَلا ہے۔ رُوح تک لگ جائے آگ!
اور یہ آتش وہ ہے جس کی سَنسَنی جاتی نہیں
زاہِدوں کو پِیر مانا جا رہا ہے ۔ عابدو!
حَیف پِیری میں بهی اِن کی- کم سِنی جاتی نہیں
خُود گواہی دیں گے اپنے حق میں جاکر ہم ۔عظیم
جرُم ِاُلفت پر رقیبوں کی سُنی جاتی نہیں
خالقِ کون و مکاں! ہستی مری بیکار ہے
موت کی چارہ گری ہے زندگی لاچار ہے !
آہ ! طالِب ہُوں میَں جس پردہ نشیں کی دِید کا کب مُقدر میں مرے اُس شوخ کا دِیدار ہے
مر نہیں سکتا ابهی ہجراں میں تیرے گُل بَدن
اِنتقالِ ذہن سے پر رُوح تک بیزار ہے
کیا بتاوں تُم کو جاناں کِس سفر پر ہُوں چلَا
جس سفر کی راہ میں حائل دِلِ بیمار ہے ؟
اِمتحانِ شوق تها۔ اُن کا تغافل وہ جنہیں
تھا گماں کہ دو ہی دن کا بس یہ میرا پیار ہے
خاک سمجھے۔ وہ کہ جس کی آرزوئیں مر گئیں
اس کی تُربت پر جو سونے کا نسب مِینار ہے
یُوں تو کتنے دَر کُهلے ہیں اِس زمانے میں عظیم
پر مجُهے اُس کی گلی۔اُس کے ہی دَر سے پیار ہے
خالقِ کون و مکاں! ہستی مری بیکار ہے
موت کی چارہ گری ہے زندگی لاچار ہے !
آہ ! طالِب ہُوں میَں جس پردہ نشیں کی دِید کا کب مُقدر میں مرے اُس شوخ کا دِیدار ہے
مر نہیں سکتا ابهی ہجراں میں تیرے گُل بَدن
اِنتقالِ ذہن سے پر رُوح تک بیزار ہے
کیا بتاوں تُم کو جاناں کِس سفر پر ہُوں چلَا
جس سفر کی راہ میں حائل دِلِ بیمار ہے ؟
اِمتحانِ شوق تها۔ اُن کا تغافل وہ جنہیں
تھا گماں کہ دو ہی دن کا بس یہ میرا پیار ہے
خاک سمجھے۔ وہ کہ جس کی آرزوئیں مر گئیں
اس کی تُربت پر جو سونے کا نصب مِینار ہے
یُوں تو کتنے دَر کُهلے ہیں اِس زمانے میں عظیم
پر مجُهے اُس کی گلی۔اُس کے ہی دَر سے پیار ہے