عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
در اصل اس مشق میں ردیف نہیں
دیواریں کی ی گرائی اور چلانے کی شد ..ایسا کرنا کیا جائز نہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
آخری دونوں اشعار پسند نہیں آئے۔ مطلع درست ہے۔ دوسرا شعر بھی بہتر ہو سکتا ہے۔ یہ شعر یوں بہتر ہو گا
میری میت پہ میرے چارہ گر
دیکه لینا کہ رو رہے ہونگے
بہتر صورت
دیکه لینا کہ میرے چارہ گر
میری میت پہ رو رہے ہونگے
 

عظیم

محفلین
آخری دونوں اشعار پسند نہیں آئے۔ مطلع درست ہے۔ دوسرا شعر بھی بہتر ہو سکتا ہے۔ یہ شعر یوں بہتر ہو گا
میری میت پہ میرے چارہ گر
دیکه لینا کہ رو رہے ہونگے
بہتر صورت
دیکه لینا کہ میرے چارہ گر
میری میت پہ رو رہے ہونگے

جی .. بہت شکریہ
دعائیں
 

الف عین

لائبریرین
برائے کرم
وضاحت فرما دیجئے
بهول جاو گے شان کہتا ہوں
تم زمین و زمان کہتا ہوں
÷÷دوسرے مصرع میں ردیف کا مطلب؟

خود کو تیرا نشان کہتا ہوں
تجه کو اپنا گمان کہتا ہوں
÷÷درست، لیکن یوں بہتر ہو
خود کو تیرا نشاں سمجھتا ہوں
تجھ کو۔۔۔
یہ دوسری بات ہے کہ نشان یا نشاں بھی کیوں سمجھا جائے۔ ایسی کیا بات ہے؟

راز پنہاں ہے عشق کا اس میں
بات زیر زبان کہتا ہوں
÷÷ردیف درست

کیا نہیں کہہ گیا خماری میں
تم ہی رکهنا دهیان کہتا ہوں
÷÷دھیان بطور فعل درست ہے۔ تم ہی کچگ رکھنا دھیان، کہتا ہوں ۔
اوقاف بھی ضروری ہیں اس غزل میں۔

کانچ کے پر نہیں ہوا کرتے
اڑنے والے کی جان کہتا ہوں
۔۔یہاں بھی ردیف؟ کس کو کہتے ہو؟

دل کو رکهنا بچا کے او صاحب
دل نہ دینے کی ٹهان کہتا ہوں
تدیف یہاں بھی درست نہیں۔ کس سے کہتے ہو، یہ بھی تو واضح ہو!
 

عظیم

محفلین
بهول جاو گے شان کہتا ہوں
تم زمین و زمان کہتا ہوں
÷÷دوسرے مصرع میں ردیف کا مطلب؟
کہتا ہوں یعنی یقین دلاتا ہوں سند

خود کو تیرا نشان کہتا ہوں
تجه کو اپنا گمان کہتا ہوں
÷÷درست، لیکن یوں بہتر ہو
خود کو تیرا نشاں سمجھتا ہوں
تجھ کو۔۔۔
یہ دوسری بات ہے کہ نشان یا نشاں بھی کیوں سمجھا جائے۔ ایسی کیا بات ہے؟
طنزیہ انداز اپنایا اپنی خاطر .. کہ کیوں سمجها جائے بد بختی سمجهنے والوں کی .. دوسری صورت میں آپ کی دی ہوئی صورت ہی بہتر ہے


راز پنہاں ہے عشق کا اس میں
بات زیر زبان کہتا ہوں
÷÷ردیف درست
راز کو بهی اک راز بنانا چاہا عشق سے منسوب کرکے اور چهپا کر
شاید واضح نہ کر سکا


کیا نہیں کہہ گیا خماری میں
تم ہی رکهنا دهیان کہتا ہوں
÷÷دھیان بطور فعل درست ہے۔ تم ہی کچگ رکھنا دھیان، کہتا ہوں ۔
اوقاف بھی ضروری ہیں اس غزل میں۔
اوقاف کے بارے میں صحیح معلومات نہیں اسی لئے جهجکتا ہوں

کانچ کے پر نہیں ہوا کرتے
اڑنے والے کی جان کہتا ہوں
۔۔یہاں بھی ردیف؟ کس کو کہتے ہو؟
دوبارہ کہنے کی کوشش کروں گا...

دل کو رکهنا بچا کے او صاحب
دل نہ دینے کی ٹهان کہتا ہوں

یہاں خود سے مخاطب ہوں اور اے کی جگہ او جان بوجه کر کہا ..
ناکام رہا

تدیف یہاں بھی درست نہیں۔ کس سے کہتے ہو، یہ بھی تو واضح ہو!
 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
"صاحب" کے آگے "!" نشان لگائیں، تا کہ پتہ چل سکے کہ "صاحب" مخاطَب ہے۔ ورنہ یہاں صاحب کے فاعل ہونے کا گمان بھی ہوتا ہے :)
۔۔۔
عشق میں نام کر گیا صاحب
آج حد سے گزر گیا صاحب
درست (اس شعر کو غزل کا پہلا شعر رکھیں)
۔۔۔
خاک بن کر بکهر گیا صاحب
کیا بتائیں کدهر گیا صاحب
درست
۔۔۔
کوئی پوچهے پتا محبت کا
تم بتانا جدهر گیا صاحب
عشق میں نام کرنے، حد سے گزر جانے، خاک بن کر بکھرنے وغیرہ کے بعد یہاں "شاعر کا مر جانا" زیادہ مناسب لگتا ہے۔
اور محبت کی جگہ شاعر کا پتہ پوچھئے۔
کوئی پوچھے اگر پتہ میرا
تم بتانا کہ مَر گیا، صاحب!
۔۔۔
ایک کافر تها ایک مشرک تها
اچها اچها گزر گیا صاحب
صحیح مسلم کی روایت ہے :"" الدنیا سجن المؤمن و جنۃ الکافر "" صحیح مسلم ، کتاب الزہد ،باب الدنیا ،سجن المؤمن
ترجمہ : دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ۔
تو اس بناء پر یہ شعر درست ہے کہ ایک کافر اور ایک مشرک (دنیا میں) اچھا اچھا (جنت جیسا) گزارا کر گیا۔
آنکه میں نور سا تها سینے میں
رفتہ رفتہ اتر گیا صاحب
وہ جو آنکھوں میں نور درد تھا کل تک
آج دل میں اتر گیا صاحب
غزل کا عمومی احساس چونکہ غم کا ہے، اس لئے نور کی جگہ درد رکھا ہے۔ اگر آپ نے نور کسی خاص وجہ سے لکھا ہے تو اسے نور ہی کردیں، کہ شعر آپ کا ہی ہے۔ :)
۔۔۔
حیف آزر کا مقتدی ہوکر
کس کے فن سے مکر گیا صاحب
شعر مجھ پر واضح نہیں :)
۔۔۔
بن کے اہل زبان پهرتا تها
ہو کے اہل نظر گیا صاحب
اہل زبان ہونا اور اہل نظر ہونا، دونوں ہی اچھی بات ہے۔
کسی کا اہلِ زبان بن کر پھرنا، پھر اہلِ نظر ہو کر 'مرنا' کچھ برائی نہیں۔
اگر میں صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکا تو معذرت :)
 

عظیم

محفلین
اب تو آ جا گزر گیا صاحب
لوگ کہتے ہیں مر گیا صاحب

وہ جو لہجے میں درد تها کل تک
آج دل میں اتر گیا صاحب

بہت شکریہ میرے بهائی اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے آمین
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
عشق میں نام کر گیا صاحب
آج حد سے گُزر گیا صاحب

خاک بن کر بکھر گیا صاحب
کیا بتائیں کدھر گیا صاحب

اب تو آ جا گزر گیا صاحب
لوگ کہتے ہیں مر گیا صاحب

ایک کافر تھا ایک مشرک تھا
اچھا اچھا گزر گیا صاحب

وہ جو لہجے میں درد تھا کل تک
آج دل میں اُتر گیا صاحب

حیف آزر کا مقتدی ہوکر
اپنے فن سے مکر گیا صاحب

بن کے اہلِ زبان پھرتا تھا
ہوکے اہلِ نظر گیا صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غم دو جہاں میں فنا ہوگئے
کہ ہم آج کیا سے ہیں کیا ہو گئے

ہوا دوست جس کا تو کیا وہ رہے
سبهی تجه کو پیارے بتا ہو گئے

قدم لڑکهڑاتے رہے عمر بهر
تو کیا راستے اب جدا ہو گئے

کئے جارہے ہیں شکایت مگر
تری بے رخی پہ فدا ہو گئے

جنہیں اس نظر نے تراشا صنم
وہی بت ہمارے خدا ہو گئے

یہاں کون سنتا ہے صاحب دعا
مگر لوگ محو دعا ہو گئے


صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یقیں کی گود میں کهیلا گماں بهی
زمیں بهی اور تیرا آسماں بهی

یہاں بهی ہے وہاں ہے تو وہاں بهی
نہیں ہوں میں مگر ہوں میں جہاں بهی

کہاں تک ساته دے گا اے جنوں تو
کہ اب تو چهوڑ جاوں گا جہاں بهی

کہوں کیا سخت مشکل میں پڑا ہوں
نہیں ہوتا ہے لیکن ہو بیاں بهی

میں اپنے آپ کو کیوں دیکهتا ہوں
جو دیکهوں دور تک تیرا نشاں بهی

گئے ہیں چهوڑ کر صاحب کو تنہا
اب اس کے رازداں بهی قدرداں بهی


صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
گیت ملت کے گائے جاتے ہیں
لوگ فتنے اٹهائے جاتے ہیں

شیخ صاحب ذرا سا کیجئے غور
کیا طریقے سکهائے جاتے ہیں

آپ کرتے ہیں بات اوروں کی
یاں تو اپنے بهلائے جاتے ہیں

خواب کیا ہیں حقیقتیں کیا ہیں
کب یہ جهگڑے مٹائے جاتے ہیں

ایک ہم ہیں جو اپنی میت پر
خوب آنسو بہائے جاتے ہیں

تم نے دیکها نہیں مگر صاحب
لوگ زندہ جلائے جاتے ہیں

شاعری نام کس بلا کا ہے
شعر کیونکر سنائے جاتے ہیں

تم کہاں اور ہم کہاں صاحب
پهر بهی دل میں سمائے جاتے ہیں



صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ہم چلے جا رہے ہیں ارادہ کئے
آپ اپنے تئیں ایک وعدہ کئے

کیا خبر تهی خوشی کی تمنا میں ہم
مر مٹیں گے غموں کو زیادہ کئے

کچه نظر اب ترے بن بهی آئے گا کیوں
آئینہ دیکهتے ہیں لبادہ کئے

وقت مرہم لگائے گا زخموں پہ کیا
سال ہونے کو ہیں گزرا وعدہ کئے

اب کہیں تجه سے کیا رازداں تو بتا
کتنے ہی سخت الفاظ سادہ کئے

صاحب ناتواں ہی بلائیں تجهے
ہم عظیم اپنے دل کو کشادہ کئے


صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تمہارے نام پہ ہوگی جو میری زندگی کی شام
نورانی نور ہوگی کب گهنیری زندگی کی شام

ہراک امید بجهنی ہے ہراک خواہش کو مٹنا ہے
ابهی تو دن نکلنا ہے اے میری زندگی کی شام

ہے صبح تاریک روشن رات جاوں تو کہاں صاحب
اجالے کر رہی ہوگی اندهیری زندگی کی شام
 
Top