خوب۔ یہ غزل بہتر ہے
خوب۔ یہ غزل بہتر ہے
مطلع کا دوسرا مصرع اور آخری شعر کا پہلا مصرع وزن سے خارج ہے۔
’’بلا سے دیر سے پلٹا ، پلٹ تو آیا ہے‘‘بهلے ہی دیر سے پلٹا پلٹ تو آیا ہے
ترا غلام ہے آقا یہ کب پرایا ہے
کریں بهی کیا کہ ستائے ہوئے ہیں ان کے لوگ
وہی تو لوگ ہیں جن نے ہمیں ستایا ہے
بهلے ہی دیر سے پلٹا پلٹ تو آیا ہے
ترا غلام ہے آقا یہ کب پرایا ہے
÷÷ درست
کسی نے آج حقیقت پہ ظلم ڈهایا ہے
کسی نے ایک فسانہ سا گهڑ سنایا ہے
÷÷گھڑ سنایا؟
ہرایک شخص کو صاحب شعار ہونا ہے
ہرایک شخص کو کیا کیا نہ کچه بتایا ہے
÷÷دو لخت
طبیب دل سے گزارش ذرا سی کی لیکن
ہمارے درد کو بے شک قرار آیا ہے
÷÷بےشک پرابلم کر رہا ہے یوں ہو تو ۔۔۔
طبیب دل سے تو حالت بیان کی ہی نہ تھی
ہمارے درد کو لیکن قرار۔۔۔
کریں بهی کیا کہ ستائے ہوئے ہیں ان کے لوگ
وہی تو لوگ ہیں جن نے ہمیں ستایا ہے
÷÷جن نے÷÷ پرانی اردو ہے۔ مفہوم؟
عظیم آپ کو شاید گماں رہا ہوگا
ہمیں یقین تها جس پر یقین آیا ہے
۔÷÷مجہول ہے
بس مطلع ہی اچھا نکلا۔ یہ تمہار ے بھلے کے لئے ہی کہہ رہا ہوں کہ اتنا زیادہ کہنے کی بجائے خود تنقیدی کرو اور برے اشعار نکال دو تو بہت عمدہ شاعری کر سکتے ہو
’’بلا سے دیر سے پلٹا ، پلٹ تو آیا ہے‘‘
’’جو آج ہم سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں
وہی ہیں لوگ جنھوں نے ہمیں ستایا ہے‘‘
کیسا رہے گا