عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
دل سے مجبور ہیں مرنے کی دعا کرتے ہیں
صاحِب اِس بار ذرا ہٹ کے نیا کرتے ہیں

اپنی تقدیر پہ روؤں کہ مناؤں خُوشیاں
غم محبت کے خیالوں میں ملا کرتے ہیں


دِل طلبگارِ وفا ہے ذرا سُنئے کِن سے
جن کا دُنیا سے سُنا ہے کہ جفا کرتے ہیں

یاں جو بیٹھے ہیں خداؤں کے پجاری لاکھوں
ایک دو چار خداؤں سے ڈرا کرتے ہیں

مفلسی حد سے گزرنے پہ اندھیرا کیسا
شہنشاہوں کے تو دربار سجا کرتے ہیں


 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس میں اشعار کم ہیں، شاید انتخاب کیا گیا ہے۔

دل سے مجبور ہیں مرنے کی دعا کرتے ہیں
صاحِب اِس بار ذرا ہٹ کے نیا کرتے ہیں
÷÷خوب، اگر ’کچھ نیا‘ آ سکے تو مزید بہتر ہو۔

اپنی تقدیر پہ روؤں کہ مناؤں خُوشیاں
غم محبت کے خیالوں میں ملا کرتے ہیں
÷÷شعر سمجھ میں نہیں آیا۔

دِل طلبگارِ وفا ہے ذرا سُنئے کِن سے
جن کا دُنیا سے سُنا ہے کہ جفا کرتے ہیں
÷÷اچھا خیال اور بیانیہ ہے۔ دوسرے مصرع میں ’جن کا‘ کی جگہ ’جن کے تعلق سے‘ آنا چاہئے تھا

یاں جو بیٹھے ہیں خداؤں کے پجاری لاکھوں
ایک دو چار خداؤں سے ڈرا کرتے ہیں
÷÷کیا بات ہوئی؟ ایک خدا کے پجاری یا خداؤں کے پجاری۔ اور کیا ایک خدا کے پجاری اسی خدا سے نہیں ڈر سکتے؟

مفلسی حد سے گزرنے پہ اندھیرا کیسا
شہنشاہوں کے تو دربار سجا کرتے ہیں
شہنشاہ میں نون پر جزم ہوتا ہے۔ میرے خیال میں شہنشاہوں کو ’مفاعیلن‘ ہونا چاہئے۔
 

عظیم

محفلین
اس میں اشعار کم ہیں، شاید انتخاب کیا گیا ہے۔

جی ہاں -


دل سے مجبور ہیں مرنے کی دعا کرتے ہیں
صاحِب اِس بار ذرا ہٹ کے نیا کرتے ہیں
÷÷خوب، اگر ’کچھ نیا‘ آ سکے تو مزید بہتر ہو۔

جی بہتر ہے کوشش کروں گا..

اپنی تقدیر پہ روؤں کہ مناؤں خُوشیاں
غم محبت کے خیالوں میں ملا کرتے ہیں
÷÷شعر سمجھ میں نہیں آیا۔

حیراں ہوں محبت کے غم ملنے پر ماتم مناوں یا اس انمول شے کی خوشیاں خیالوں میں ملنے سے تعبیر کیا اس خیال کو شاید بیان ادهورا رہ گیا

دِل طلبگارِ وفا ہے ذرا سُنئے کِن سے
جن کا دُنیا سے سُنا ہے کہ جفا کرتے ہیں
÷÷اچھا خیال اور بیانیہ ہے۔ دوسرے مصرع میں ’جن کا‘ کی جگہ ’جن کے تعلق سے‘ آنا چاہئے تھا

جن کے بارے میں سنا ہے کہ جفا کرتے ہیں

یاں جو بیٹھے ہیں خداؤں کے پجاری لاکھوں
ایک دو چار خداؤں سے ڈرا کرتے ہیں
÷÷کیا بات ہوئی؟ ایک خدا کے پجاری یا خداؤں کے پجاری۔ اور کیا ایک خدا کے پجاری اسی خدا سے نہیں ڈر سکتے؟

خداوں کے پجاری.. پجاری بهی قصدا کہا گیا .. لاکهوں میں سے یہ بهی اب چند ایک ہی ڈرتے ہیں اپنے خداوں سے .. کہنا مطلوب تها ..

مفلسی حد سے گزرنے پہ اندھیرا کیسا
شہنشاہوں کے تو دربار سجا کرتے ہیں

بادشاہوں کے تو دربار سجا کرتے ہیں


شہنشاہ میں نون پر جزم ہوتا ہے۔ میرے خیال میں شہنشاہوں کو ’مفاعیلن‘ ہونا چاہئے۔


جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین


آگ اپنے ہی شبستاں میں لگا بیٹھے ہیں
آتشِ گُل سے گُلِستاں کو جَلا بیٹھے ہیں

عشق میں اور تو کُچھ ہاتھ نہ آیا لیکن
نام رسواؤں کے زُمرے میں لِکھا بیٹھے ہیں

ہم کہ بُھولے ہیں فقط اپنے ہی گھر کا رستہ
لوگ دُنیا کو ترے غم میں بُھلا بیٹھے ہیں

چشمِ بد سے کبھی ٹپکا ہے لہو کا قطرہ ؟
بحر کے بحر حماقت میں بہا بیٹھے ہیں

جاکے محبوب کے قدموں میں دِل و جاں رکھ دیں
سر تو اغیار کے قدموں میں جُھکا بیٹھے ہیں

صاحِب اِس بزمِ جہاں میں ہے خبر کب اِس کی
اَب بھی باقی ہیں کہ کیا ہو کے فنا بیٹھے ہیں

 

عظیم

محفلین


تابِ چشمِ براہ آزمائیں کبھی
پَرْدَۂِ نِیلْگُوں کو اُٹھائیں کبھی

جاں سے جائیں کہ جائیں جہاں سے مگر
کُوچَۂِ دل براں سے نہ جائیں کبھی

مذہبِ عشق میں دین و دُنیا ہے کیا
عہدِ ظلمت ہے کیا کُچھ بَتائیں کبھی

کم نصیبی کا اپنی گلہ کیوں کریں ؟
وہ سُنیں کیوں اگر ہم سُنائیں کبھی

مئے پئیں تا دمِ آخریں گر ہمیں
وہ نگاہوں سے اپنی پلائیں کبھی

صاحبِ ناتواں گر اِجازت ملے
اُن کو زخمِ جگر جا دِکھائیں کبھی



 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع خوب ہے، ہسند آیا، لیکن مزید کسی شعر میں خاص بات نہیں ہے۔ سوائے اس شعر کے، مگر وہ خاص بات کوئی عاشق کہہ ہی نہیں سکتا۔
جاں سے جائیں کہ جائیں جہاں سے مگر
کُوچَۂِ دل براں سے نہ جائیں کبھی
یوں بھی حقیقت سے بعید ہے کہ موت کے بعد بھی کوئی بذاتِ خود کوچے میں آ سکتا ہے!!
 

عظیم

محفلین
مطلع خوب ہے، ہسند آیا، لیکن مزید کسی شعر میں خاص بات نہیں ہے۔ سوائے اس شعر کے، مگر وہ خاص بات کوئی عاشق کہہ ہی نہیں سکتا۔
جاں سے جائیں کہ جائیں جہاں سے مگر
کُوچَۂِ دل براں سے نہ جائیں کبھی
یوں بھی حقیقت سے بعید ہے کہ موت کے بعد بھی کوئی بذاتِ خود کوچے میں آ سکتا ہے!!

بہت شکریہ استاد محترم

اسی مطلع کے ساتھ دوبارہ کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔

جاں سے جائیں کہ جائیں جہاں سے مگر
کُوچَۂِ جانِ جاں سے نہ جائیں کبھی

دعائیں
 

عظیم

محفلین

گردِشِ ماہتاب رہنے دو
میری آنکھوں میں خواب رہنے دو

سانس گِنتے ہیں وصل کے طالب
صبحِ روزِ حساب رہنے دو

بے مروت ہیں بے وفا ہیں لوگ
دینِ حق کا نصاب رہنے دو

تم بتا دو کہ مدعا کیا ہے
فکرِ اجر و ثواب رہنے دو

شاملِ حال کب نہیں ہو تم
سب خبر ہے جناب رہنے دو

زندگی کٹ چکی ہے اب صاحب
طرزِ عِزَّت مآب رہنے دو


 

عظیم

محفلین

کیوں مری آس پھر بندھاتے ہو
کیوں مجھے اس قدر ستاتے ہو

مجھ سے کتنے ہیں تیرے دیوانے
میں نہیں ہوں تو کیوں بناتے ہو

میرے ہونے سے کیا بھلا ہوگا
کیوں مری زندگی بڑھاتے ہو

خوف مجھ کو اِن آئینوں سے ہے
عکس میرا مجھے دکھاتے ہو

روز ملتے ہو کس تعلق سے
کس تعلق سے چھوڑ جاتے ہو

خود تو بیٹھے ہو اوٹ میں چھپ کر
مجھ کو دشتِ جنوں گھماتے ہو

کیا سناؤں میں درد کے قصے
ایک صدمے پہ سو لگاتے ہو

دور جاتے ہو جس قدر مجھ سے
اور اتنے قریب آتے ہو

تُم نے صاحب قرار مانگا ہے
پھر یہ شکوے کسے سناتے ہو

 

الف عین

لائبریرین
خوب
خوف مجھ کو اِن آئینوں سے ہے
عکس میرا مجھے دکھاتے ہو

روز ملتے ہو کس تعلق سے
کس تعلق سے چھوڑ جاتے ہو
دور جاتے ہو جس قدر مجھ سے
اور اتنے قریب آتے ہو
باقی سارے اشعار دو لخت ہیں۔ آپس میں ربط نظر نہیں آتا۔
 

عظیم

محفلین
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن

نگاہ شوق سے دیکهوں تو خواب ہے دنیا
مرے لئے تو مسلسل عذاب ہے دنیا

ہرایک بار یہی سوچ کے اجڑتا ہوں
خراب ہم ہیں تو خانہ خراب ہے دنیا

عجیب کهیل سا کهیلا گیا نگاہوں سے
چهپا رہے ہیں حقیقت سراب ہے دنیا

اسی کے پاس ہیں سارے خطوط الفت کے
بہت خراب ہے بے شک خراب ہے دنیا

انا کی آگ میں جل کر ہوا تن اپنا راکه
اور اس غرور پہ لکهی کتاب ہے دنیا

ہے صاحب دل وحشی عظیم سن لیجئے
پکارتا ہے کہ دنیا حساب ہے دنیا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
فاعلاتن مفاعلن فعلن

وقت نے اور تیز چلنا ہے
رات نے راستہ بدلنا ہے

جن کو دعوے ہیں پارسائی کے
ان کی قسمت میں صرف جلنا ہے

بادشاہوں کے تخت الٹیں گے
دن قیامت کا روز ڈهلنا ہے

تم بهی دیکهو گے جان سے پیارو
روح تک کو مری پگهلنا ہے

ایک جانب ہے ان کی چاہت اور
ایک جانب مرا سمبهلنا ہے

دور جاوں میں کسطرح ان سے
جن کی خاطر ابهی مچلنا ہے

تم نے دیکها نہیں پر اے صاحب
عام غنچوں کا یاں کچلنا ہے
 

عظیم

محفلین

چهوڑ جاوں تری خدائی کیا
رنگ لائے گی پهر دہائی کیا

شش و پنج میں ہوں مبتلا کب سے
خود سے میری ہے اب لڑائی کیا

لوگ پوچهیں تو کیا بتاوں گا
درد کیسا ہے چوٹ کهائی کیا

تم بتا دو معاملہ کیا ہے
اب بتائے گی پارسائی کیا

وحشتیں اس قدر بڑهیں میری
پوچهتا ہوں کہ صبح آئی کیا

کم نصیبی پہ کیا گلہ صاحب
پاکے من کی مراد پائی کیا
 

الف عین

لائبریرین
وقت نے اور تیز چلنا ہے
رات نے راستہ بدلنا ہے
÷÷یہ پنجابی لہجہ ہے، درست 'نے' کی جگہ 'کو' ہوگا۔
۔
جن کو دعوے ہیں پارسائی کے
ان کی قسمت میں صرف جلنا ہے
۔۔دو لخت

بادشاہوں کے تخت الٹیں گے
دن قیامت کا روز ڈهلنا ہے
۔۔ایضاً

تم بهی دیکهو گے جان سے پیارو
روح تک کو مری پگهلنا ہے
ایضا
ایک جانب ہے ان کی چاہت اور
ایک جانب مرا سمبهلنا ہے

دور جاوں میں کسطرح ان سے
جن کی خاطر ابهی مچلنا ہے

تم نے دیکها نہیں پر اے صاحب
عام غنچوں کا یاں کچلنا ہے
سارے اشعار دو لخت ہیں
 
Top