عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
حسرتِ دیدار مر نہ جاوں مَیں
شوخئ انکار مر نہ جاوں میں

اے دلِ بیمار مر جاوں نہ میں
وقت کی رفتار مر نہ جاوں میں

دیدئہ غم خوار مر نہ جاوں میں
دیکھ لے اک بار مر نہ جاوں میں

خوبئ رخسار مر نہ جاوں میں
چوم لوں اک بار نہ مر جاوں میں

سختئ گفتار مر نہ جاوں میں
خواہش اظہار مر نہ جاوں میں

خالقِ انوار مرنہ جاوں میں
روضئہ سرکار مر نہ جاوں میں

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عزیزی ابن رضا کی بات درست ہے۔دام کی بولی غلط ہے۔ ہاں ’نام کی بولی‘ کیا جا سکتا ہے
پہچان ہندی النسل لفظ ہے، اس کو غنہ کرنے کی اجازت نہیں ہے جو فارسی ترکیب ہے۔ آسماں سے آسماں، گمان سے گماں۔ تو فارسی الفاظ ہیں، اور غنہ کرنا درست ہے۔ پہچان کو نہیں
 

عظیم

محفلین
تِرے دَر سے اُٹھ کر کِدهر جاوں مَیں
نہیں اِس سے بہتر کہ مَر جاوں میں ؟

کِسے ہے تمنائے دُنیا کہو !

گزرنا ہے آخر گزر جاوں میں

اُنہیں کیا دِکهاوں میں زخمِ جگر
نہ کچھ کہہ سکوں واں اگر جاوں میں

نہ رووں نصیبوں پہ اپنے اگر
مِرے ناصِحو ! مان کر جاوں میں

نہ آوں گا پهر سے تِری بزم میں
مگر تَب ہو اَیسا اگر جاوں میں

کہوں کیا کہ صاحب بہت ہو چُکا
زمِیں میں اَب اپنی اُتر جاوں میں
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
مطلع کے علاوہ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا دوست ، شاید میری کج فہمی ہے۔
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
نہ دیکهے جانے سے کسی شے کےوجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
غزل تو مجھے بہت اچھی لگی البتہ آپ کی بندشیں آپ کے مقصود تخیل کو ذرا اچھی طرح سمیٹ نہیں پا رہیں ۔۔۔آپ پھر سے ذرا غور کریں ۔ یقینا ً بہت بہتر ہو جائے گی۔مثلاً ۔چھوٹی بحر میں آدھا مصرع ردیف قافیہ ہے اس لیے ذرا کاوش کی زیادہ ضرورت ہے۔
مگر تَب ہو اَیسا اگر جاوں میں ۔کے بجائے آپ کہیں کہ ۔کبھی اٹھ کے یاں سے اگر جاؤں میں۔وغیرہ
یہآں آپ نے یہ کہنا چاہا ہے کہ ۔ جب میں یہاں سے اٹھ کر کہیں جا ہی نہیں سکتا تو اگرمیں کہوں کہ تیری بزم میں پھر نہ آؤں گا تو کوئی بات نہیں۔کیوں کہ جا نا ہی محال ہے۔
 

عظیم

محفلین
غزل تو مجھے بہت اچھی لگی البتہ آپ کی بندشیں آپ کے مقصود تخیل کو ذرا اچھی طرح سمیٹ نہیں پا رہیں ۔۔۔ آپ پھر سے ذرا غور کریں ۔ یقینا ً بہت بہتر ہو جائے گی۔مثلاً ۔چھوٹی بحر میں آدھا مصرع ردیف قافیہ ہے اس لیے ذرا کاوش کی زیادہ ضرورت ہے۔
مگر تَب ہو اَیسا اگر جاوں میں ۔کے بجائے آپ کہیں کہ ۔کبھی اٹھ کے یاں سے اگر جاؤں میں۔وغیرہ
یہآں آپ نے یہ کہنا چاہا ہے کہ ۔ جب میں یہاں سے اٹھ کر کہیں جا ہی نہیں سکتا تو اگرمیں کہوں کہ تیری بزم میں پھر نہ آؤں گا تو کوئی بات نہیں۔کیوں کہ جا نا ہی محال ہے۔


تشکر ..
در اصل اک شرط کی سی صورت دینا مطلوب تها !
کہ ایسا تب ہی ہو اگر جانا چاہوں ورنہ ممکن نہیں ..

جزاک اللہ
 

ابن رضا

لائبریرین
نہ دیکهے جانے سے کسی شے کہ وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا
محترمی انکار تو میں نے بھی نہیں کیا کہیں ۔ ایسے استفسار سے میرے علم میں اضافہ مقصود ہے فقط۔ اسی طرح علم و اگہی پروان چڑھتی رہتی ہے۔ خوش رہیں
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
مطلع کے علاوہ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا دوست ، شاید میری کج فہمی ہے۔
جہاں تک میں سمجھا۔ عظیم شہزاد

تِرے دَر سے اُٹھ کر کِدهر جاوں مَیں
نہیں اِس سے بہتر کہ مَر جاوں میں ؟

تیرے در سے اٹھ کر جانے سے بہتر ہے کہ میں مر ہی جاوں ۔

کِسے ہے تمنائے دُنیا کہو !
گزرنا ہے گر تو گزر جاوں میں

یعنی دنیا کی کس کو تمنا ہے اگر جانا ہی ہے یہاں سے تو کیوں نا چلا ہی جاوں

اُنہیں کیا دِکهاوں میں زخمِ جگر
نہ کچھ کہہ سکوں واں اگر جاوں میں

اگر میں ان کے پاس چلا بھی گیا تو دل و جگر کے زخموں کے بارے میں انہیں کیا بتاوں ،گاکہ وہاں جا کر تو کچھ کہا ہی نہیں جائے گا

نہ رووں نصیبوں پہ اپنے اگر
مِرے ناصِحو ! مان کر جاوں میں

مجھے نصیحت کرنے والو اگر میں اپنی تقدیر پر نہ رووں تو تمہیں مان جاوں گا

نہ آوں گا پهر سے تِری بزم میں
مگر تَب ہو اَیسا اگر جاوں میں

تیری محفل میں دوبارہ نہیں آوں گا مگر یہ تو بعد کی باتیں ہیں میں تو یہاں سے جاوں گا ہی نہیں

کہوں کیا کہ صاحب بہت ہو چُکا
زمِیں میں اَب اپنی اُتر جاوں میں

جناب چھوڑو اب، بہت ہو چکا اچھا تو یہی ہے کے اب اپنی قبر میں جا سووں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
جہاں تک میں سمجھا۔ عظیم شہزاد

تِرے دَر سے اُٹھ کر کِدهر جاوں مَیں
نہیں اِس سے بہتر کہ مَر جاوں میں ؟

تیرے در سے اٹھ کر جانے سے بہتر ہے کہ میں مر ہی جاوں ۔

کِسے ہے تمنائے دُنیا کہو !
گزرنا ہے گر تو گزر جاوں میں

یعنی دنیا کی کس کو تمنا ہے اگر جانا ہی ہے یہاں سے تو کیوں نا چلا ہی جاوں

اُنہیں کیا دِکهاوں میں زخمِ جگر
نہ کچھ کہہ سکوں واں اگر جاوں میں

اگر میں ان کے پاس چلا بھی گیا تو دل و جگر کے زخموں کے بارے میں انہیں کیا بتاوں ،گاکہ وہاں جا کر تو کچھ کہا ہی نہیں جائے گا

نہ رووں نصیبوں پہ اپنے اگر
مِرے ناصِحو ! مان کر جاوں میں

مجھے نصیحت کرنے والو اگر میں اپنی تقدیر پر نہ رووں تو تمہیں مان جاوں گا

نہ آوں گا پهر سے تِری بزم میں
مگر تَب ہو اَیسا اگر جاوں میں

تیری محفل میں دوبارہ نہیں آوں گا مگر یہ تو بعد کی باتیں ہیں میں تو یہاں سے جاوں گا ہی نہیں

کہوں کیا کہ صاحب بہت ہو چُکا
زمِیں میں اَب اپنی اُتر جاوں میں

جناب چھوڑو اب، بہت ہو چکا اچھا تو یہی ہے کے اب اپنی قبر میں جا سووں۔

یہی چیز تو ہم سیکھ رہے ہیں دوست کہ مافی الضمیر کو ایسا پیرہن دیا جائے یا الفاظ کو ایسے موزوں کیا جائے کہ مفہوم معنی جاننے کے لیے کسی تشریح یا حاشیے کی ضرورت نہ رہے۔ اکثر اوقات ہم کو علم ہوتا ہے کہ ہمارے مخاطب کا مدعا کیا ہے تاہم اگر اندازِ بیاں غیر واضح ہو تو استفسار جاری رکھا جاتا ہے ۔
 
آخری تدوین:
Top