عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
مرے شوق کا اِمتحاں لے رہے ہو
کہ تُم جان جانِ جہاں لے رہے ہو ؟

مَیں نظروں سے سجدے کئے جا رہا ہُوں
یہ کیا ترجمہ ترجماں لے رہے ہو ؟

وہ مقصودِ دُنیا ہے ۔مسجودِ آقا !
وہ جس کا خلاصہ یہاں لے رہے ہو !

تمہی اَب بَتا دو ہُوئی جِیت کِس کی ؟
زمیں زاد سے آسماں لے رہے ہو !

مرے دَرد کی کُچھ دَوا کر سکو گے ؟
جو لُطف اِتنا اہلِ زُباں لے رہے ہو !

عظیم اِس سے پہلے کہ لے ہی چُکو تُم
تُمہیں ہم بَتا دیں کہ جاں لے رہے ہو !

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اُنہیں قصہٗ غم سُنا کر رہیں گے
بہت رو لئے اَب رُلا کر رہیں گے


تو کیا زندگی رُوٹھ جائے گی ہم سے ؟
جو اپنا جنُوں آزما کر رہیں گے

اندھیروں نے بخشے اگر کُچھ اُجالے
دیئے حسرتوں کے بجھا کر رہیں گے

بھلے چھین لو ہم سے ساری خُدائی
مگر تُم کو اپنا بَنا کر رہیں گے

یُوں روئیں گے ہم ۔ اُن کی محفل میں جاکر
کہ زخمِ جگر تک دِکھا کر رہیں گے

عظیم اِس کا وعدہ کِیا ہے کِسی سے
کہ ہم اپنا وعدہ نبھا کر رہیں گے

محمد عظیم صاحِب​






الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی مزمل شیخ بسمل ابن رضا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جو دِن دیکها نہیں تو رات کیسی ؟
میں کیا تیرے سِوا ہے ذات کیسی ؟

وہ کیا دُشمن بنے بیٹھے ہیں سارے
کہ جن میں دوستوں کی بات کیسی

خُوشی سے مُسکرائے جا رہا ہُوں
ملی غم کی مجھےسوغات کیسی

مقدر سے جو ہارے اُن کی خاطر
زمانے سے بهلا ہو مات کیسی ؟

تری محفل میں صاحب کچھ نہیں پر
لو دیکھو کر گیا ہے بات کیسی !

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

مُبارک باد دیجئے مسکرائے
بہت دُکھ درد جھیلے غم اُٹهائے

چلے تهے جِس سفر پر رہنماو !
یقیں کرلو کہ واپس لوٹ آئے

کِیا گریہ بہت ہی بے بسی پر
مقدر پر بڑے آنسو بہائے

کوئی تو جائے کہہ دے اس صنم سے !
کہ تیرے عاشقوں پر ترس آئے

ہوئے رُسوا ہوئے بدنام، یارب
زمانے سے گناہ جب بخشوائے

عظیم اِس ہجر میں کیونکر بهلا اب
تمہارے دِل کو تهوڑا چین آئے




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

مبارک باد دیجئے مسکرائے
ہماری داد دیجئے مسکرائے

کہا اُن سے یہ جب واپس ہمارا
دِلِ ناشاد دیجئے مسکرائے !



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کرم کی ترے انتہا ہو گئی
جو بخشش کے قابل سزا ہو گئی

یہاں تک کہ سائہ ٹھہرتا مرا

تب و تاب تھی جو سوا ہو گئی

مِلی یُوں نظر ہوش جاتے رہے
کہ مقبُول میری دُعا ہو گئی

گِلہ کیوں کروں اس تغافل کا جب
مرے دِل کی غفلت اَدا ہو گئی

تصوفِ صاحِب نہیں پوچھئے !
کہ اب عاجزی مدعا ہو گئی




 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
آخری غزل میں مطلع اور مقطع دیکھیں، کرم اور تصوف کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے
پہلی غزل کے کئی اشعار نا قابل فہم ہیں۔
ایک دن میں کتنی غزلیں کہہ لیتے ہو؟
 

عظیم

محفلین
آخری غزل میں مطلع اور مقطع دیکھیں، کرم اور تصوف کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے
پہلی غزل کے کئی اشعار نا قابل فہم ہیں۔
ایک دن میں کتنی غزلیں کہہ لیتے ہو؟

تصوف اسم کیفیت بمعنی تذکیہ نفس ..
ت صو وو ف صاحب

کرم کی ترے انتہا ہو گئی
جو بخشش کے قابل سزا ہو گئی

کیا عشق مجه سے خطا ہو گئی
کہ اب موت بهی بے مزہ ہو گئی

دن میں ایک بهی نہیں ..
جزاک اللہ
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
حقِ بندگی تو اَدا ہو گیا
گیا جان سے بھی تو کیا ہو گیا؟

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تماشا سا بنانے پر تُلے ہیں
وہ مُجھ کو آزمانے پر تُلے ہیں

مَیں جن کی جُستجُو میں کھو چُکا ہُوں
وہ مُجھ کو ڈھونڈلانے پر تُلے ہیں

بَدن کیا ۔ رُوح تک اَب جَل اُٹھی، پر
وہ میرا دِل جلانے پر تُلے ہیں

زمانہ دیکھتا ہے جِس نظر سے
زمانے کو دِکھانے پر تُلے ہیں

وہ جن کو ڈر خِزاوں کا رہا وہ
بہاروں سے ڈرانے پر تُلے ہیں

شریکِ جرم ہیں وہ لوگ، یارب !
جو مُجھ کو چُپ کرانے پر تُلے ہیں

کہو ! صاحِب سے تھوڑا صبر کیجئے !
عبث خود کو مٹانے پر تُلے ہیں !

نہیں اِن عاشقوں کا مول صاحب !
ترازُوئے زمانے پر تُلے ہیں !
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غم زندگی سے رہا ہو چلے
لو ہم آج ان سے جدا ہو چلے

جنہیں اس نظر سے تراشا کئے
وہی بت ہمارے خدا ہو چلے

کرو شرم چارہ گری کی ، کہ اب

ہم اپنے لئے بد دعا ہو چلے

شب وصل کا اک دیا کیا جلا
ہواوں کے ڈر سے ہوا ہو چلے

ترے عشق میں صاحب ناتواں
تهے کیا اور کیا سے ہیں کیا ہو چلے




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مرا ہر گناہ ہر خطا معاف کر دو
بہت مل چکی ہے سزا معاف کر دو

بهلا کیوں نہ دیں ہم گئی گزری باتیں
جو ہونا تها سو ہو گیا، معاف کر دو

مجهے کیا پتا تهی بلا زندگی کیا
مجهے مر کے جینا پڑا معاف کر دو

معافی کے لائق نہیں ہوں میں صاحب
مگر کہہ دیا کہہ چکا معاف کر دو

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
آخری کاوِش دِلِ ناکام کی
منزِلِ ذوقِ نظر کے نام کی

مَیں بُرا تها اُس کی نظروں میں اگر
شکل تو اَچھی تھی اِس اَنجام کی


زِندگی میں آہ ! کتنے غم سہے
دَرد کی اِک اِک گهڑی اَنجام کی

وائے حسرت ! پُوچهتا پِهرتا ہُوں مَیں
کیا لگی بولی ہمارے دام کی

کوئی بَتلا دے یہ جاتی ہیں کدهر
کاٹ کهاتی ہیں بَلائیں شام کی

دِن اُجالوں میں اندهیرا کر گئے
میرے گهر میں روشنی نے شام کی

دَرد کے قصے سُناوں میَں کِسے
آدمی کی آدمیت نام کی

اے مرے صیاد صُورت تو دِکها
قیدِ فرہنگ میں کٹے اَیام کی

جاؤ صاحب ! تم کو جانا ہے اگر
یہ رقابت اب مرے کِس کام کی

 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
وائے حسرت ! پُوچهتا پِهرتا ہُوں مَیں
کیا لگی بولی ہمارے دام کی

دَرد کے قصے سُناوں میَں کِسے
آدمی کی آدمیت نام کی

جاؤ صاحب ! تم کو جانا ہے اگر
یہ رقابت اب مرے کِس کام کی

مذکور اشعار بہت اچھے لگے۔ داد قبول کریں۔
باقی سب مہمل ہیں (گستاخی معاف) وضاحت اساتذہ کرام فرما دیں گے۔
 

عظیم

محفلین
وائے حسرت ! پُوچهتا پِهرتا ہُوں مَیں
کیا لگی بولی ہمارے دام کی

دَرد کے قصے سُناوں میَں کِسے
آدمی کی آدمیت نام کی

جاؤ صاحب ! تم کو جانا ہے اگر
یہ رقابت اب مرے کِس کام کی

مذکور اشعار بہت اچھے لگے۔ داد قبول کریں۔
باقی سب مہمل ہیں (گستاخی معاف) وضاحت اساتذہ کرام فرما دیں گے۔


جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین
طاقِ نسیاں ! نہ بُهول جاؤں مَیں
اُن کا اِحساں نہ بُهول جاؤں مَیں

مُجھ کو ڈَر ہے کہ، اے جہاں والو!
شکلِ اِنساں نہ بُهول جاؤں مَیں

عین مُمکن ہے بُهول جاؤں پر
اپنا اِیماں نہ بُهول جاؤں مَیں

بزم ِدنیا میں آسماں والو !
دِل کا مہماں نہ بُهول جاؤں مَیں

بُهول جانے دو رسمِ دُنیا کو
درسِ قُرآں نہ بُهول جاؤں مَیں

صاحبِ دِل گُداز کیا کہئے !
اُس کا اَرماں نہ بُهول جاؤں مَیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دردِ دِل کی دَوا نہیں ملتی
عشق والو ! شِفا نہیں ملتی

مِل تو جائے گی زندگی لیکن
غم میں اُن کے بَقا نہیں ملتی

روزِ محشر میں چیخ اُٹهوں گا
میری شَرم و حَیا نہیں ملتی

آہ! نُدرت پسند لوگوں سے
پچھلی طرزِ اَدا نہیں ملتی

وہ جو بیٹهے ہیں اَوٹ میں چُهپ کر
اُن کی صورت کجا نہیں ملتی ؟

 
آخری تدوین:
Top