عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
دو لختی کی مثال ہے یہ مطلع ہی ہے
یُوں کیجئے وفا کہ نبھائی نہ جا سکے
ہم سے پھر اپنی جان بچائی نہ جا سکے
وفا کے نبھانے کا تعلق جان بچانے سے؟؟؟ اسی کو دو لختی کہتے ہیں، یعنی دونوں مصرعے اپنے الگ الگ معنی رکھتے ہیں، لیکن ان میں آپسی ربط نہیں جو ایک شعر کہا جائے۔ اور اگر ہے تو وہ مجھ پر یا شاید اوروں پر واضح نہیں ہو سکا۔
یہ بھی دو لخت لگتا ہے
آرائشِ زمین میں خالق ہو وہ کمی
تا حشر آسماں سے مٹائی نہ جا سکے
باقی اشعار درست ہیں۔
 

عظیم

محفلین
دو لختی کی مثال ہے یہ مطلع ہی ہے
یُوں کیجئے وفا کہ نبھائی نہ جا سکے
ہم سے پھر اپنی جان بچائی نہ جا سکے
وفا کے نبھانے کا تعلق جان بچانے سے؟؟؟ اسی کو دو لختی کہتے ہیں، یعنی دونوں مصرعے اپنے الگ الگ معنی رکھتے ہیں، لیکن ان میں آپسی ربط نہیں جو ایک شعر کہا جائے۔ اور اگر ہے تو وہ مجھ پر یا شاید اوروں پر واضح نہیں ہو سکا۔
یہ بھی دو لخت لگتا ہے
آرائشِ زمین میں خالق ہو وہ کمی
تا حشر آسماں سے مٹائی نہ جا سکے
باقی اشعار درست ہیں۔


جی بہتر بابا : )
 

عظیم

محفلین
موت کا انتظار کرتا ہُوں
زندگانی سے پیار کرتا ہُوں

یاد رکھتا ہُوں تیری ہر دھتکار
ٹھوکریں سب شمار کرتا ہُوں

ہاں ترے قرب کی اُمیدیں ہیں
ہاں ترا انتظار کرتا ہُوں

سخت کافر ہُوں مَیں تری طرح
خود کو تنہا شمار کرتا ہُوں

اور کیا ہجر میں ترے کرنا
چاک دامن کے تار کرتا ہُوں

مَیں نہیں اہل ہاں مگر صاحبؔ
اُس کے در پر پکار کرتا ہُوں
 

جیہ

لائبریرین
خوب

ویسے آپ کو تو عشق نے کہیں کا نہیں رکھا۔ غزل سے تہ یہی لگ رہا ہے:)
 

عظیم

محفلین
یااِلہی ! سَتا رہے ہیں لوگ
اور غم کو بڑھا رہے ہیں لوگ

میرے جذبوں کی پارسائی کا
اِک تماشا بنا رہے ہیں لوگ

مر مٹا ہُوں میں تیرے ہجراں میں
مُجھ کو کیونکر مٹا رہے ہیں لوگ

تُو نے کیا کیا نہ ظلم ڈھائے اور
ظلم کیا کیا نہ ڈھا رہے ہیں لوگ

مست رہتا ہُوں تیری مستی میں
ہوش مُجھ کو دِلا رہے ہیں لوگ

کیا بتاؤں کہ ایسے ناداں ہیں
مُجھ کو جینا سکھا رہے ہیں لوگ

روزِ محشر سے خوف کیوں صاحبؔ
جب قیامت اُٹھا رہے ہیں لوگ



( الف عین بابا دو لخ۔۔۔ ؟ : )​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

پُوچھ لو حال کیا ہمارا ہے
غم گسارو ! اگر گوارا ہے

کِس طرح عُمر کاٹتے ہیں ہم
کِس طرح آج کل گُزارا ہے

حیف آنکھوں میں خُوں نہیں آیا
ہم نے جب جب اُسے پُکارا ہے

اِس اُلٹ پھیر میں زمانے کے
ایک وہ ہی تو بس سہارا ہے

جان پیاری ہے دوستو کس کو
کِس کو جینا کہو یہ پیارا ہے

داغ دھوئے ہیں اپنے دامن کے
اور خُود کو بہت نکھارا ہے

درد اتنا جو بڑھ چُکا صاحبؔ
آخری وقت کیا ہمارا ہے

محمد عظیم صاحبؔ​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


جانے کس کی نظر لگی ہم کو
موت لگتی ہے زندگی ہم کو

مار ڈالے گی بے کسی ہم کو
تم بچا لو اے زندگی ہم کو

اتنا روئے ہیں تیرے غم میں ہم
خوں رُلانے لگی خوشی ہم کو

رات کیا دن سکوں نہیں ملتا
مار ڈالے گی دل لگی ہم کو

ایسے غم میں ہیں مبتلا صاحب
چین پڑتا نہیں کبھی ہم کو

دُنیا والوں نے دیکھ لینا ہے
اُن کی گلیوں میں، بے بسی ! ہم کو

یُوں تری آرزو کے ہو بیٹھے
اپنی خواہش نہیں رہی ہم کو

اور کہتے ہی جائیں ہم صاحب
کوئی کہتا نہیں کہی ہم کو



محمد عظیم صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


تُم سے آگے کی بات کہتے ہیں
دِن کو تاریک رات کہتے ہیں

کیا اِسی کو ہی ساتھ کہتے ہیں
بات کرنے پہ بات کہتے ہیں

ہم تو کہتے ہیں درد کو تحفہ
ہم تو غم کو سوغات کہتے ہیں

کہنے والے جو کہہ گئے صاحب
اُن کی ہرایک بات کہتے ہیں

نامکمل نہیں کبھی کہتے
ہم مکمل ہی بات کہتے ہیں

محمد عظیم صاحب
 

عظیم

محفلین
غزل

تیری گلیوں کو چھوڑ جائیں کیوں
جا کے دُنیا سے دل لگائیں کیوں

تیرے غم میں لہو بہائیں کیوں
تیرے غم میں یُوں مسکرائیں کیوں

اے غمِ عالمِ غمِ اُلفت
اُس کے غم سے نجات پائیں کیوں

تیرے شیدائی تیرے دیوانے
آہ ماتم بھی اب منائیں کیوں

جو نہیں ہم سے بولتے صاحب
ہم بھی آخر انہیں بلائیں کیوں


محمد عظیم صاحب​
 

عظیم

محفلین
غزل


مُجھ کو وحشت ہے اِن ہواؤں سے
اِن فضاؤں سے اِن گھٹاؤں سے

رشک آتا ہے تیری بستی پر
خوف آتا ہے اپنے گاؤں سے

دِل کو کیونکر بچاؤں تُو کہہ دے
اِس ترے حسن کی اداؤں سے

مٹ چکے خواب تو حقیقت میں
سر تا ڈوبا ہُوں لے کے پاؤں سے

ہم وفاؤں کو ڈھونڈتے صاحب
بھاگ نکلے ہیں کن جفاؤں سے


محمد عظیم صاحب




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

دردِ ہجراں کی کُچھ دوا دیتے
جانے والے کوئی دعا دیتے

کون رکھتا یہاں پہ ہم کو یاد
ہم بھی تُجھ کو اگر بُھلا دیتے

ڈال رکھا ہے روزِ محشر پر
جرم اب کا ہے اب سزا دیتے

سوچتے ہیں کہ غم کے بدلے میں
اور دیتے بھی گر وہ کیا دیتے

مٹ کے صاحب کو یہ ہوا احساس
خود کو پہلے کا ہی مٹا دیتے


محمد عظیم صاحب




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

رات دن چین جو گنواتے ہیں
آخرش وہ سُکون پاتے ہیں

تُم ہی تنہا نہیں ستانے کو
اور بھی تو کئی ستاتے ہیں

سر کو قدموں تلک جھکاتے ہیں
جب بھی ان کے حضور جاتے ہیں

اپنی پہچان بھولنے والے
آج تیرا نشان پاتے ہیں

ہم جو کہتے ہیں بات اِس دل کی
لوگ کیونکر کے چپ کراتے ہیں

اللہ اللہ ہمارے اپنے بھی
غیر کہہ کر ہمیں بُلاتے ہیں

کیا کَہیں کیا نہیں کَہیں صاحب
دنیا والوں سے دُور جاتے ہیں


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

ہم ترا ذکر عام کرتے ہیں
ایک یہ ہی تو کام کرتے ہیں

نام لیتے ہیں تیرا دیوانے
اتنی جراَت غلام کرتے ہیں

جُھک کے ملتے ہیں لوگ کیوں جانیں
جانے کِس کو سلام کرتے ہیں

ہم نے صاحب وہ دن بھی دیکھے ہیں
جن میں توبہ تمام کرتے ہیں

شیخ صاحب سے کیجئے باتیں
آپ سب سے کلام کرتے ہیں

زندہ رہنے کے واسطے صاحب
موت کا انتظام کرتے ہیں

محمد عظیم صاحب







 

عظیم

محفلین
غزل

لگا کر دِل بہت پچھتا رہے ہیں
رُکو اے زندگی ہم جا رہے ہیں

وہ جتنے دور ہیں ہم سے ہم اُن کے
اور اُتنے پاس ہوتے جا رہے ہیں

الہی ! کن دکھوں کی داستاں ہے
وہ جس کو ہم غزل لکھوا رہے ہیں

ہم اپنے آپ سے اب تک خفا ہیں
مگراُن کو منائے جا رہے ہیں

عظیم اُس درد کا احساس کس کو
وہ جس کو اِس زباں تک لا رہے ہیں

اگر دنیا ہے چپ تو ہم بھی صاحب
خموشی ہی تو اب اپنا رہے ہیں


محمد عظیم صاحب

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

آہ رکھا کیا لطف جینے میں
عمر بھر آنسوؤں کو پینے میں

درد اتنا ہے میرے سینے میں
درد جتنا ہے زخم سینے میں

آخری فرد ہے سفینے میں
جاکے کہہ دو کوئی مدینے میں

چند برس سال کچھ مہنیے میں
لطف آئے گا خاک جینے میں

صاحب ایسے ہیں زخم سینے میں
خون بہتا ہے اب پسینے میں


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

چاک زخمِ جگر کے سی لیں گے
درد سہہ لیں گے اشک پی لیں گے

تیرے غم میں ہم اسطرح رو کر
تُو جو چاہے تو اور جی لیں گے

جبکہ اپنی خبر نہیں ہم کو
ہم خبر خاک غیر کی لیں گے

عشق میں گر یہی ہے لازم تو
ہم بھی اپنے لبوں کو سی لیں گے

عیش و عشرت کی کیا طلب صاحب
ہم فقیروں میں بیٹھ جی لیں گے


محمد عظیم صاحب


 

عظیم

محفلین
غزل

چرچے اُن کی زباں کے ہوتے ہیں
ہم سے شاعر کہاں کے ہوتے ہیں

کیا کماتے ہیں اب وہاں دیکھیں
جن کو جھگڑے یہاں کے ہوتے ہیں

کُچھ زمیں زاد بھی فلک والو
ہاں اُسی آسماں کے ہوتے ہیں

لامکانی میں کیا وجود اپنا
ایسے فتنے مکاں کے ہوتے ہیں

سخت حیرت میں پڑ نہ جائیں کیوں
جن کو صدمے بتاں کے ہوتے ہیں

اُبھریں لفظوں میں جو مِرے صاحب
سب وہ چھالے زباں کے ہوتے ہیں


محمد عظیم صاحب
 
Top