عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
غزل

زخم دِل کے اگر نہیں کِھلتے
ہم بہاروں سے کیا کبھی ملتے ؟

یہ جو سینہ فگار ہے میرا
چاک ایسے ہیں کیا کہیں سِلتے ؟

سخت کافر ہے وہ تو اُس در سے
ہم اُٹھائے بھی اب نہیں ہِلتے

پھول ہی تھے جناب راہوں میں
خار ہوتے نہ پاؤں یُوں چِھلتے

ہم بھی ملتے عظیم لوگوں سے
لوگ ہم کو جو پھر کبھی ملتے


محمد عظیم صاحب​
 

عظیم

محفلین
غزل

دِین و دُنیا کو بُھول جاتے ہیں
عشق میں جو مقام پاتے ہیں

حیف کرتے ہیں تذکرہ غم کا
اور خوشیوں کو ہم چھپاتے ہیں

شوخئِ دلبراں تُجھے حق ہے
ظلم کیونکر کے خود پہ ڈھاتے ہیں

ہم پہنچتے ہیں یُوں ترے در تک
گویا خُود سے ہی دور جاتے ہیں

دیکھئے غور کیجئے صاحب
خواب یونہی نہیں جگاتے ہیں


محمد عظیم صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل



کتنا بے باک ہو گیا ہُوں مَیں
نُور سے خاک ہو گیا ہُوں مَیں

کیوں ڈراتی ہے آتشِ دوزخ !
جل بجھا راکھ ہو گیا ہُوں مَیں

دُنیا سفاکیوں پہ اُتری ہے
اور چلاک ہو گیا ہُوں مَیں

ذکر دیر و حرم کا کرتا ہُوں
اسقدر پاک ہو گیا ہُوں مَیں !؟

کس خُوشی کا عظیم قصہ ہُوں
یہ جو غمناک ہو گیا ہُوں مَیں


محمد عظیم صاحب​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل


جب کبھی یاد وہ ستاتی ہے
میری دُنیا اُجڑ سی جاتی ہے

میری تنہائی ساتھ میرے اب
اب کسی غیر کو نہ پاتی ہے

یُوں جھکاتا ہُوں اِس نظر کو مَیں
جیسے دُنیا سے شرم آتی ہے

وائے حسرت یہ کیا بَلا ہے عشق
اپنے بے خوف کو ڈراتی ہے

دِن میں اِک آتشی جِلا صاحب
رات میں تیرگی جَلاتی ہے


محمد عظیم صاحب​
 

عظیم

محفلین


اپنی خواہش مٹائے جاتا ہوں
جانے کیا کیا بهلائے جاتا ہوں

وہ کسی غیر سے ملیں جاکر
جن کی راہیں سجائے جاتا ہوں

لوگ سنتے ہیں کب کسی کا غم
پر میں ان کو سنائے جاتا ہوں

میں نہیں جانتا وفا کیا ہے
تجھ سے لیکن نبهائے جاتا ہوں

چهوڑ کر چل دیا ہوں میں خود کو
تجھ کو واپس بلائے جاتا ہوں

اب تو یہ حال ہے مرا صاحب
خود سے خود کو چهپائے جاتا ہوں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

تُجھی سے مانگتے ہیں تُو ہی ہمیں شفا دے گا
کوئی جو اور بھی دے گا اگر تو کیا دے گا

یہ دِل یُوں تیری طلب میں ہے جل چُکا، سُورج
اب اِس میں آن بھی چمکا تو کیا جِلا دے گا

خبر نہیں ہے کہ کس کی تلاش میں ہیں ہم
خبر نہیں ہے یہ رستہ کِسے ملا دے گا

تڑپ رہے ہیں جو فرقت میں تیرے شیدائی
اِنہیں وصال کا عالم قرار کیا دے گا

ہمیں یقین ہے صاحب کہ سُن ہماری بات
زمانہ یاد بھی رکھے گا گر بُھلا دے گا






 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


کہاں گئے ترے عاشق وہ تیرے شیدائی
ترے حضور سے ہٹ کر وہ سخت ہرجائی

یہاں تلک تو سمجھتے ہیں تُم ہمارے ہو
مگر یہ کیا کہ محبت میں صرف رسوائی

کسی کی چاہ میں در در کی خاک چھانی ہے
کہ تُم بھی ظلم ہی ڈھاتی ہو ہم پہ تنہائی

کوئی ہو درد کا درماں تو اے سُنو لوگو
ہم اپنے درد کی کرتے کوئی مسیحائی

چلیں عظیم کہ ہم پر نہ کُھل سکا ، ظالم
وہ راز اتنی ہے جس میں عظیم گہرائی


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کیا مرے درد کی دوا کرتے
گر مسیحا بھی اب ہُوا کرتے

اور کرتے بھی ہم تو کیا کرتے
کیا ترے ذکر کے سِوا کرتے

نام لیتا ہے کوئی کب تیرا
ورنہ ایمان سے سُنا کرتے

ہم بھی اِک بُت تراش لائے ہیں
تھک گئے ہیں خدا خدا کرتے

ہم جو مجنوں ہیں تو ہمارے ہُو
دشت و صحرا بھی کیا رہا کرتے

اپنے بس میں عظیم ہوتا گر
عشق ہونا تو کیوں بھلا کرتے

اُن کی محفل سے دور جاکر آپ
کاش صاحب کہ رو لِیا کرتے​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


کیا مرا ضبط آزماتے ہیں
لوگ جو اسقدر ستاتے ہیں

خون روئیں وہ مسکرا جن کو
تیرے ظلم و ستم رلاتے ہیں

میں جنہیں ڈهونڈتا پهرا در در
بیٹھ دل میں وہ مسکراتے ہیں

اب یہ حالت ہے رات دن مجھ کو
بس اُسی کے خیال آتے ہیں

کس کے غم میں ہیں مبتلا صاحب
آپ خود کو جو یوں مٹاتے ہیں

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


اپنا زخمِ جِگر دِکھاؤں مَیں
بول روؤں یا مُسکراؤں مَیں

اِس زمانے کو چھوڑ جاؤں مَیں
وہ بُلالے تو دوڑ جاؤں مَیں

کس کو جاکر کہو سُناؤں مَیں
تیرا نغمہ جو گنگناؤں مَیں

ایک دُنیا الگ بَسی ہے اور
ایک دُنیا الگ بَساؤں مَیں

اپنی حالت سے خوف آئے ہے
اپنی صورت سے منہ چھپاؤں مَیں

خُود سے کیسے نظر ملاؤں مَیں
سخت کافر ہُوں کیا بتاؤں مَیں

مشکلیں تو نصیب تھیں صاحب
پر یہ مشکل ہے لوٹ پاؤں مَیں




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ہراِک خواہش مِٹادی ہے
مگر تُم نے جفا کی ہے

تُم اِک بُت ہو مگر تُم میں
ہراِک شوخی خُدا کی ہے

گِلے کیا کیا نہیں ہم کو
مگر دیکھو حیا کی ہے

اُٹھے پھربھی نہ اُس در سے
کہ لاش اپنی اُٹھا لی ہے

دھڑکتا ہے وہ کیا صاحب
جو دِل اُس کا سوالی ہے


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


جب بھی حالت مری سُدھرتی ہے
بے کلی اعتراض کرتی ہے

ایک وحشت سی رُوح پر میری
دِن ڈھلے رات بھر اُترتی ہے

زندگی یُوں بسر نہ چاہی تھی
زندگی جُوں مری گُزرتی ہے

کیا کہوں دِل کے وجد کا عالم
جب تری یاد بَن سنورتی ہے

خاک میری ہے خاک ایسی خاک
خُود بکھرنے پہ جو بکھرتی ہے

ہم مکرتے ہیں بات سے صاحب
تو یہ دُنیا بھی تو مُکرتی ہے


 

عظیم

محفلین
اپنی صورت سے آشنا ہوتے
کاش اپنے میں مبتلا ہوتے

ہو تمہیں ایک تو بھلا کیونکر
ہم کوئی اور دُوسرا ہوتے

کیوں کہ رکھتے بُتوں سے ہم اُمید
اِن میں تُجھ سے اگر خُدا ہوتے

سوچتے ہیں اگر نہ ہوتے ہم
تُم بھی ہوتے اگر تو کیا ہوتے

مدحتِ یار میں ہی رہتے محو
ہم جو صاحب غزل سرا ہوتے

ایک لمحے میں انتہا قامت
عمر لگتی ہے ابتدا ہوتے

کیا نہ سنتے ہماری آہوں کو
صاحب اپنے جو ہمنوا ہوتے


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

ہم ترے شہر سے گُزر جائیں
سوچتے ہیں کہ آج مر جائیں

کیا بچا ہے سوائے آہوں کے
کس لئے تُو بتا کہ گھر جائیں

تھک گئے پوچھتے کدھر جائیں
ہم اِدھر جائیں یا اُدھر جائیں

جاں نہیں جاں جو جاں چلی جائے
دل نہیں دل جو غم سے بھر جائیں

یوں نہ ہو عشق میں ترے ظالم
ہم کسی قول سے مکر جائیں

خاک ہیں خاک ہی مقدر ہے
خاک بن کر کہیں بکھر جائیں

روک لیجئے عظیم اپنوں کو
اِس سے پہلے کہ چھوڑ کر جائیں



 

عظیم

محفلین

اپنے سائے سے ڈر کے بیٹھے ہیں
خُود سے پردہ سا کرکے بیٹھے ہیں

دیکھ جینے کی آرزو میں ہم
مٹ کے بیٹھے ہیں مر کے بیٹھے ہیں

دُور اپنے گھروں سے جانے کیوں
آج کُچھ فرد گھر کے بیٹھے ہیں

تیرے ہجراں میں ہم بتائیں کیا
جو نہ کرنا تھا کرکے بیٹھے ہیں

ہم ستاروں کی چاہ میں صاحب
خاک جھولی میں بھر کے بیٹھے ہیں



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


اک نہیں بے شمار جائیں گے
تیرے در تک ہزار جائیں گے

اے نگہ دوست قتل ہونے کو
ہونے تیرا شکار جائیں گے

یوں نہ جائیں گے چھوڑ کر دُنیا
ہوکے تُجھ پر نثار جائیں گے

تیرے در سے اُٹھے تو کس جانب
یہ ترے بے قرار جائیں گے

ہم نکالے گئے ہیں جنت سے
اک نہیں لاکھ بار جائیں گے

جیت جائیں گے ہم سے وہ صاحب
ہاں مگر ہم کو ہار جائیں گے





 

عظیم

محفلین


آپ اپنی اَنا کے بندے ہیں
ہم تو صاحب خُدا کے بندے ہیں

دیکھ لیتے ہیں غم فضاؤں کا
ایسی آب و ہَوا کے بندے ہیں

ظلم ڈھاتے ہیں جان پر اپنی
ہم مقابل سزا کے بندے ہیں

ہیں جفاؤں میں گِھر چُکے لیکن
ہم بھی صاحب وفا کے بندے ہیں

کیا روش ہے عظیم صاحب کی
کیسی طرزِ اَدا کے بندے ہیں





 

الف عین

لائبریرین
عشق میں ہو چکے ہیں دِیوانے
کوئی جانے نہ کوئی پہچانے
÷÷دوسرا مصرع پہلے سے ربط نہیں رکھتا، یوں کہو۔
اب یہ صورت ہے، کون پہچانے

ہے جَہاں میکدہ بذاتِ خُود
بند کردو تمام میخانے
÷÷اس میں پہلا مصرع بات مکمل نہیں کرتا، یوں کہا جائے
اس کی آنکھیں ہیں، اب ضرورت کیا

بچ کے جائیں بھی تو کہاں آخر
تُجھ سے قاتل یہ چند مرجانے
÷÷اس کا متبادل سوچنا پڑے گا کچھ۔ ’چند مر جانے‘ سے بات سمجھ میں نہیں آتی، بجائے ’چند مر جانے والے‘ کے۔

اب تو ساغر چھلک چُکے ساگر
بھر نہ پائے پہ غم کے پیمانے
۔۔بات سمجھ میں نہیں آ سکی کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟ شاید یہ بات ہو تو یوں کہی جائے۔
کتنے ساگر سما گئے اس میں
بھر نہیں پائے غم کے پیمانے

کون صاحب دوا کرے اپنی
ہاتھ اُٹھائے ہیں ہر مسیحا نے
÷÷درست، بلکہ خوب
 
Top