سُن چُکے قہقہے رقیبوں کے
دِن پھرے آج ہم غریبوں کے
ہم سے رندوں سے کھیلئے واعظ
کھیل آئیں کبھی نصیبوں کے
اِن کو سونپا گیا ہے غم اُن کا
ناز دیکھیں تو بد نصیبوں کے
اِس متاعِ ہنر کا کیا کیجئے
کام آئے نہ ہم غریبوں کے
سُن کے اِس جانِ سوختہ کا دُکھ
منہ کھلے رہ گئے طبیبوں کے
جب ہے خُود سے کلام اپنا شیخ
طور کیا سیکھئے خطیبوں کے
بابا دو چار قافیوں کو ہی رگڑا دے دِیا ۔ لاہور کی لسی یاد آ گئی ۔
دِن پھرے آج ہم غریبوں کے
ہم سے رندوں سے کھیلئے واعظ
کھیل آئیں کبھی نصیبوں کے
اِن کو سونپا گیا ہے غم اُن کا
ناز دیکھیں تو بد نصیبوں کے
اِس متاعِ ہنر کا کیا کیجئے
کام آئے نہ ہم غریبوں کے
سُن کے اِس جانِ سوختہ کا دُکھ
منہ کھلے رہ گئے طبیبوں کے
جب ہے خُود سے کلام اپنا شیخ
طور کیا سیکھئے خطیبوں کے
بابا دو چار قافیوں کو ہی رگڑا دے دِیا ۔ لاہور کی لسی یاد آ گئی ۔
آخری تدوین: