عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
مر چلے دید یار کی خاطر
ہم رہے انتظار کی خاطر

اپنا ہر قول ہم نے جهٹلایا
اک ترے اعتبار کی خاطر

کوئی ہم کو تسلیاں دے ہے
اس دل بیقرار کی خاطر

تاجداروں نے تاج ٹهکرائے
ایک اس تاجدار کی خاطر

مفلسی اور اس پہ مایوسی
اسقدر جاں نثار کی خاطر

خون رو دوں گا کوئی آئے تو
میں مرے غم گسار کی خاطر

وہ بهی کیا سر کو دهن رہی ہوگی
صاحب اختیار کی خاطر
 

عظیم

محفلین
آزماتے ہیں آزما رہئے
دیکهئے کب تلک خفا رہئے

ہے مرض عشق کا ہمیں لاحق
دور ہم سے پرے، جدا رہئے

کیجئے اور دل کی غارت آپ
آج اس دل کی تو سنا رہئے

بار جاں ناگزیر ہے لیکن
ہم سے جب تک اٹهے اٹها رہئے

یاں بنی جان پر ہماری اور
آپ اغیار سے بنا رہئے

صاحب اس بیخودی پہ اتنا مان
اپنی حد میں سنیں ذرا رہئے
 

عظیم

محفلین
تمہارے غم میں اجڑ چلے ہیں
چلے بهی آو کہ مر چلے ہیں

جو خواب تم نے دکهائے ہم کو
تمہاری خاطر بکهر چلے ہیں

رکو ذرا گردش زمانہ
گزرنے والے گزر چلے ہیں

نہ پوچهئے آئے کس طرف سے
جنوں کے مارے کدهر چلے ہیں

وہی سہاروں کا ہے سہارا
یہ بے سہارے جدهر چلے ہیں

اے میرے قاتل ذرا ٹهہر تو
ہم اپنی آئی ہی مر چلے ہیں

عظیم صاحب ہوئے جو رسوا
گو نام دنیا میں کر چلے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مجھ کو تو ہنسی نہیں آتی۔ دو اشعار تو خوب ہیں۔ مطلع میں انتظار، اور آخری چاروں اشعار کے قوافی کا استعمال ٹھیک نہیں لگ رہا۔
 

الف عین

لائبریرین
اس بات کا ثبوت ہے کہ میں لگی لپٹی نہیں رکھتا۔ کوئی کتنا ہی عظیم ہو یا مشہور ہو، کچھ نہ کچھ غلطی محسوس ہوئی ہو تو ’نواز ‘ہی دیتا ہوں۔
 

عظیم

محفلین
نہیں جانتا ہوں کہ کیا ہو گیا
مگر دوستو عشق سا ہو گیا

جسے میں تراشا کیا آنکھ سے
وہی بت ہے میرا خدا ہو گیا

بهلے بخش دے آخرت کو ندیم
یہی سوچ کر میں بهلا ہو گیا

کہاں دل کی پاکیزہ خواہش کہ میں
تمہاری نظر میں برا ہو گیا

لئے جاوں گا خاک اپنی عظیم
اگر نام سا میں بڑا ہو گیا
 

عظیم

محفلین
اپنا گهر بار چهوڑ آئے ہیں
رشتے اپنوں سے توڑ آئے ہیں

دل ہمارا تها چور ہم لیکن
اہل دنیا کا جوڑ آئے ہیں

اس کے در پر یہ سر تو کیا اپنا
آج ماتها بهی پهوڑ آئے ہیں

وہ ہمیں قتل کو بلاتا تها
ہم تهے مقتول دوڑ آئے ہیں

یہ جو سب لوگ ہیں جہاں ٹهہرے
راستے ہم وہ چهوڑ آئے ہیں

ان کے ہاتهوں ہے کب رچی مہندی
خون دل کا نچوڑ آئے ہیں

صاحب ان غافلوں سے پوچهو آج
کیسی جنت کو چهوڑ آئے ہیں
 

عظیم

محفلین
اے مرے غم گسار کیا ہوں میں
تیرے غم میں جو مبتلا ہوں میں

اک شکایت ہوں تیری دنیا سے
تیری دنیا کا اک گلا ہوں میں

اپنی بربادیوں کو روتا ہوں
خوش نصیبی کا معجزہ ہوں میں

ہے مرے بخت میں سیاہی لیک
ان اندهیروں میں جاگتا ہوں میں

کیوں بهلاتے ہو اے جہاں والو
سن تو لو یار کا کہا ہوں میں

کچھ نہیں آس پاس میرے اب
اور دیکهو تو کب رہا ہوں میں

ایک مظلوم کی تمنا ہوں
ایک کم بخت کی دعا ہوں میں

کیوں کے بهولے ہیں لوگ صاحب کو
کب کے اس نے کہا خدا ہوں میں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ساقیا ہوش میں نہ آنے دے
اپنی پرواز آزمانے دے

ہے یہ دنیا دهکیلتی مجھ کو
دور دنیا سے کچھ ٹهکانے دے

میں کہاں تیرے ورد کے قابل
بهول جانے دے بهول جانے دے

اسقدر درد دے دیا ہے تو
خون آنکهوں سے بهی بہانے دے

کردے رسوا ہزار دنیا میں
ہاں مگر آخرت کمانے دے

چهوڑ کر چل دیئے مجهے تنہا
اور کہتے ہیں پاس آنے دے

ہم سے کیا پوچهئے کہ مالک ہے
جتنے چاہے کسی کو دانے دے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
عشق میں نام کر لیا جائے
آج فرصت ہے مر لیا جائے

کیا خبر کون اس زمانے میں
کون آخر کو دهر لیا جائے

ہے بہاراں ہماری خلوت میں
اک نظارہ تو کر لیا جائے

آئینہ دیکھ دیکھ ہنستے ہیں
کیوں نہ خود سے مکر لیا جائے

عشق وہ دشت ہے کہ ہو پایا
کس جو ہم سے گزر لیا جائے

رفتہ رفتہ سمیٹئے خود کو
لمحہ لمحہ بکهر لیا جائے

لوٹ آئیں عظیم وہ شاید
ان اشارا تو کر لیا جائے
 

عظیم

محفلین
آپ سا گر کوئی جناب نہیں
ہم سا بهی خانماں خراب نہیں

یہ تغافل یہ دوریاں ہم سے
اسقدر یوں نہیں جناب نہیں

آج ہم کو ہمارے ہی غم کا
اور خوشیوں کا کچھ حساب نہیں

یہ کرم ہے ہمارے آقا کا
صاحبو جان پر عذاب نہیں

سخت جانی وہ آئی اپنے ساتھ
جس کو سہنے کی ہم میں تاب نہیں
 
Top