عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
لِکهیں خط میں اُن کو بہت رو لئے ہم
وہ لِکهیں کہ اَچها ہُوا سو لئے ہم

عجب ماجرا ہے یہ حیرت کَشی کا
بہت بهار اپنا کہیں ڈهو لئے ہم

ہنسے محفلوں میں تو خلوت میں جا کر
گَلے خُود کے لگ کر کبهی رو لئے ہم

اُگے ہَیں شَرارے گُلستان بهر میں
چَل اے کارواں دَشت کے ہو لئے ہم

اُٹهیں نیندِ غفلت سے صاحِب، اَزل سے
بہت سو چکے ہم بہت سو لئے ہم
 

عظیم

محفلین
آج غیر خود سے ہیں آپ سے پرائے ہیں
ہم جہان بهولے ہیں آسماں بهلائے ہیں

اس نظر سے جو دیکها روشنی میں گم ٹهہرا
جو نظر چهپاتی ہے اس کو ڈهونڈ لائے ہیں

وائے کم نصیبی ہم کس عذاب میں ہیں اب
اب تو چهوڑ کر خود کو خود سے دور آئے ہیں

زندگی کے کاندهے پر لاش خواہشوں کی ہے
ہم نے حسرتوں کے سر دو جہاں اٹهائے ہیں

کس خوشی کا چرچا ہو کس الم پہ ہو ماتم
ہم نے جب کہ جانا ہے سوگ کیوں منائے ہیں

دوڑ کر کہاں جائیں کس جگہ چهپیں جاکر
خود سے بیر رکهتے ہیں خود عدو کے سائے ہیں

نقش جو رہا دل میں عکس جو نہیں دیکها
اس کا ذکر کرنے کو لفظ رنگ لائے ہیں

کیا کہیں کہ ہم وہ ہیں جو نہیں ترے ہونگے
کیا کہیں کہ ہم نے ہی عہد سب بهلائے ہیں

سانس روک لیتے ہیں دهڑکنوں کے سنتے ہی
نیستی کے قصے میں ہست کے مٹائے ہیں

باندهئے نہ زنجیریں اب ہمارے قدموں میں
ہم کسی کی زلفوں میں عمر بانده آئے ہیں

رو نہ پائیں چاہ کر بهی اس قدر ہوئے پتهر
اشک خشک تر دینا تر تو خشک پائے ہیں

صاحبِ غمِ عالم کس سفر پہ نکلے ہیں
دیکهئے تو اے صاحب کس سفر پہ آئے ہیں



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
چلے ہیں چهوڑ کر دنیا جہاں کو
ہم اپنی خواہشوں کی کہکشاں کو

نجانے کیا خلش تهی اس زمیں میں
لگی ہے آگ جس سے آسماں کو

بہت بے تاب ہے دل غم زدہ کا
اثر جو مل گیا آہ و فغاں کو

دعا بهی کیا کریں گے بد دعائے
دعائیں دے چلے سارے جہاں کو

خدا کے واسطے اتنا بتا دو !
اسے ڈهونڈوں کہ خود اپنے نشاں کو

لحد کی لاج رکه لی ہے خدایا
نہیں چهوڑا مکاں میں لامکاں کو

ستارے رقص کرتے ہیں فلک پر
بہت نذدیک پاکر مہرباں کو

خطائیں ہم گنائیں کیوں کسی کو
خبر ہے جب ہمارے رازداں کو

بہارئیں آبهی جائیں گر کبهی تو
کہیں صحرا ہی اپنے گلستاں کو

ہمیں صاحب نہیں تها ہوش لیکن
یقیں میں قید رکها ہر گماں کو

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ہمیں کیا خبر کیا خطا ہوگئی
جو یُوں زندگی اک سزا ہوگئی

چلو خیر اُلفت میں کچھ تو ملا
جو کل تک تھی حسرت دُعا ہوگئی

دِیئے کُچھ اُمیدوں کے جلنے لگے
تبھی اِس طرف کو ہَوا ہوگئی

جب اپنی ہی پہچان بُھولے ہیں ہم
تو کیا ۔ہم سے دُنیا خفا ہوگئی

کُچھ ایسے تھے مجبُور اِس دِل سے ہم
کہ منظُور اپنی اَنا ہو گئی

شبِ ہجر میں چاند تاروں کے بِیچ
کہیں روشنی بھی فنا ہوگئی

گئے جان سے جانے والے مگر
محبت کی قیمت ادا ہوگئی

عظیم اِلتجا تھی ہماری مگر
درِ آگہی پر صدا ہو گئی

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دل کو کیسا گمان رہتا ہے
دل میں جیسے جہان رہتا ہے

ایک باقی ہے ان درندوں میں
ایک مجه سا حیوان رہتا ہے

ناامیدی کا مدعا سنئے
کفر والا بیان رہتا ہے

کس اذیت سے ہم گزرتے ہیں
ان کو ظلموں پہ مان رہتا ہے

دل کا کہنا بهی کیا کہ کب یہ دل
روح جتنا ویران رہتا ہے

لفظ کاغذ پہ بن نہیں سکتے
کوئی اہل زبان رہتا ہے ؟

دین دنیا بهلا کے بیٹهے ہیں
یاد کس کا نشان رہتا ہے

ایک مدت سے دل کے خانے میں
کوئی بن کر دهیان رہتا ہے

ہم سے کیجئے نہ کچه گلہ صاحب
پہلے پہلے گمان رہتا ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



یارب ہے ماجرا کیا وہم و گمان کا
بدلا ہے رنگ کیونکر تیرے جہان کا

محفل میں بارہا ہم قصہء غم کہیں
لیکن یہ کم نصیبی ،جھگڑا لِسان کا

اَب تو رہی نہ طاقت مُجھ میں کہ بازوؤ
سینے سے مَیں لگاؤں نسخہ قرآن کا

بد بخت اِس نظر نے کیا کُچھ دِکھا دِیا
اِک اِک نگار اُس کے پردے کی تان کا

آؤ قریب اب تو دھڑکا ہے موت کا
آؤ قریب اب تو کھٹکا ہے جان کا

لحظہ ہی قبل جس کی قربت مِلی ذرا
صدیوں بیان ہوگا اُس کے دھیان کا

صاحِب ہے آسماں کی رنگت بے رنگ سی
ممکن ہے چل دِیا ہو تِیراُس کمان کا





 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

دُنیا نے کیوں ہمارا تماشا بنا لیا ہے
یارب بتاں سے کیا اِس دل کو لگا لِیا ہے ؟

میری خودی نے مجھ کو دیکھو تو کیا دیا ہے
دیر و حرم کا دل سے جھگڑا مٹا دِیا ہے

کس پر نثار جاؤں اُس پر جو جانِ جاں ہے
ناسخ نے مشورہ بھی دیکھو تو کیا دِیا ہے

ہونے لگی ہے وحشت جاؤں تو کس جگہ مَیں ؟
خلوت حساب سارا تیرا چکا لِیا ہے

عہدِ شباب کیسا کیسی بُزرگی صاحب
کہتے ہیں عشق جس کو ہم نے خدا کِیا ہے

آتے ہیں پاس کتنا جن کو ابھی ابھی تو
خُود سے ہے دور بھیجا خُود سے جُدا کِیا ہے

مرنے کی آرزو میں زندہ ہیں اسطرح سے
جیسے کہ خود ہی اپنا صدمہ اٹھا لِیا ہے

صاحب ہماری قسمت ، رسوا بھی ہو گئے ہیں
اور اُس گلی کا ہم نے پتھر بھی کھا لِیا ہے





 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
چلے ہیں چهوڑ کر دنیا جہاں کو
ہم اپنی خواہشوں کی کہکشاں کو
÷÷درست

نجانے کیا خلش تهی اس زمیں میں
لگی ہے آگ جس سے آسماں کو
÷خلش سے آگ لگ سکتی ہے؟؟؟

بہت بے تاب ہے دل غم زدہ کا
اثر جو مل گیا آہ و فغاں کو
÷÷محض الفاظ کا مجموعہ

دعا بهی کیا کریں گے بد دعائے
دعائیں دے چلے سارے جہاں کو
÷بد دعائے۔۔ یہ کیا لفظ ہے؟ دعائیں کون دے چلے، یہ بھی واضح نہیں، ہم یا کوئی اور لوگ؟

خدا کے واسطے اتنا بتا دو !
اسے ڈهونڈوں کہ خود اپنے نشاں کو
÷نشاں کو کس طرح ڈھونڈا جاتا ہے؟ یا تو خود کو ڈھونڈا جاتا ہے، یا کسی نشان کو ملنے کے بعد درست رستہ مل جاتا ہے۔

لحد کی لاج رکه لی ہے خدایا
نہیں چهوڑا مکاں میں لامکاں کو
÷شعر سمجھ میں نہیں آیا۔
ستارے رقص کرتے ہیں فلک پر
بہت نذدیک پاکر مہرباں کو
÷÷درست

خطائیں ہم گنائیں کیوں کسی کو
خبر ہے جب ہمارے رازداں کو
÷÷راز داں کا یہ کام تو ہوتا نہیں سوائے اس کے کہ قافیہ میں فٹ ہو جائے۔

بہارئیں آبهی جائیں گر کبهی تو
کہیں صحرا ہی اپنے گلستاں کو
÷÷کہیں مراد ہم کہیں۔ اور کہیں، مراد کسی جگہ، لفظ ایسا استعمال کیا جائے کہ کوئی کنفیوژن نہ ہو۔ روانی بھی بہتر کی جا سکتی ہے پہلے مصرع کی۔

ہمیں صاحب نہیں تها ہوش لیکن
یقیں میں قید رکها ہر گماں کو
۔۔ اچھا خیال ہے، روانی بہتر کی جا سکتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
بحر رواں نہیں، مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات ہی رواں ہے÷
قصہء، بے رنگ، وزن میں نہیں ہیں۔ دھیان، قرآن کا درست تلفظ نہیں باندھا گیا ہے۔

معذرت کہ یہ اصلاح سخن میں نہیں، پھر بھی مشورہ دے رہا ہوں
 

عظیم

محفلین
بہت شکریہ استاد محترم

معافی چاہتا ہوں مجهے اس مشق کو اصلاح سخن کے زمرے میں پوسٹ کرنا چاہئے تها غلطی ہوئی
آئیندہ خیال رکهوں گا کہ ایسا نہ ہو

دعائیں
 
Top