عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

سید عاطف علی

لائبریرین
تشکر ..
در اصل اک شرط کی سی صورت دینا مطلوب تها !
کہ ایسا تب ہی ہو اگر جانا چاہوں ورنہ ممکن نہیں ..
جزاک اللہ
جیسے آپ چاہیں :)
۔۔۔البتہ یہاں مذکورہ شرط ۔اگر ۔ کے لفظ سے پوری ہو رہے۔۔۔۔۔۔ لیکن تب ہو ایسا کے بعد قاری کومعنوی توصیل کے لیے "از خود " سے ایک وقفہ سا تصور کر نا پڑرہا ہے جو مجھے شعری ابلاغ میں حائل محسوس ہوا۔ آداب۔
 

عظیم

محفلین
جہاں تک میں سمجھا۔ عظیم شہزاد

تِرے دَر سے اُٹھ کر کِدهر جاوں مَیں
نہیں اِس سے بہتر کہ مَر جاوں میں ؟

تیرے در سے اٹھ کر جانے سے بہتر ہے کہ میں مر ہی جاوں ۔

کِسے ہے تمنائے دُنیا کہو !
گزرنا ہے گر تو گزر جاوں میں

یعنی دنیا کی کس کو تمنا ہے اگر جانا ہی ہے یہاں سے تو کیوں نا چلا ہی جاوں

اُنہیں کیا دِکهاوں میں زخمِ جگر
نہ کچھ کہہ سکوں واں اگر جاوں میں

اگر میں ان کے پاس چلا بھی گیا تو دل و جگر کے زخموں کے بارے میں انہیں کیا بتاوں ،گاکہ وہاں جا کر تو کچھ کہا ہی نہیں جائے گا

نہ رووں نصیبوں پہ اپنے اگر
مِرے ناصِحو ! مان کر جاوں میں

مجھے نصیحت کرنے والو اگر میں اپنی تقدیر پر نہ رووں تو تمہیں مان جاوں گا

مان کر جاوں یہاں کر پر زور ہے ! اور مان سے غرور مراد لی گئی ہے !

نہ آوں گا پهر سے تِری بزم میں
مگر تَب ہو اَیسا اگر جاوں میں

تیری محفل میں دوبارہ نہیں آوں گا مگر یہ تو بعد کی باتیں ہیں میں تو یہاں سے جاوں گا ہی نہیں

کہوں کیا کہ صاحب بہت ہو چُکا
زمِیں میں اَب اپنی اُتر جاوں میں

جناب چھوڑو اب، بہت ہو چکا اچھا تو یہی ہے کے اب اپنی قبر میں جا سووں۔
یہاں زمیں سے مراد کچھ اور لی گئی ہے !

دعائیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یہی چیز تو ہم سیکھ رہے ہیں دوست کے مافی الضمیر کو ایسا پیرہن دیا جائے یا الفاظ کو ایسے موزوں کیا جائے کہ مفہوم معنی جاننے کے لیے کسی تشریح یا حاشیے کی ضرورت نہ رہے۔ اکثر اوقات ہم کو علم ہوتا ہے کہ ہمارے مخاطب کا مدعا کیا ہے تاہم اگر اندازِ بیاں غیر واضح ہو تو استفسار جاری رکھا جاتا ہے ۔

معانی شعور کے محتاج ہوتے ہیں ! الفاظ اک کشکول کی مانند خالی ہیں ۔
 

عظیم

محفلین
جیسے آپ چاہیں :)
۔۔۔ البتہ یہاں مذکورہ شرط ۔اگر ۔ کے لفظ سے پوری ہو رہے۔۔۔ ۔۔۔ لیکن تب ہو ایسا کے بعد قاری کومعنوی توصیل کے لیے "از خود " سے ایک وقفہ سا تصور کر نا پڑرہا ہے جو مجھے شعری ابلاغ میں حائل محسوس ہوا۔ آداب۔

جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین
وہ بھی بتا دیتے تو ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو جاتا ۔ شاید کبھی کام ہی آ جائے آخر ہم بھی تو انہی راستوں پر چلنے کے لئے تیار کھڑے ہیں !

دعاؤں کے لیے بہت شکریہ

جس کے بس میں جتنا بتانا ہو وہ اُتنا ہی بتایا کرتا ہے !
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ہمارے دُکهوں کی دَوا کیا کریں
حکیمانِ شہر ِخُدا کیا کریں

کریں کیا خُدارا بتائے کوئی !
غمِ آ گہی میں فنا کیا کریں

ہم اپنی نِگاہوں میں اِتنا گرے !
عبث آ گئی اب حَیا کیا کریں

نگاہِ کرم ہو اِلہی اِدهر
مگر اَب دُعا اَب دُعا کیا کریں

طلب گارِ دنیا ! جو طالب ہوئے
غمِ دو جہاں کے بَتا کیا کریں

کہیں کیا کہ اِتنا ستائے گئے
کہ صاحِب وہ ہم کو عَطا کیا کریں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
نِگاہِ ناز کے قابل نہیں، نہیں ہُوں مَیں
اَب اِس نیاز کے قابل نہیں نہیں ہُوں مَیں

دَہن بهی چھینئے مُجھ سے مِری زُباں لیجئے
کہ اِس آواز کے قابل نہیں نہیں ہُوں مَیں

ہراِک اَذاں نہیں گُونجی ہے میرے کانوں میں
ہراِک نماز کے قابل نہیں نہیں ہُوں مَیں

ہوئی ہے شوق میں عقل و خرد سوا میری
کسی بهی ساز کے قابل نہیں نہیں ہُوں مَیں

چلے یہ سوچ کے صاحِب اَب آج دُنیا سے
درِ حِجاز کے قابل نہیں نہیں ہُوں مَیں

 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
پابند بحور نہیں ۔شہزاد صاحب۔اور پیش کرنے سے پہلے ذرا فکر یا تخیل کو پہلے اور پکائیں ۔۔۔آواز کو درست باندھنے کی ضرورت ہے۔آداب
 

عظیم

محفلین
تُم نہ آئے نہ تُم نے آنا تھا
دُوریوں کا تو بَس بہانہ تھا !

کاش ! پہلے بَتا دِیا ہوتا
بِیچ رَستے میں چھوڑ جانا تھا

آج خُود کو نہیں میسر مَیں
میرے قدموں تَلے زمانہ تھا

کیا خبر تھی خُوشی کے موسم میں
چشمِ تَر سے لہُو بہانا تھا

کتنے برہم ہُوئے وہ اب مجھ پر
جن کی محفل میں روز جانا تھا

اِک زمانہ ہے حال سے آگے
اِک زمانے میں اِک زمانہ تھا !

وقت وہ تھا وہی ، وہی جس میں
اپنی حد سے پرے نہ جانا تھا

شیخ صاحِب کی بات کیا کہئے
اِن کو دعوہ کوئی پُرانا تھا

صاحِب اِن محفِلوں میں ہم جیسا
اِس سے پہلے کوئی دِیوانہ تھا ؟
 
آخری تدوین:
Top