عشق کی آگ میں جلا ہوں میں
اہل دوزخ سنو چلا ہوں میں
÷÷کہاں چلے ہو؟ یہ بھی تو واضح ہو!!
جنت سے دہی لینے بابا -
ہوں کسی اور سے برا لیکن
آج اپنے سے کچھ بهلا ہوں میں
÷÷مفہوم؟
بابا شاعر کو ایک بیماری ہے وہ اپنے آپ کو کوستا رہتا ہے -
ڈاکڑ نے کہا ہے کہ اگر طبیعت زیادہ خراب ہو تو دوسروں سے رجو کرو ! شاعر اب رجو میں لگا ہے - اور دوسرے بیماروں کو کهانستا دیکه اپنے دل کو تسلیاں دے رہا ہے کہ بهائی ایک دو سے تو اچها ہوں -
عشق مجھ کو پکارتا ہے بول
صاحب اس جان کی بلا ہوں میں
÷÷مفہوم؟
بابا یہ تو آسان ہے اب بهی نہیں سمجهے - افففف - بابا شاعر نے ڈاکڑ کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو دیکها تو اس نے پایا کہ ہر طرف عشق کا رونا ہے - وہ کلینک سے جیسے ہی باہر نکلا تو دیکهتا ہے کہ حضرت عشق سڑک کے دوسرے کنارے پر کهڑے موصوف کو بلا رہے ہیں اور ساته ہی ساته دهمکیاں دے کر ان کے منہ سے یہ اگلوانا چاہتے ہیں کہ محترم عشق صاحب جان کی بلا ہیں -
کوئی دیکهے یہ میرا مٹ جانا
کوئی دیکهے کہ مر چلا ہوں میں
÷÷درست
جی بابا مگر مجهے یقین ہے کہ آپ ٹهیک سے سمجهے نہیں ہونگے - چلئے میں ہی بتا دیتا ہوں - کہیں اپنے دوستوں میں میری برائیاں ہی نہ کرتے پهریں - جس کو چلنا سکهایا اب وہ دوڑتا ہے -
بابا اس شعر میں شاعر سڑک پار کرکے حضرت عشق کے پاس پہنچنا چاہتے تهے کہ اچانک ایک چنگ چی رکشہ نے انہیں ٹکر مار دی اور یہ بیچارے جا پڑے اسی پار جس پار سے چلے تهے - دوسرے مصرع میں جناب آخری دموں پر معلوم ہوتے ہیں - اور مرتے مرتے دوسروں کا بهی جینا حرام کرنا چاہتے ہیں - ظاہر ہے کوئی مرنے والے کو کیوں دیکهے تماشا تو زندہ لوگوں کا لگا ہے -
بابا شاعر لوگ اپنے شعر کی تشریح نہیں کرتے ایسا سنا تها میں نے مگر بابا آپ کی خاطر کر دی تاکہ آپ بهی تهوڑا بہت شاعری کے بارے جان لیں -