عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
جہاں کے نظاروں نے دهوکا دِیا ہے
چمکتے سِتاروں نے دهوکا دِیا ہے

مجهے اِس چمن کی خزاوں سے ڈر تها
مگر اِن بہاروں نے دهوکا دیا ہے

عجب ماجرا ہے ہُوئے غیر مُخلص
مگرجاں سے پیاروں نے دھوکا دِیا ہے

چلے آئے ہیں میرا ماتم منانے
مرے غم گساروں نے دهوکا دِیا ہے

کنارے پہ لاکر ڈبویا گیا ہُوں

اِلہی ! سہاروں نے دھوکا دِیا ہے

میں
سمجها نہیں بات جن کی کبهی اُن
فلک کے اِشاروں نے دهوکا دِیا ہے

تها مجبوُر اِتنا کہ دَر دَر پِھرا ہُوں
کہیں دَر کے ماروں نے دهوکا دِیا ہے؟

مری بات سنئے اجی سچ کہوں میَں

مُجھے راز داروں نے دھوکا دِیا ہے

عظیم اُس سے شکوہ کروں کس طرح مَیں
کہوں کیا، تُمہاروں نے دهوکا دِیا ہے




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
پہلی غزل کے مطلع میں ایطا ہے۔
حسب معمول بھرتی کے الفاظ بہت ہیں۔

خالق کون و مکاں ہستی مری بیکار ہے
تیری ہستی سے اگر دل کو مرے انکار ہے

دوسری شکل -

خالقِ کون و مکاں! ہستی مری بیکار ہے
موت کی چارہ گری ہے زندگی لاچار ہے

اور برائے کرم ان لفظوں کی نشاندہی فرما دیجئے جو بهرتی کے ہیں
جزاک اللہ
دعائیں
 

عظیم

محفلین
نہیں میرے دُکھ کی دَوا یاد رکھنا !
ہُوں روگی غمِ عشق کا یاد رکھنا !

بھلے تم بُھلا دو مری سرد آہیں
مگر اپنے دِل کی صدا یاد رکھنا !

کِسے یاد رہتے ہیں وعدے وفا کے
کہ تُم صرف اپنی جفا یاد رکھنا !

ترے دَر سے اُٹھ کر چلا جاوں گا مَیں
نہیں بخشتے گر خطا ۔یاد رکھنا !

نہیں غم اگر یہ زمانہ بُھلا دے
مگر تُم اے جانِ وفا یاد رکھنا !


ہُوں رسوا مَیں دنیا کی سب محفلوں میں
مری خلوتوں کے خُدا یاد رکھنا !

اِنہیں تُم نظر سے گراؤ نہ صاحب

ہیں اللہ کے بندے۔ سُنا ؟ یاد رکھنا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
میری بگڑی سنوارنے والے !
سب ہی نکلے بگاڑنے والے !

یا الہی ! رہیں سلامت وہ
دل کی دنیا اُجاڑنے والے


چُھپ کے بیٹھا ہُوں اپنے سائے سے
لوٹ جائیں پچھاڑنے والے

دن ہو جیسا- گزار لیتے ہیں
رات ایسی گزارنے والے


زندہ رہنے تو دیجئے کچھ دن
کب ہیں صدیاں گزارنے والے

جیت صاحب نصیب تھی لیکن
مجھ کو پیارے ہیں ہارنے والے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جہاں کے نظاروں نے دهوکا دِیا ہے
چمکتے سِتاروں نے دهوکا دِیا ہے

مجهے اِس چمن کی خزاوں سے ڈر تها
مگر اِن بہاروں نے دهوکا دیا ہے

عجب ماجرا ہے ہُوئے غیر مُخلص
مگرجاں سے پیاروں نے دھوکا دِیا ہے

چلے آئے ہیں میرا ماتم منانے
مرے غم گساروں نے دهوکا دِیا ہے

کنارے پہ لاکر ڈبویا گیا ہُوں
اِلہی ! سہاروں نے دھوکا دِیا ہے

میں سمجها نہیں بات جن کی کبهی اُن
فلک کے اِشاروں نے دهوکا دِیا ہے

تها مجبوُر اِتنا کہ دَر دَر پِھرا ہُوں
کبھی دَر کے ماروں نے دهوکا دِیا ہے؟

مری بات سنئے اجی سچ کہوں میَں

مرے راز داروں نے دھوکا دِیا ہے

عظیم اُس سے شکوہ کروں کس طرح مَیں
کہوں کیا، تُمہاروں نے دهوکا دِیا ہے


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اِس دِلِ غم کوش کو۔ کیوں شاد رکھوں
کِس کی حسرت اِس میں تیرے بعد رکھوں

تُم نہیں کرتے اگر عہدِ وفا تو
مُجھ پہ لازِم کیوں کہ وعدہ یاد رکھوں

لُٹ چُکی دنیا مری اَب کِس کی خاطر
دَشت و صحرا کو کہو ۔ آباد رکھوں

اِنتہائے شوق ! اپنی اِبتدا کو
تُم سے پہلے یا تُمہارے بعد رکھوں

زِندگی کی راہ میں بھٹکا ہُوا ہُوں
رہنماوٗں کا کہا کیوں یاد رکھوں

اُس کی خواہش کے نہیں قابل ہُوں صاحب
بے سبب خُود کو نہ مَیں ناشاد رکھوں








الف عین محمد یعقوب آسی فاتح سید عاطف علی مہدی نقوی حجاز محمد اسامہ سَرسَری
 

عظیم

محفلین
جو ہوں تیرے لطف و کرم کی پناہ میں
جہاں اِک تماشا ہے اُن کی نگاہ میں
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
’’اِس دِلِ غم کوش کو۔ کیوں شاد رکھوں
کِس کی حسرت اِس میں تیرے بعد رکھوں‘‘

شاد اور بعد کے قوافی؟ جناب مزمل شیخ بسمل سے رائے لیتے ہیں۔

شاد ۔۔۔۔
روی: د ساکن
ردف : الف ساکن
ماقبل : مفتوح

بعد۔۔۔۔۔
روی : د ساکن
ردف : ع ساکن
ماقبل : مفتوح

اختلاف ِ ردف کی وجہ سے غیر مقفی معلوم ہوتا ہے کیوں جی شیخ صاحب
 
’’اِس دِلِ غم کوش کو۔ کیوں شاد رکھوں
کِس کی حسرت اِس میں تیرے بعد رکھوں‘‘

شاد اور بعد کے قوافی؟ جناب مزمل شیخ بسمل سے رائے لیتے ہیں۔

جن قوافی میں ردفِ اصل موجود ہو وہاں ردف کی پابندی بھی ایسی ہی ضروی ہے جیسے حرف روی۔ بلکہ بعض آئمہ کا قول یہ ہے کہ ردف در اصل حرف روی ہے۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ردف میں اختلاف ہو تو قافیہ باقی نہیں رہتا۔ اس ضمن میں ابن رضا صاحب کا قول درست ہوتا ہے کہ

اختلاف ِ ردف کی وجہ سے غیر مقفی معلوم ہوتا ہے کیوں جی شیخ صاحب

یعنی غزل میں قوافی درست نہیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
جن قوافی میں ردفِ اصل موجود ہو وہاں ردف کی پابندی بھی ایسی ہی ضروی ہے جیسے حرف روی۔ بلکہ بعض آئمہ کا قول یہ ہے کہ ردف در اصل حرف روی ہے۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ردف میں اختلاف ہو تو قافیہ باقی نہیں رہتا۔ اس ضمن میں ابن رضا صاحب کا قول درست ہوتا ہے کہ



یعنی غزل میں قوافی درست نہیں۔
مزمل بھائی چونکہ یہ مطلع ہے تو کیا یہاں شاعر کا تصرف کام نہ آئے گا؟؟؟ کہ اس نے مطلع میں اگر حرفِ روی دال ساکن کا انتخاب کیا ہے تو حرکتِ توجیہ کی پابندی ہی نبھائی جائے ؟ نہ کہ ردف کا سوال پیدا کیا جائے؟ ہاں اگر یہ مطلع کے علادہ دیگر ابیات کا حصہ ہوتا تو تب مطلع میں منتخب کیے گئے روی و ردف کی پابندی ملحوظ ِ خاطر رکھی جاتی۔ ذرا وضاحت فرما دیجیے گا۔ شکریہ
 
Top