عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

مزمل بھائی چونکہ یہ مطلع ہے تو کیا یہاں شاعر کا تصرف کام نہ آئے گا؟؟؟ کہ اس نے مطلع میں اگر حرفِ روی دال ساکن کا انتخاب کیا ہے تو حرکتِ توجیہ کی پابندی ہی نبھائی جائے ؟ نہ کہ ردف کا سوال پیدا کیا جائے؟ ہاں اگر یہ مطلع کے علادہ دیگر ابیات کا حصہ ہوتا تو تب مطلع میں منتخب کیے گئے روی و ردف کی پابندی ملحوظ ِ خاطر رکھی جاتی۔ ذرا وضاحت فرما دیجیے گا۔ شکریہ

علمائے قوافی کے محولہ بالا دلائل کو ماننا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال در سوال
جناب ابنِ رضا کے استدلال کے مطابق یہاں صرف ’’دال ساکن‘‘ کا اہتمام لازم ہے۔ تو کیا ہم سمجھ لیں کہ اس غزل میں یہ قوافی بھی درست سمجھے جائیں گے؟ : عِید، دُود، مَرد، بَعد، بُعد، عَبد، قَید، شَہد، خَود؛ وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
’’خالقِ کون و مکاں! ہستی مری بیکار ہے‘‘
میں تو اصولی طور پر اس نظریے کے خلاف ہوں۔
نظریہ تو واقعی درست نہیں البتہ اسے اسے نظریہ نہیں " کیفیت " سے تعبیر کرکے مضمون بندی کا جواز لایا جا سکتا ہے۔بشرطیکہ انداز بیان کا کوئی پہلو ہم آہنگی کے ساتھ حامی ہو۔
نہ گلم نہ برگ سبزم نہ درخت بار دارم۔در حیرتم کہ دہقاں بہ چہ کار کشت مارا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
علمائے قوافی کے محولہ بالا دلائل کو ماننا پڑے گا۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
سوال در سوال
جناب ابنِ رضا کے استدلال کے مطابق یہاں صرف ’’دال ساکن‘‘ کا اہتمام لازم ہے۔ تو کیا ہم سمجھ لیں کہ اس غزل میں یہ قوافی بھی درست سمجھے جائیں گے؟ : عِید، دُود، مَرد، بَعد، بُعد، عَبد، قَید، شَہد، خَود؛ وغیرہ
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
یہاں از راہ کرم یہ بھی تشفی فرما دیجیے کہ کلامِ غالب میں یہ قوافی بھی موجود ہیں ؟

عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجرِ بید نہیں
سلطنت دست بَدَست آئی ہے
جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں
ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومئ جاوید نہیں
کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں

جنابِ مزمل شیخ بسمل صاحب
 
مزمل بھائی چونکہ یہ مطلع ہے تو کیا یہاں شاعر کا تصرف کام نہ آئے گا؟؟؟ کہ اس نے مطلع میں اگر حرفِ روی دال ساکن کا انتخاب کیا ہے تو حرکتِ توجیہ کی پابندی ہی نبھائی جائے ؟ نہ کہ ردف کا سوال پیدا کیا جائے؟ ہاں اگر یہ مطلع کے علادہ دیگر ابیات کا حصہ ہوتا تو تب مطلع میں منتخب کیے گئے روی و ردف کی پابندی ملحوظ ِ خاطر رکھی جاتی۔ ذرا وضاحت فرما دیجیے گا۔ شکریہ
آپ کی بات کا جواب :
علمائے قوافی کے محولہ بالا دلائل کو ماننا پڑے گا۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
سوال در سوال
جناب ابنِ رضا کے استدلال کے مطابق یہاں صرف ’’دال ساکن‘‘ کا اہتمام لازم ہے۔ تو کیا ہم سمجھ لیں کہ اس غزل میں یہ قوافی بھی درست سمجھے جائیں گے؟ : عِید، دُود، مَرد، بَعد، بُعد، عَبد، قَید، شَہد، خَود؛ وغیرہ
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

اگر مزید وضاحت کی جائے تو سمجھانے کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے:
توجیہہ کی پابندی کیا ہے؟ یعنی ساکن روی سے پہلے والی "حرکت" کی پابندی۔ اب یہاں ساکن روی اگر دال کو مانیں تو اس سے پہلے توجیہہ موجود ہی نہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے حرکت ہے ہی نہیں بلکہ ایک ساکن حرف ہے۔
اور اگر یاد اور شاد کے الف کو روی مانیں تو توجیہہ یعنی زبر میں مطابقت ہوجائے گی۔ لیکن ساتھ ہی روی کی مطابقت بھی ضروری ہوگی۔ مثلاً:
خنجر، بنجر، ازبر، دردر وغیرہ قوافی ہیں۔
ان میں "ر" حرف روی اور توجیہہ ما قبل حرکت یعنی زبر ہے۔ جس طرح اس زبر کی پابندی ضروری ہے اسی طرح اس حرف "ر" کی پابندی بھی ضروری ہے۔
تو وہاں بھی شاد اور یاد میں الف اور الف سے پہلے زبر دونوں ہی کی پابندی ضروری ہے۔ امید ہے بات واضح ہو گئی ہوگی۔
 
یہاں از راہ کرم یہ بھی تشفی فرما دیجیے کہ کلامِ غالب میں یہ قوافی بھی موجود ہیں ؟

عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجرِ بید نہیں
سلطنت دست بَدَست آئی ہے
جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں
ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومئ جاوید نہیں
کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں

جنابِ مزمل شیخ بسمل صاحب

غالب نے اس تصرف کو قدیم فارسی یا عربی کے اتباع میں روا رکھا ہے۔ انہوں نے حرف لین اور حرف مدہ کا خلط روا رکھا ہے۔ ایسا پہلے ہوتا تھا۔ لیکن بیسوی کے اوائل سے اس کو مکمل طور پر متروک جانا جانے لگا۔ ورنہ عرب میں عید اور عود کو قافیہ کرنا جائز ہے۔ یہ کام بھی اردو میں جائز نہیں۔ غالب کے یہاں اس کی بھی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اس معاملے میں غالب کو دلیل اس لیے نہیں بنایا جاسکتا کہ اس وقت یہ اصول مرتب ہو کر اس مرحلے تک نہیں پہنچے تھے۔ یہ کام بعد میں ناقدین اور حسرت موہانی و داغ دہلوی جیسے شعراء کے ہاتھوں پر پایۂ تکمیل تک پہنچا ہے۔
 

عظیم

محفلین

خواہشِ نامُراد پالی ہے
میرا ذوقِ نظر مثالی ہے

اُس کا طرزِ سِتم اَنوکھا اور

میری طرزِ اَدا نِرالی ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اب مطلع درست ہے
بھرتی کے الفاظ کو اور عدم روانی سے متاثر الفاظ خط کشیدہ کر رہا ہوں
آہ ! طالِب ہُوں میَں جس پردہ نشیں کی دِید کا
کب مُقدر میں مرے اُس شوخ کا دِیدار ہے
مر نہیں سکتا ابهی ہجراں میں تیرے گُل بَدن
اِنتقالِ ذہن سے پر رُوح تک بیزار ہے
(اس مصرع میں انتقالِ ذہن سے مطلب، ’پر روح‘ میں ’ر‘ کی تکرار مستحسن نہیں۔
کیا بتاوں تُم کو جاناں کِس سفر پر ہُوں چلَا
جس سفر کی راہ میں حائل دِلِ بیمار ہے ؟

اِمتحانِ شوق تها۔ اُن کا تغافل وہ جنہیں
تھا گماں کہ دو ہی دن کا بس یہ میرا پیار ہے

خاک سمجھے۔ وہ کہ جس کی آرزوئیں مر گئیں
اس کی تُربت پر جو سونے کا نسب مِینار ہے
ٰیہ نصب تو نہیں، جس میں ص ساکن ہوتا ہے۔
شعر سمجھ میں نہیں آیا

یُوں تو کتنے دَر کُهلے ہیں اِس زمانے میں عظیم
پر مجُهے اُس کی گلی۔اُس کے ہی دَر سے پیار ہے
یہ محض پہلی غزل مثال کے طور پر
 

الف عین

لائبریرین
ہاں، اب درست ہے، لیکن اسی کو ترمیم کرنے کی بجائے دوسرے مراسلے میں ترمیم شدہ پوسٹ کرنا چاہئے تھا، تاکہ دوسروں کو بھی کیا غلطی تھی، اس کا احساس ہوتا۔
 

عظیم

محفلین
ق

تعلق توڑ کر جائیں تو کہئے !
کہ تنہا چهوڑ کر جائیں تو کہئے !

یہ کہئے مت کہ ہم نے سچ کہا تها
کہ اَب رُخ موڑ کر جائیں تو کہئے !
۔
کہیں گے کیا وہ ہم سے اَب کہیں تو
کہِیں کا چهوڑ کر جائیں تو کہئے !

نہ اُس کی چاہ میں اِن راستوں پر
ہم آگے دوڑ کر جائیں تو کہئے !

عظیم اِس شوق میں دُنیا کے شاعر
ہمارا جوڑ کر جائیں تو کہئے !

 
آخری تدوین:
جوڑ کر جائیں ۔۔۔۔ یعنی مقابلہ؟ میرا نہیں خیال کہ یہ اردو اسلوب ہے۔ کسی علاقائی زبان کا اثر رہا ہو گا، مثلاً بلوچی؟
اس میں بہر حال کوئی قباحت بھی نہیں۔
 
ایک چیز ہوتی ہے ’’عجزِ بیان‘‘ ۔۔۔ بات بیان یوں ہوتی ہے کہ سمجھ میں تو آتی ہے مگر پوری طرح نہیں، ابہام بھی کوئی نہیں ہوتا، یوں کہئے کہ بیان میں کہیں کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ کچھ دوست اس کو ’’معانی در بطنِ شاعر‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں، کہ شاعر بخوبی جانتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، مگر بات قاری تک اس خوبی سے پہنچ نہیں پاتی۔
اس سے جہاں تک ہو سکے بچئے، اور اگر کسی طور بچنا ممکن نہ ہو تو اس کو سوال کے انداز میں ڈھال دیجئے۔
 
کہیں گے کیا وہ ہم سے اَب کہیں تو
کہِیں کا چهوڑ کر جائیں تو کہئے !

صنعتِ تجنیس کی کوشش پوری طرح بارآور نہیں ہو پائی، کہ شعر میں معنوی گہرائی نہیں آ سکی۔
 
Top