عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
غزل

تیرے بندے غلام ہیں تیرے
سب ہی صاحب تمام ہیں تیرے

مَیں کہاں ڈھونڈتا پھروں تُجھ کو
کب مُجھے احترام ہیں تیرے

میری بربادیوں کو دیکھو تو
مُجھ سے کتنے بنام ہیں تیرے

اے غمِ عشق میں نہیں تیرا
ہائے کیا کیا مقام ہیں تیرے

مر نہ جائیں خُوشی سے اب صاحب
اِن پہ صدمے حرام ہیں تیرے


محمد عظیم صاحب​
 

عظیم

محفلین

غزل

میری خوشیوں کی انتہا تم ہو
میرے دکهوں کی ابتدا تم ہو

میری خاطر کہوں کہ کیا تم ہو
میرے ہر درد کی دوا تم ہو

بے سہاروں کا تم سہارا ہو
غم کے ماروں کا آسرا تم ہو

اے مرے رازداں تمہی تم ہو
تم ہی تم ہو مِرے خدا تم ہو

اس قدر یوں بکو نہ تم صاحب
لوگ پوچهیں گے کیا بلا تم ہو

محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


غزل


کیوں ترے سجدہ گُزاروں میں رہیں
کیوں خُودی کے تاجداروں میں رہیں

ہم گِھرے ہیں آپ اپنی ذات میں
سوچتے ہیں رازداروں میں رہیں

کیا کمی رہ جائے حُسنِ خلق میں
ہم اگر تنہا نظاروں میں رہیں

اے ہمارے رہنما ہم کو بتا
چھوڑ دیں محلوں کو غاروں میں رہیں

ظلم کی اِس انتہا پر ہے جہاں
اور ہم بھی ان ہی ساروں میں رہیں

صاحب ایسے مت اشاروں میں کہیں
آپ اگر اُن جاں سے پیاروں میں رہیں


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

ایک پیغام لکھ رہا ہُوں مَیں
ہاں ترے نام لکھ رہا ہُوں مَیں

کیوں نہ کاغذ قلم میسر ہوں
تیرا اکرام لکھ رہا ہُوں مَیں

اِس جہانِ خراب کا صاحب
ایک الزام لکھ رہا ہُوں مَیں

ختم ہونے کو زندگی پہنچی
اور انجام لکھ رہا ہُوں مَیں

مسکراؤں بھی کیوں کہ آخر کو
خود کو بدنام لکھ رہا ہُوں مَیں

خاک ہونے دو خاک پر ہی تو
غم کا قہرام لکھ رہا ہُوں مَیں

دن نکلنے میں دیر کتنی ہے
اور پھر شام لکھ رہا ہُوں مَیں

صاحب ان محفلوں سے میں پوچھوں
کیا کہ دشنام لکھ رہا ہُوں مَیں


محمد عظیم صاحب

 

عظیم

محفلین
غزل


اُن کو شاید مِری خبر پہنچے
موت سے قبل بیشتر پہنچے

عالمِ کُل میں کُچھ نہیں اُس بن
دیکھ تیری جہاں نظر پہنچے

ہم نہ پہنچیں نہ جائیں اُس در پر
خاک اپنی بس اُن کے در پہنچے

اتنا کافی ہے لوٹ آئے ہیں
کیا کہیں کس طرح سے گھر پہنچے

جن کی گلیوں میں ہم ہوئے رسوا
صاحب اُن تک مری خبر پہنچے


محمد عظیم صاحب








 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

آج خود سے جُدا کِیا اُن کو
ہم ہیں زندہ بتا دِیا اُن کو

کتنے احسان ہم پہ ہیں اُن کے
ہم نے بدلے میں کیا دِیا اُن کو

آج لگتا ہے یُوں کہ دُنیا سے
جیسے ہم نے چُرا لِیا اُن کو

نام لیتے رہے ہم اُن کا پر
ساتھ رسوا نہیں کِیا اُن کو

صاحب اپنا تو دل گیا سمجھو
جن کی خاطر تھا دے دِیا اُن کو


محمد عظیم صاحب​
 

عظیم

محفلین
غزل

اب کوئی انتظار کس کو ہے
اے دِلِ بےقرار کس کو ہے

اب ہے کس کو طلب زمانے کی
اب زمانے سے پیار کس کو ہے

تیری حسرت میں مٹ گیا ہُوں مَیں
پر مِرا اعتبار کس کو ہے

اے مرے دل تُو ہی بتا جگ میں
تُجھ پہ کُچھ اختیار کس کو ہے

جیت جائیں گے ہم مگر صاحب
ہار جانے پہ ہار کس کو ہے


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


اے مرے رازداں چلے جانا
غم کا باندھو سماں چلے جانا

خاک ہو جاؤں میں ترے غم میں
جب بھی اے مہرباں چلے جانا

کیسے عہد و پیمان اُلفت میں
پر جو بدلوں بیاں چلے جانا

کون پوچھے گا حال تُجھ بن آہ
تُجھ سے کہہ دے زباں چلے جانا

میری دنیا اُجاڑ کر تُم بھی
جانا چاہو تو ہاں چلے جانا

جب یہ پوچھا اُنہیں کہاں ملئے
وہ یہ بولے جہاں چلے جانا

چَین صاحب یہاں نہیں ملتا
چھوڑ شہرِ بتاں چلے جانا


محمد عظیم صاحب





 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

ہم کو غافل تِرا سمجھتے ہیں
دُنیا والے بھی کیا سمجھتے ہیں

تیرے ہم سے نظر چرانے کو
ہاں ہم اپنی خطا سمجھتے ہیں

آدمی کا ہے آدمی دشمن
خود کو دشمن تِرا سمجھتے ہیں

فرض کرتے ہیں خُود پہ تیری یاد
خُود کو تُجھ سے جدا سمجھتے ہیں

کن سے چرچا ہو پارسائی کا
دُنیا والے بُرا سمجھتے ہیں

دیکھ لیجئے جنابِ صاحبؔ آپ
لوگ بُت کو خُدا سمجھتے ہیں


محمد عظیم صاحبؔ

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

کُچھ اور دِل کو الہی مِرے صفائی دے
حصارِ ذات کے محبوس کو رہائی دے

جو کُچھ نگاہ نے دیکھا نظر نہیں آیا
نظر نے جو ہے چھپایا وہ سب دکھائی دے

ہو یُوں قریب وہ میرے کہ رات دن مُجھ کو
کوئی نہ اُس کے علاوہ کہیں سجھائی دے

یہ پوچھنا ہے زمانے کے اِن خداؤں سے
اِسی کے واسطے تُم کو وہ کیا خدائی دے

کہاں ہے تاب کے اُس در تا جا سَکوں صاحبؔ
اور اے کسے مرا گریہ یہاں سُنائی دے



محمد عظیم صاحبؔ
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

میری آنکھوں کے خواب ٹوٹے ہیں
لوگ جانیں عذاب ٹوٹے ہیں

دِل گیا ہے مِرا مُجھے دُکھ ہے
کیوں زمانے خراب ٹوٹے ہیں

آپ کہئے کیا آسمانوں پر
مُجھ سے تارے جناب ٹوٹے ہیں

دِل کا جانا تو خیر جانا تھا
بند اُلفت کے باب ٹوٹے ہیں

آپ کی بات سچ ہے پر صاحب
یُوں کسی پر عذاب ٹوٹے ہیں ؟


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


عہد و پیمان کیا نبھائیں گے
ہم تو خود کو ہی بھول جائیں گے

دیکھئے ! بے رُخی رہی یُونہی
کیوں کسی سے نظر ملائیں گے

روز کہتے ہیں اُن سے حالِ دِل
اِک نہ اِک دِن قرار پائیں گے

عشق ایسا ہے روگ ہم جس کو
دو جہانوں سے چھین لائیں گے

خُود تو بیٹھے ہیں اوٹ میں چھپ کر
اور ہمیں آئینہ دکھائیں گے

اے غمِ زندگی ہمیں ڈر ہے
تیری وحشت سے خوف کھائیں گے

زخم دل کے ہرے بھرے رکھیو
غم کے بادل ہیں لوٹ آئیں گے

دِل بھی آیا تو اُس ستمگر پر
جس پہ صاحب یہ جاں لٹائیں گے

محمد عظیم صاحب


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


اِک عجب جستجو میں رہتا ہُوں
ایک سی آرزو میں رہتا ہُوں

میں ترے نغمہِ ہُو میں رہتا ہُوں
یا اِسی رنگ و بو میں رہتا ہُوں

یاد کرتا ہُوں کن بُتوں کو میں
ہر گھڑی اب وضو میں رہتا ہُوں

بدنصیبی کی انتہا دیکھی
پر خُوئے سُرخرُو میں رہتا ہُوں

ہُوں کُچھ اتنا میں ناتواں صاحب
یار کی جستجو میں رہتا ہُوں


محمد عظیم صاحب

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

کُچھ نہ کہنے کی تھان بیٹھے تھے
آج چھوڑے دھیان بیٹھے تھے

تُم نے دیکھا نہیں مگر ظالم
منبرِ آسمان بیٹھے تھے

خاک لہجہ سنوارتے اپنا
ایک کرکے گمان بیٹھے تھے

وہ جب اُڑنے کی سوچنے نکلے
ختم کرکے اُڑان بیٹھے تھے

ہم ہی صاحب وہ کل تلک اُن کے
ہائے قدموں میں آن بیٹھے تھے


محمد عظیم صاحب
 

الف عین

لائبریرین
یہاں بھی چار پانچ غزلیں پوسٹ کر رکھی ہیں، معلوم نہیں یہ ای میل والی شاعری میں شامل ہیں یا نہیں!!
 

عظیم

محفلین
غزل


اِسطرح چُھپ کے آہ بھرتے ہیں
جیسے کوئی گناہ کرتے ہیں

کیوں بَھلا بات سے پھریں اپنی
کب کسی قول سے مکرتے ہیں

ہم تری چاہ میں خبر کس کو
روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں

ختم کرتے ہیں زندگی اپنی
آج اِس دہر سے گزرتے ہیں

ہم کدھر جائیں ایسے دریا ہیں
جو سمندر میں کم اُترتے ہیں

یاد کرتے ہیں تُجھ کو اے صاحب
جب کبھی دشت سے گزرتے ہیں


محمد عظیم صاحب​
 
Top