خوب میاں۔ کچھ ہی اغلاط ہیں جو سدھاری جا سکتی ہیں۔
آپ سا گر کوئی جناب نہیں
ہم سا بهی خانماں خراب نہیں
÷÷گو کوئی آپ سا ۔۔۔
کر دو پہلا مصرع، ’سا گر‘ سو الفاظ کی کوئی ایک فظ ’ساگر‘ بھی پڑھ سکتا ہے
یہ تغافل یہ دوریاں ہم سے
اسقدر یوں نہیں جناب نہیں
۔۔دوسرا مصرع یوں ہو تو۔۔
بندہ پرور! نہیں، جناب نہیں
آج ہم کو ہمارے ہی غم کا
اور خوشیوں کا کچھ حساب نہیں
ہم کو حساب نہیں!! یہ کیا محاورہ ہوا۔ ’اب دکھوں کی بھی کچھ نہیں گنتی‘ یا اس قسم کا پہلا مصرع ہو تو۔۔
یہ کرم ہے ہمارے آقا کا
صاحبو جان پر عذاب نہیں
÷÷مفہوم؟
سخت جانی وہ آئی اپنے ساتھ
جس کو سہنے کی ہم میں تاب نہیں
واہ، درست
س کے در پر یہ سر تو کیا اپنا
آج ماتها بهی پهوڑ آئے ہیں
سر اور ماتھا پھوڑنا، ایک ہی بات ہے۔
یہ جو سب لوگ ہیں جہاں ٹهہرے
راستے ہم وہ چهوڑ آئے ہیں
÷÷یہ؟ یعنی یہ سب لوگ یا یہ راستے؟ واضح نہیں
ہر شعر میں بخش دیا ہے @عظیم۔ خوب کہی ہے غزل۔ مقطع میں ’خداُ کے قافئے پر نہیں۔ ’کیوں کے‘ اور ’کب کے‘ پر اعتراض ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟
کیوں کے بهولے ہیں لوگ صاحب کو
کب کے اس نے کہا خدا ہوں میں
خوب۔ دو چار غلطیوں کی نشان دہی کر دوں
کیا خبر کون اس زمانے میں
کون آخر کو دهر لیا جائے
÷÷دو بار کون‘ اچھا نہیں لگ رہا، ضرورت بھی نہیں ہے۔
کب، کہاں کیسے دھر لیا جائے
کہو تو واہ واہ!!
عشق وہ دشت ہے کہ ہو پایا
کس جو ہم سے گزر لیا جائے
سمجھ میں نہیں آیا۔
لوٹ آئیں عظیم وہ شاید
ان اشارا تو کر لیا جائے
۔۔ان اشارہ؟ اس سے کیا مراد ہے
کچھ اشارہ ہی کر لیا جائے
واضح الفاظ میں کہنے کی کوشش کرو۔ خواہ مخواہ میر صاحب نہ بنو، عظیم صاحب ہی رہو!!
سوچو خود ہی
مفلسی اور اس پہ مایوسی
اسقدر جاں نثار کی خاطر
کس پر جاں نثار کرنے والا؟ مایوسی کس کو ہے۔ جاں نثار بھی شاعر کو ہی ہونا چاہئے۔ اور مفلسی کس کو؟؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔