You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ
غزل
نگاہِ یار کے جُز کُچھ نہیں ہے
مِرے دلدار کے جُز کُچھ نہیں ہے
نہیں ہے کُچھ مری خاطر یہ دُنیا
مرے انکار کے جُز کُچھ نہیں ہے
ہے کیا محشر میں رسوائی کا خدشہ
بس اک اقرار کے جُز کُچھ نہیں ہے
نظر کے سامنے ہے ایک منظر
کہ پردہ دار کے جُز کُچھ نہیں ہے
بتائیں کیا تُمہیں اُس کی جفائیں
وہ جس کے پیار کے جُز کُچھ نہیں ہے
اُنہیں صاحب بس اتنا تُم بتا دو
کہ حق حقدار کے جُز کُچھ نہیں ہے
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
لو تِیر اُس نظر کے ٹھکانے لگے
ہم ہنسنے لگے مسکرانے لگے
ہوا جب سے اُن کا ہمیں سامنا
ہمیں ناز اپنے پہ آنے لگے
جدھر بھی گئے وہ دکھائی دیئے
جدھر بھی گئے وہ بلانے لگے
بہت بھاگتے تھے وفاؤں سے ہم
مگر اب جفاؤں میں جانے لگے
ادھر بھی کبھی ڈالئے گا نگاہ
نظر آج خود سے چرانے لگے
جنہیں ہم نے خود ہی تراشا ہمیں
وہ بت آسماں سے گرانے لگے
ہوئی جب سے حیرت میں مبہم نظر
نظر وہ کہیں تب ملانے لگے
جناب اِس قدر بھی تکلف ہے کیا
کہ صاحب بھی پینے پلانے لگے
محمد عظیم صاحب
غزل
اِس پار اگر یہ عالم ہے
اُس پار کا عالم کیا ہوگا
دلبر کی اگر یہ حالت ہے
دلدار کا عالم کیا ہوگا
یہ حال ہمارا ہے سوچیں
سرکار کا عالم کیا ہوگا
سو بار کے بوسے کیا کہئے
اک بار کا عالم کیا ہوگا
انکار کا عالم دیکھیں تو
اقرار کا عالم کیا ہو گا
ہم اپنی خبر تو رکھتے ہیں
غم خوار کا عالم کیا ہوگا
یہ حال ہمارا ہے صاحب
اغیار کا عالم کیا ہوگا
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
طبیعت میں روانی چاہتا ہوں
غزل پر حکمرانی چاہتا ہوں
نئی تہذیب ہے لیکن ابهی تک
کئی رسمیں پرانی چاہتا ہوں
جگر میں سوز لہجے میں حلاوت
اور ان آنکهوں میں پانی چاہتا ہوں
زمیں کی سختیاں سب جهیل کر بهی
غضب اک آسمانی چاہتا ہوں
ہوں میں ایسا مسافر دشت والو
یہاں اپنی نشانی چاہتا ہوں
خدائی کی طلب ہے کس کو صاحب
ہوں بندہ بندگانی چاہتا ہوں
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
ہمارے درد کے قصے تمام ہو جائیں
کبھی تو ہم بھی تمہارے غلام ہو جائیں
بس ایک دن کو ہی نکلے مگر کبھی نکلے
ہمارے بخت کا سورج کہ شام ہو جائیں
اے قاصدو ! اُنہیں دینا پیامِ دِل ایسے
ہمارے واسطے اُن کے پیام ہو جائیں
یہاں تلک کہ بُھلا دیں تمام دُنیا ہم
تمہارے گرد میں ادنی مقام ہو جائیں
دٰیں واسطہ بھی اُنہیں اُن کے عشق کا صاحب
اور اُن کے واسطے ہر دم دوام ہو جائیں
محمد عظیم صاحب
غزل
ڈھونڈئیے دشت کیا نشاں اپنا
کوئی ہونا نہیں یہاں اپنا
باندھیئے رخت ہم مسافر ہیں
اور ہی ہے کوئی جہاں اپنا
کُچھ نہیں کُچھ نہیں یہاں اپنا
باغ اپنا نہ باغباں اپنا
جاکے ڈھونڈیں کوئی ٹھکانا اور
یہ زمیں ہے نہ آسماں اپنا
لوٹ جائیں بھی گر کہاں جائیں
گھر رہا ہے نہ آستاں اپنا
کوئی دارو کوئی دوا دیتا
پاس ہوتا جو مہرباں اپنا
ہم نے صاحب ہے خود بُھلا ڈالا
آہ سُن کرکے ہر بیاں اپنا
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
تُمہاری یاد کی محفل جو ہم سجاتے ہیں
زمیں پہ چاند ستارے اُترتے آتے ہیں
یُوں روز تیری محبت میں ہم زمانے کو
ہرایک اپنے پرائے کو بھول جاتے ہیں
کبھی جو تُم نے بُلایا تو کیا نہیں آئے ؟
تمہارے ایک اشارے پہ سر جھکاتے ہیں
ابھی بھی تُم کو محبت پہ اعتبار نہیں ؟
کہ اب تو ہم ترے مجنوں بتائے جاتے ہیں
عجیب لوگ ہیں اِس بزم میں الہی جو
ہمارے عیب سے نظریں چرائے جاتے ہیں
یہ عشق اور ہماری یہ سخت مجبوری
کسی کی چاہ میں دنیا کو ہم بھلاتے ہیں
کوئی بتائے تو صاحب یُوں کس لئے آخر
لہو کو اپنی ان آنکھوں سے ہم بہاتے ہیں
آخری تدوین:
غزل
اقرار کے جھوٹے دعوے ہیں
بیکار کے جھوٹے دعوے ہیں
خوش حال اگر ہیں سچے تو
بیزار کے جھوٹے دعوے ہیں
اک آنکھ سے دیکھو تم دنیا
اُس پار کے جھوٹے دعوے ہیں
کہتا ہے مکمل ہوتا ہُوں
اظہار کے جھوٹے دعوے ہیں
ہر غم کا مداوا پیدا ہے
غم خوار کے جھوٹے دعوے ہیں
ہیں جھوٹ ہماری قسمیں اور
دلدار کے جھوٹے دعوے ہیں
صاحب میں نہیں سچا لیکن
اغیار کے جھوٹے دعوے ہیں
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
خود کو دیکھوں اداس ہو جاؤں
گر طبیعت شناس ہو جاؤں
اے غمِ عشق ، تشنگی میری !
دشت و صحرا کی پیاس ہو جاؤں ؟
دور جانے دو اب مُجھے خود سے
اور تیرے مَیں پاس ہو جاؤں
باندھ مضمون میں ترا حسرت
چاک کردہ لباس ہو جاؤں ؟
اب نہیں دن وہ نام لیں صاحب
اور یہاں مَیں اداس ہو جاؤں
محمد عظیم صاحب
غزل
اب کسے شوق زندگی کا ہے
انتظار اب تو موت ہی کا ہے
ناز کرتے ہیں جو وفاؤں پر
کب اُنہیں خوف دل لگی کا ہے
ہم کہ دل کو ہی چیر لیتے ہیں
چاک سینہ تو ہر کسی کا ہے
جس کی خاطر خوشی ہماری ہے
اے ہمیں غم بھی تو اُسی کا ہے
حسن پردہ نشیں رہے لیکن
شکوہ پردۂِ ظاہِری کا ہے
آہ خاکی نے پیراہن پہنا
آج وہ ہی جو پارسی کا ہے
تم کہاں کے ہو آدمی صاحب
کب تمہیں پاس آدمی کا ہے
محمد عظیم صاحب
غزل
میری آہوں میں گر اثر ہوتا
میرا گریہ کیا اِس قدر ہوتا ؟
گر نہ ہوتا تمہارا عاشق تو
کون دُنیا میں در بدر ہوتا
حال جو ہے اِدھر الہی وہ
حال ویسا ہی تو اُدھر ہوتا
تیری حسرت نہ جاگتی تو کیا
میرے ہاتھوں میں کُچھ ہنر ہوتا
اے مرے بخت کی سیاہی تُجھ
مُجھ بِن اپنا نہیں گزر ہوتا
ہم سے اُکتا گئے ہیں صاحب آپ
جو یہ کہتے ہیں نامہ بر ہوتا
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
شوق کا امتحان لیتے ہیں
ایسے عاشق کی جان لیتے ہیں ؟
ہم جو دیتے ہیں دل کا تحفہ وہ
ہم سے کیا کیا بیان لیتے ہیں
کیا خبر نیتوں کی پر واعظ
حلف اہلِ زبان لیتے ہیں
ہم تری دید کے تمنائی
تُجھ سے ملنے کی تھان لیتے ہیں
خواب گاہوں میں ایک گھر صاحب
ایک ذاتی مکان لیتے ہیں
محمد عظیم صاحب
غزل
دیکھئے کیا جواب دیتے ہیں
خط میں اُن کو سلام بھیجا ہے
ہم نے لکھا ہے حال اِس دل کا
لکھ کے اُن کے ہی نام بھیجا ہے
آج ساقی کی مست نظروں نے
اپنی جانب بھی جام بھیجا ہے
اِس زمیں پر اُس آسماں اپنا
ایک قائم مقام بھیجا ہے
بادشاہی تو دیکھئے اُن کی
ایک ادنی غلام بھیجا ہے
ہم نے صاحب خطوط لکھے ہیں
اور اُن کا پیام بھیجا ہے
محمد عظیم صاحب
غزل
ٹوٹنے آسمان ہیں ہم پر
مہرباں مہربان ہیں ہم پر
ہم کو کتنا یقین اُن پر ہے
اُن کو کیا کیا گمان ہیں ہم پر
داغ دامن کے دُھل چکے لیکن
اب بھی دھبے، نشان ہیں ہم پر
ہم تو بنجر زمین ہیں صاحب
کیوں جھگڑتے کسان ہیں ہم پر
کوئی سائہ کوئی پناہ دیں تو
تب یہ سات آسمان ہیں ہم پر
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
مشق
’’ یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے ‘‘ ( میر تقی میر )
میری رگ رگ سے جاں سے اٹھتا ہے
جو دھواں سا یہاں سے اُٹھتا ہے
یُوں اُٹھایا گیا ہُوں اُس در سے
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
خلد کی محفلوں میں کیوں جائے
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
درد اُلفت کا میرے اِس دل میں
اُس کی ہر ایک ناں سے اٹھتا ہے
ہم اُٹھائیں گے میر وہ پتھر
جو نہ تُجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
کہنے دیجئے عظیم صاحب آپ
درد اپنے بیاں سے اٹھتا ہے
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
وہ زمین و زماں سے اٹھتا ہے
بوجھ غم کا ہے میرے کاندھے جو
کب وہ مجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
روز اُٹھتی ہے آہ سی دل میں
روز اک درد جاں سے اٹھتا ہے
کیا مرے گلستاں سے اُٹھتا ہے
یہ جو دھواں یہاں سے اُٹھتا ہے
بعد مرنے کے جی اُٹھے کیونکر
جو ترے اِس جہاں سے اٹھتا ہے
آہ صاحب کہ حفظ قرآں کا
کب کسی ترجماں سے اُٹھتا ہے
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
پاس رہ کر جو دور ہوتے ہیں
ایسے ظالم ضرور ہوتے ہیں
جن کے لہجے میں کُچھ ملاوٹ ہو
اُن کے دل میں فتور ہوتے ہیں
ہم تو خود سے خفا ہیں اب صاحب
آپ کیونکر حضور ہوتے ہیں
رہنے دیجئے علاج صاحبؔ کا
اِن سے روگی غیور ہوتے ہیں
اُن کی محفل میں گر نہیں چرچا
ہم پہ طعنے ضرور ہوتے ہیں
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
دوستو آؤ آنسو بہائیں کہیں
اُن کے غم میں ذرا مسکرائیں کہیں
کس کو پیاری ہے کم بخت دنیا کہو
دور ہم اِس زمانے سے جائیں کہیں
کیا ہماری دعا میں نہیں اب اثر
یا کسی اور کو جا بلائیں کہیں
قدر داں قدر کیا جانتے ہیں جناب
ورنہ خود کو کبھی ہم نہ پائیں کہیں
ہم عجب طرز کے آدمی ہیں عظیم
روئیں جاکر کہیں گڑگڑائیں کہیں
محمد عظیم صاحب
آخری تدوین:
غزل
کِس غم میں مبتلا ہم ہو کرکے رہ گئے ہیں
جانے کیا بے خُودی میں کیا کیا نہ کہہ گئے ہیں
تُم نے جو ظلم ڈھائے ہم پر جہان والو !
کم بخت دِل کی خاطر سب ہنس کے سہہ گئے ہیں
اب تو ہمارے دِل کی دُنیا میں کُچھ نہیں ہے
پوچھو نہ اور کتنے ارماں بھی رہ گئے ہیں
وائے رے کم نصیبی ! خُونِ جگر کے قطرے
بن کرکے اشک اپنی آنکھوں سے بہہ گئے ہیں
ہم نے عظیم جانے کوئی گناہ کِیا ہے
تنہا سے ہوگئے ہیں تنہا سے رہ گئے ہیں
محمد عظیم صاحبؔ
آخری تدوین: