عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین


دِل گیا جاں گنوائیں گے اِک دِن
جو کہیں کر دِکھائیں گے اِک دِن

کرکے بیٹھے ہیں رُخ تری جانب
شہرِ جاناں ہم آئیں گے اِک دن

ہم سے بد بخت ہی جہاں والو
خاک اپنی اُڑائیں گے اِک دن

ہم تمہیں تو سُنا چُکے ہیں غم
ساری دُنیا رُلائیں گے اِک دن

کیوں نکالے گئے ہیں جنت سے
مردمِ ہم بتائیں گے اِک دن

ہو چکے ہم عظیم شیدائی
لوگ شیدا بلائیں گے اِک دن


 

عظیم

محفلین

دشت و صحرا کو چھوڑ جائیں کیوں
ہم کہیں اور گھر بنائیں کیوں

تُم ہی کہہ دو ہماری مجبوری
مربھی جائیں تو مربھی جائیں کیوں

ہیں شب و روز منتظر جن کے
ہم سے ملنے جناب آئیں کیوں

سوچتے ہیں یہ غم کا افسانہ
ہم زمانے کو جا سنائیں کیوں

پوچھنے پر بھی حالِ دِل صاحب
ہم کسی غیر کو بتائیں کیوں


 

عظیم

محفلین


دل بھرا آپ کے دِوانے کا
ہو بھلا ہم چلے زمانے کا

ہم نئے زخم ڈھونڈتے ہیں اور
آپ کو مان ہے پرانے کا

دل جلا ہے ہمارا سنئے تو
کیا ہمیں فائدہ جلانے کا

تنکا تنکا لہو میں ڈوبا ہے
عہدِ حاضر کے آشیانے کا

لفظ صاحب تلاش لائیں گے
حوصلہ تو ہو سچ سنانے کا







 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

اپنے ہر جُرم کی سزا چاہُوں
میری اوقات دیکھ کیا چاہُوں

عشق پر یہ مِرا دِیوانہ پن
ہُوں جفاکار اور وفا چاہُوں

غم کی عادت سی ہوگئی ہے اب
روز صدمہ کوئی نیا چاہُوں

کیسا مقتول ہُوں مَیں قاتل سے
آپ اپنا ہی خُوں بَہا چاہُوں

چاہتا ہُوں مَیں اِک ستمگر کو
حوصلہ صبر آزما چاہُوں

سوچتا ہُوں عظیم چاہُوں کیا
مَیں اگر یار کے سِوا چاہُوں




 

عظیم

محفلین


لوکو او غم خوار بُھلائے جاندے نئیں
میتھوں میرے یار بھلائے جاندے نئیں

اللہ ہُو دا ذکر کریندے ڈٹھے سن
اگلے او بیمار بُھلائے جاندے نئیں

سو واری لَکھ وار بُھلاکے ڈٹھا اے
میتھوں او اک وار بُھلائے جاندے نئیں

یاد کراں اقرار جے فرصت ہووے تے
سوہنیاں دے انکار بُھلائے جاندے نئیں

ویکھ نمانے لوگ بھلائے جا سکدے
صاحب جئے لاچار بُھلائے جاندے نئیں

 

عظیم

محفلین


جانے کِس کو پکارتے ہیں ہم
یہ جو لہجہ سنوارتے ہیں ہم

کب گزرتی ہے یُوں گُزرنے سے
زندگی جُوں گزارتے ہیں ہم

ہار کر عمرِ جاوداں اپنی
جاں کی بازی نہ ہارتے ہیں ہم

ایک لمحے میں ہجر کے تیرے
لاکھ صدیاں گُزارتے ہیں ہم

اب کے بگڑے ہیں ایسے کُچھ صاحب
بیٹھ خُود کو سدھارتے ہیں ہم

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
واہ، بہتری آ رہی ہے،
جانے کِس کو پکارتے ہیں ہم
یہ جو لہجہ سنوارتے ہیں ہم
۔۔خوب

کب گزرتی ہے یُوں گُزرنے سے
زندگی جُوں گزارتے ہیں ہم
۔۔بس ’جوں‘ کا استعمال ذرا۔۔۔ سر میں پڑ جانے والی مخلوق کا خیال آتا ہے۔

ہار کر عمرِ جاوداں اپنی
جاں کی بازی نہ ہارتے ہیں ہم
۔۔بس یہ شعر معنی خیز نہیں،

ایک لمحے میں ہجر کے تیرے
لاکھ صدیاں گُزارتے ہیں ہم
۔۔بہت خوب

اب کے بگڑے ہیں ایسے کُچھ صاحب
بیٹھ خُود کو سدھارتے ہیں ہم
۔۔بیٹھ خود‘ کے الفاظ کریہہ ہیں، الفاظ بدل دو تو بہتر ہو جائے۔

مزید کچھ اشعار اس زمین میں کہو تو ایک شعر نکال کر بھی پانچ چھ اشعار کی غزل تو مکمل ہو جائے۔
 

عظیم

محفلین


اب کہاں اختیار ہے خُود پر
ایک خُود سا خمار ہے خُود پر

طنز اوروں پہ کیا کِیا جائے
اب کے طعنہ تیار ہے خُود پر

عشق اپنا فریفتہ ہے اور
حُسن خُود جاں نثار ہے خود پر

بارِ گریاں جو ہم کو سونپا ہے
کیا غمِ روزگار ہے خُود پر

سچ ہی کہتے ہیں ہم مگر صاحب
کب ہمیں اعتبار ہے خُود پر



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
واہ، بہتری آ رہی ہے،
جانے کِس کو پکارتے ہیں ہم
یہ جو لہجہ سنوارتے ہیں ہم
۔۔خوب

: )

کب گزرتی ہے یُوں گُزرنے سے
زندگی جُوں گزارتے ہیں ہم
۔۔بس ’جوں‘ کا استعمال ذرا۔۔۔ سر میں پڑ جانے والی مخلوق کا خیال آتا ہے۔
ہاہا بابا ۔۔۔
آپ کے سر میں جوئیں ہیں : ) ؟


ہار کر عمرِ جاوداں اپنی
جاں کی بازی نہ ہارتے ہیں ہم

۔۔بس یہ شعر معنی خیز نہیں،
جی بہتر بابا : )

ایک لمحے میں ہجر کے تیرے
لاکھ صدیاں گُزارتے ہیں ہم
۔۔بہت خوب

: )

اب کے بگڑے ہیں ایسے کُچھ صاحب
بیٹھ خُود کو سدھارتے ہیں ہم
۔۔بیٹھ خود‘ کے الفاظ کریہہ ہیں، الفاظ بدل دو تو بہتر ہو جائے۔

خود کو بیٹھے سدھارتے ہیں ہم ؟؟؟

مزید کچھ اشعار اس زمین میں کہو تو ایک شعر نکال کر بھی پانچ چھ اشعار کی غزل تو مکمل ہو جائے۔

جی بابا کوشش کروں گا : )

دعائیں
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل، بلکہ خوب۔ بس مقطع میں روانی کم ہے، اور ’دِوانہ پن‘ اچھا نہیں لگتا۔ کچھ تبدیل کر کے ؔپاگل پن‘ لے آؤ یہاں
 

عظیم

محفلین
درست ہے غزل، بلکہ خوب۔ بس مقطع میں روانی کم ہے، اور ’دِوانہ پن‘ اچھا نہیں لگتا۔ کچھ تبدیل کر کے ؔپاگل پن‘ لے آؤ یہاں

پاگل پن ہی تھا بابا پاگل ہونے کے ڈر سے دیوانہ کردِیا اب پھر پاگل بننے کے بارے میں سوچتا ہُوں : )
 

الف عین

لائبریرین
اپنا اختیار بھی ہے اس میں؟ میں تو سمجھتا تھا کہ لوگ پاگل ہو جاتے ہیں، بنتے نہیں۔
 
Top