عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
غزل

لوگ کیا کیا سوال پوچھیں گے
تیرا حسن و جمال پوچھیں گے

آہ ظالم ہیں وصل کے دن کا
میرے دل کا یہ حال پوچھیں گے

میرے بارے میں کُچھ کہیں گے اور
تیرے بارے خیال پوچھیں گے

یہ تو پوچھیں گے مجھ سے میرا غم
یہ تو میرا ملال پوچھیں گے

کیا کہوں گا اِنہیں، الہی! مَیں
تیرے بارے سوال پوچھیں گے

اب نہیں پوچھتے جو یہ صاحبؔ
اگلے ماہ اگلے سال پوچھیں گے



محمد عظیم صاحبؔ​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

بیٹھ جائیے حضور جانے دیں
ہم کو اپنے یہ غم سنانے دیں

مان جاتے ہیں وہ منانے سے
جاکے اُن کو ہمیں منانے دیں

ہے یہ دل کا معاملہ سنئے
شعر کہتے ہیں آپ جانے دیں

رو چکے اور کیا رلائیں آپ
کیجئے ضبط مسکرانے دیں

سُن چکے آپ کی کہی صاحبؔ
اب اِنہیں بھی تو کُچھ سنانے دیں



محمد عظیم صاحبؔ​
 

عظیم

محفلین


جانے کس جُرم کی سزا دی ہے
زندگی جو مجھے عطا کی ہے

اِس سے بہتر تھا رند ہوتا میں
مجھ کو حسرت جو تُجھ خدا کی ہے

میری حالت سے تُو تو واقف تها
کب مرے درد کی دوا کی ہے ؟

آہ میں گر نہیں اثر میری
ہاں مگر تُجھ سے التجا کی ہے

مَیں نہیں ہُوں اگر بُرا صاحب
کیوں پھر اچھی بَھلی سُنا دی ہے




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ہاں مجھے انتظار تھا تیرا
دِل بہت بے قرار تھا میرا

کوئی اُمید اب نہیں تُجھ سے
تُو کبھی غم گسار تھا میرا

ہاں میں تیرے بغیر جی لوں گا
ہاں کہ دشمن تُو یار تھا میرا

تیری اِس بے وفائی پر کب تھا
پر مجھے اعتبار تھا تیرا

چھوڑ کر مُجھ کو چل دیا صاحب
آہ اک طرفدار تھا میرا





 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

ذِکر جن کا زباں پر تهے لاتے رہے
وہ ہمیں دیکهئے تو بهلاتے رہے

ہائے تقدیر کے تهے ستائے ہوئے
اور کچھ لوگ بھی تو ستاتے رہے

کیا کہیں اب کہا جائے گا کچھ نہیں
ہم نہ کیا کیا کہو کہہ سناتے رہے

اتنے مجبور تهے دل کے ہاتهوں سے ہم
چوٹ کهاتے رہے مسکراتے رہے

ہم کچھ ایسے دِوانے تهے شہرِ بتاں
تیری گلیوں میں ماتم مناتے رہے

پهر اُسی خوف کا سامنا ہے عظیم
ہم کہ جس سے نظر کو چُراتے رہے


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

عجب سی آج دل میں لو جَگی ہے
عجب اِک آگ سینے میں لگی ہے

ہوئے بیٹهے ہیں دُنیا سے خفا ہم
ہمیں اَیسی لگن اس کی لگی ہے

سکوں ملتا ہے کتنا اِس جُنوں میں
یہ تشنگی بهی کوئی تشنگی ہے

ابهی سے جان کا دهڑکا ہے دل کو
ابهی تو کاٹنی یہ زندگی ہے

نجانے کس سفر پر چل دیئے ہیں
خبر ہو کیا مقامِ خواجگی ہے

 

عظیم

محفلین



دل کسی غیر سےلگا آئے
کیا کسی اور در گنوا آئے

حیف دُنیا کو ترس آتا ہے
رحم تُجھ کو نہ کُچھ ، ذرا آئے

حال اپنا نہ کھل سکا خود پر
ایک عالم کو ہم سُنا آئے

تیری حسرت کے جاگ جانے پر
اِن نگاہُوں میں اشک کیا آئے

ہجر میں یُوں عظیم جلتے ہیں
خود بجھانے ہمیں ہوا آئے !


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ہم ہیں خاموش اور جہاں چُپ ہے
ہر کوئی دوسرا یہاں چُپ ہے

میرے ہونے کی اک گواہی پر
آہ اب تو مری زُباں چُپ ہے

تھے زمیں زاد تو ازل سے چُپ
کیوں مگر آج آسماں چُپ ہے

میں یہاں چُپ ہُوا اُدھر دیکھو
اور مُجھ سا کوئی وہاں چُپ ہے

عشق وہ راز ہے سُنا جس نے
ہائے میرا وہ رازداں چُپ ہے

تُم، کہ چُپ ہو تو کیا برا صاحب
اب تو نادان ، مہرباں چُپ ہے




 

الف عین

لائبریرین
تَرَس درست ہوتا ہے، ر‘ پر جزم کے ساتھ نہیں۔ یہاں رحم آ سکتا ہے۔
نگاہوں میں نہیں، محض آنکھوں میں اشک آتے ہیں، نگاہ اور چشم میں فرق ہے!!
 

عظیم

محفلین
غزل


دُور تُجھ سے بھی رہ نہ پاتے ہیں
اور نہ خود سے بھی دُور جاتے ہیں

روز تیرے ہی غم میں جانِ جاں
ہم یہاں سوگ یُوں مناتے ہیں

مر بھی جائیں اگر تو کیا حاصل
لوگ آتے ہیں لوگ جاتے ہیں

خُوب روتے ہیں ہم کہیں چھُپ کر
جب سرِ عام مسکراتے ہیں

آئینے دیکھئے بھی کیوں آخر
ہم کو آئینے دیکھ جاتے ہیں

وہ نہیں آئے پر یہ کیا کم ہے ؟
دل کی راہُوں کو ہم سجاتے ہیں

وصل کے، دید کے ہیں خواہشمند
اور جگنو سے خوف کھاتے ہیں

آپ صاحب ہیں کوئی دیوانے
جی کَہِیں اور کی سناتے ہیں


محمد عظیم صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

فکرِ اجر و ثواب میں رہئے
کیوں حقیقی سراب میں رہئے

حُسن اپنا ہی آئینہ ہے تو
لاکھ پردے، حجاب میں رہئے

عشق میں ہم نہیں رہے لیکن
آپ اپنے حساب میں رہئے

محو رہئے بس اُن کی یادوں میں
اور ذکرِ جناب میں رہئے

ہم سے کیا پوچھئے ہماری خیر
آپ اپنی جناب میں رہئے

کیجئے رحم مہرباں اب تو
اور کب تک عتاب میں رہئے

صاحبِ ناتواں یہ کیا جانیں
جاگ جائیں کہ خواب میں رہئے


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

عہد و پیماں نبھا کے دیکھے ہیں
سارے جھگڑے مِٹا کے دیکھے ہیں

خُون آنکھوں میں پر نہیں آتا
اشک اتنے بہا کے دیکھے ہیں

ہم سے کیا ناز اور ادا صاحب
ناز ہم نے خُدا کے دیکھے ہیں

ہم سے دیکھے کیا آسماں والو !ِ؟
فتنے ہم سے اُٹھا کے دیکھے ہیں ؟

ہم نے دیکھے ہیں خوف کے دِن بھی
گر اُجالے بَلا کے دیکھے ہیں

ہم نہ صاحب کما سکے خُوشیاں
ہم نے غم بھی کما کے دیکھے ہیں


محمد عظیم صاحب



 

عظیم

محفلین
غزل

وہم ہے یا کوئی گُماں ہو گا
کب یقین اُس پہ ہمزباں ہو گا

ذرے ذرے میں ڈھونڈتا ہُوں مَیں
میری ہستی ترا نشاں ہو گا ؟

آہ ڈر ہے جو حال ہے میرا
اُس کا ممکن کبھی بیاں ہو گا

عشق میں یُوں گلی گلی بھٹکا
مُجھ سا بھٹکا بھی کم یہاں ہو گا

ایک مُدَّت سے دھوپ کہتی ہے
تیرے سر پر بھی سائباں ہو گا

آہ صاحب تھا رائیگاں جینا
اور مرنا بھی رائیگاں ہو گا

محمد عظیم صاحب

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ کب کہیں؟؟؟
مسترد کرنے کے بعد یا اس سے پہلے؟
میرے علاوہ بھی اساتذہ یہاں قدم رنجہ کریں تو بہتر ہو۔ میں تو اتنی ڈھیر سی غزلوں کو دیکھ کر ہی ہانپ جاتا ہوں!!
 

عظیم

محفلین



عشق میں ہو چکے ہیں دِیوانے
کوئی جانے نہ کوئی پہچانے

ہے جَہاں میکدہ بذاتِ خُود
بند کردو تمام میخانے

بچ کے جائیں بھی تو کہاں آخر
تُجھ سے قاتل یہ چند مرجانے

اب تو ساغر چھلک چُکے ساگر
بھر نہ پائے پہ غم کے پیمانے

کون صاحب دوا کرے اپنی
ہاتھ اُٹھائے ہیں ہر مسیحا نے




 
Top